Daily Sub News:
2025-12-11@15:23:24 GMT

کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے

اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT

کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے

کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے WhatsAppFacebookTwitter 0 26 October, 2025 سب نیوز


تحریر: محمد محسن اقبال


کہا جاتا تھا کہ برطانوی سلطنت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا — یہ جملہ فخر کا بھی تھا اور طنز کا بھی۔ کیونکہ جس طرح اس سلطنت کی حدود براعظموں تک پھیلی ہوئی تھیں، اسی طرح اس کے سائے بھی تاریخ کے کئی خطوں پر دراز ہوگئے۔

برطانوی تاج کے تحت کیے گئے دو فیصلوں نے جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں وہ بیج بوئے جن کی جڑیں آج بھی خون میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ایک فیصلہ برصغیر کی تقسیم کا تھا، جو 1947 میں ہوا جس میں کشمیر کے تناظر میں بد نیتی پر مبنی سرحدی لکیریں کھینچی گئیں، اور دوسرا 1917 کا بالفور اعلامیہ۔ دونوں فیصلے امن اور انصاف کے نام پر پیش کیے گئے، مگر دراصل یہ دائمی تنازعات کی تمہید ثابت ہوئے۔


جنوبی ایشیا میں ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کو آزادی اور خود ارادیت کا مظہر قرار دیا گیا۔ مگر سر سیریل ریڈ کلف کی کھینچی ہوئی جلدباز لکیروں کے پیچھے سازشوں اور مصلحتوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ اس کا سب سے واضح ثبوت گرداسپور کا ضلع ہے، جو مسلم اکثریت کے باوجود بھارت کو دے دیا گیا۔ یہی ایک فیصلہ کشمیر کی تقدیر بدلنے کا سبب بنا۔ گرداسپور وہ واحد زمینی راستہ تھا جس کے ذریعے بھارت نے جموں و کشمیر تک رسائی حاصل کی اور چند ہی مہینوں میں اپنی فوجیں وہاں داخل کر دیں۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کردار، جس پر مؤرخین نے ہمیشہ سوال اٹھائے ہیں، آج تک جانبداری کے شائبے سے مبرا ثابت نہیں ہو سکا۔ بعد ازاں برطانوی سرکاری ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ تقسیم کی سرحدوں میں آخری لمحات میں ترمیم ماؤنٹ بیٹن کے دفتر کے دباؤ پر کی گئی تاکہ بھارت کو تزویراتی برتری حاصل ہو سکے۔


دنیا بھر میں کشمیری 27 اکتوبر 1947 کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں — وہ دن جب بھارت نے کشمیر پر ناجائز قبضے کا آغاز کیا اور پھر انسانی حقوق کی پامالیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک نہیں تھما۔ ایک بددیانت سرحد سے شروع ہونے والا سانحہ اب دنیا کے طویل ترین تنازعات میں سے ایک بن چکا ہے، جہاں انصاف اور انسانیت خاردار تاروں کے پیچھے قید ہیں۔
خود تقسیم برصغیر کا عمل کسی منظم منتقلی کے بجائے قتل و غارت، لوٹ مار اور ہجرت کا طوفان تھا۔ دس لاکھ سے زائد انسان مارے گئے، اور پندرہ ملین کے قریب لوگ بے گھر ہو گئے — انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جبری ہجرتوں میں سے ایک۔ پورے کے پورے گاؤں مٹ گئے، اور سرحد پار کرنے والی ٹرینیں زندہ انسانوں کے بجائے لاشوں سے بھری ہوتی تھیں۔ برطانیہ کا ہندوستان سے انخلا ایک منظم نوآبادیاتی اختتام نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا جلدی میں کیا گیا فرار تھا، جس نے پیچھے تلخی، نفرت اور تقسیم کی داستان چھوڑ دی۔ آج بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات انہی فیصلوں کے زخموں سے عبارت ہیں، اور کشمیر اس المیے کا نہ بھرنے والا ناسور ہے۔


تین دہائیاں قبل مشرقِ وسطیٰ میں بھی ایک ایسا ہی دھوکہ دیا گیا۔ 2 نومبر 1917 کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے برطانوی یہودی رہنما لارڈ لائینل روتھ شائلڈ کے نام ایک خط لکھا — جو تاریخ میں ”بالفور اعلامیہ” کہلاتا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ برطانوی حکومت فلسطین میں یہودی قوم کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اُس وقت فلسطین میں عرب مسلمان اور عیسائی اکثریت میں تھے جو صدیوں سے امن کے ساتھ رہتے آئے تھے۔ مگر برطانیہ نے ان کی رائے لیے بغیر ان کی سرزمین دوسروں کو دینے کا وعدہ کر لیا۔


یہ اعلان کسی اخلاقی جذبے کا نہیں بلکہ سیاسی مصلحت کا نتیجہ تھا۔ برطانیہ پہلی عالمی جنگ کے دوران امریکہ اور یورپ کی یہودی برادریوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا صیہونی تحریک سے وعدہ محض جنگی حکمتِ عملی تھی، انصاف یا امن کے نام پر نہیں۔ اس کے بعد فلسطینیوں کی بے دخلی کا عمل شروع ہوا، جو برطانوی مینڈیٹ (1920 تا 1948) کے دور میں تیز ہوا، اور آخرکار 1948 کے ”نکبہ” میں 7 لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے گھروں سے نکال دیے گئے۔


برطانوی سرکاری ریکارڈ — بشمول 1937 کی پیل کمیشن رپورٹ اور 1939 کے وائٹ پیپرز — اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ برطانیہ عربوں اور یہودیوں کے درمیان انصاف برقرار رکھنے میں ناکام رہا۔ معروف برطانوی مؤرخ سر آرنلڈ ٹائن بی نے مینڈیٹ کے اس کردار کو ”ضمیر اور تہذیب کی غداری” قرار دیا۔ آج، ایک صدی بعد بھی فلسطینی قبضے، تقسیم، چیک پوسٹوں اور محاصروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔


یوں جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ دونوں میں برطانوی پالیسیوں نے مصنوعی سرحدیں اور دائمی تنازعات پیدا کیے۔ دونوں خطوں میں سلطنت نے اپنی مصلحت کے تحت قوموں کو باہم ٹکرا دیا اور خود رخصت ہوگئی۔ برطانیہ نے اپنے اقدامات کو ہمیشہ قانونی اور سفارتی پردوں میں لپیٹا — کہیں ماؤنٹ بیٹن پلان کے ذریعے، کہیں بالفور اعلامیہ کے ذریعے — مگر تاریخ نے ان تمام پردوں کو چاک کر دیا۔ باقی رہ گیا تو صرف خودغرضی اور اقتدار کی ہوس پر مبنی فیصلوں کا ریکارڈ۔
قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:


اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں انصاف سے نہ روکے۔ انصاف کرو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ (المائدہ: 8)
انصاف، جو ان قوموں کی پیدائش کے وقت ان سے چھین لیا گیا تھا، آج بھی بحال نہیں ہوا۔ جب انسان نقشوں پر لکیریں کھینچتے ہوئے ان روحوں کو بھول جاتا ہے جو ان زمینوں پر بستے ہیں، تو وہ مستقبل کی جنگوں کے خدوخال بھی کھینچ دیتا ہے۔
برطانوی سلطنت اپنے اقتدار کے غرور پر نازاں تھی، مگر اس کے زوال کے بعد جو اندھیرا چھایا وہ روشنی سے زیادہ گہرا ثابت ہوا۔ برصغیر کی تقسیم اور فلسطین کا وعدہ محض تاریخی واقعات نہیں — یہ زندہ المیے ہیں جو آج بھی کروڑوں انسانوں کی قسمت پر اثر انداز ہیں۔ لاہور سے لے کر غزہ تک، سری نگر سے یروشلم تک، ان استعماری فیصلوں کی بازگشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔


سلطنتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں، مگر ان کے چھوڑے گئے زخم صدیوں تک تازہ رہتے ہیں۔ برطانوی تاج پر سورج تو غروب ہو چکا، مگر جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ پر اس کے سایے آج بھی لمبے اور گہرے ہیں۔ حقیقی امن تب ہی ممکن ہوگا جب تاریخ کے ان مظالم کو تسلیم کیا جائے اور انسانیت یہ سبق سیکھے کہ کسی دوسری قوم کے گھر کی بنیاد پر سلطنت کبھی قائم نہیں رہ سکتی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرآزاد کشمیر میں حکومت سازی کیلئے پیپلزپارٹی متحرک، صدر زرداری کا وزیراعظم سے رابطہ تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوت اِک واری فیر دشمن بھی باوقار ہونا چاہیے پاکستان کا دل اسلام آباد شہید زندہ ہیں، قوم جاگتی رہے ننھی آوازیں، بڑے سوال: بچیوں کا دن، سماج کا امتحان TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

پڑھیں:

 لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی کہانی کیا ہے؟

لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید چکوال سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان آرمی میں بھرتی ہونے کے بعد بلوچ رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ اُنہوں نے اپنی عسکری خدمات کے دوران انٹیلی جنس اور انسداد جاسوسی کے شعبوں میں اہم کردار ادا کیا۔

انہوں نے آئی ایس آئی کے کاؤنٹر انٹیلیجنس سیکشن میں ڈی جی کے فرائض انجام دیے۔  جی ایچ کیو میں ایڈجوٹنٹ جنرل کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ راولپنڈی میں ٹین کور کے چیف آف اسٹاف بھی رہے۔

16 جون 2019 کو انہیں انٹر سروسز انٹیلی جنس (ISI) کا سربراہ مقرر کیا گیا، جب سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت تھی۔ بطور سربراہ آئی ایس آئی اُن کی مدت ملازمت میں ملکی اور علاقائی سیکیورٹی معاملات میں کافی توجہ ملی۔

افغانستان میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کی ایک تصویر کابل میں وائرل ہوئی، جس نے اُن کی خطے میں کسی حد تک کردار کی نمائش کی۔ اُن کے دور میں بعض مبصرین نے سیاسی اور عسکری معاملات میں مبینہ مداخلت کے الزامات بھی لگائے۔

اکتوبر 2021 میں انہیں کور کمانڈر پشاور مقرر کیا گیا اور بعد میں کور کمانڈر بہاولپور بھی بنایا گیا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد تنازعات

فیض حمید پاکستان آرمی کے چند سینئر ترین افسران میں سے تھے جن کے نام چیف آف آرمی سٹاف جیسے اعلیٰ عہدوں کے لیے بھی سامنے آئے۔ اُن کی خدمات اور تنازعات نے ملک کی عسکری اور سیاسی بحثوں میں خاصی توجہ حاصل کی۔

ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے خلاف کورٹ مارشل اور قانونی کارروائیاں شروع ہوئیں۔ 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کیا گیا۔

انہیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری ذرائع کے غلط استعمال کے الزامات میں چارج شیٹ کیا گیا۔  جس کے بعد آج انہیں ان تمام الزامات میں مجرم قرار دے کر 14 سال سخت قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے فیض حمید کے خلاف 12 اگست 2024 کو کارروائی شروع کی تھی، جو 15 ماہ تک جاری رہی۔ ان کیخلاف 4 الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا، جن میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی جو ریاست کی حفاظت اور مفاد کے خلاف تھی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور دیگر افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل تھا۔

طویل قانونی کارروائی کے بعد عدالت نے فیض حمید کو تمام الزامات میں مجرم قرار دیا اور 14 سال سخت قید کی سزا سنائی۔ عدالت نے تمام قانونی ضوابط کی پاسداری کی اور ملزم کو اپنی پسند کے وکلا کے ساتھ مکمل دفاع کا حق دیا۔ سزا یافتہ کو متعلقہ فورم پر اپیل کرنے کا حق حاصل ہے۔

عدالت نے مزید کہا کہ ملزم کے سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور سیاسی عناصر کے ساتھ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے میں کردار کے دیگر پہلوؤں کو الگ سے نمٹایا جا رہا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • پہاڑون کا عالمی دن اور کشمیر کی سیاحت
  •  لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی کہانی کیا ہے؟
  • فلسطین اور کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے،حافظ نعیم
  • آئین پاکستان تمام شہریوں کو ان کے انسانی حقوق کا تحفظ دیتا ہے، حافظ نعیم
  • ایک محقق کی بے بسی کی کہانی
  • ایران، چین اور سعودی عرب نے فلسطین، لبنان اور شام کے خلاف اسرائیلی جارحیت بند کرنے کا مطالبہ کر دیا
  • 1971 کی اصل کہانی، غازی کی زبانی: تہار جیل کی اذیتوں سے محاذِ جنگ تک
  • فلسطین: اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی کے دفتر پر اسرائیلی فوج کا چھاپہ
  • کشمیر، فلسطین میں ظلم نہیں رکتا تو اقوام متحدہ کی حیثیت پر سوال: ملک احمد خان
  • جموں و کشمیر، حراستی ہلاکت کیس میں ہائی کورٹ نے ضلع مجسٹریٹ کا آرڈر مسترد کیا