کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے WhatsAppFacebookTwitter 0 26 October, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
کہا جاتا تھا کہ برطانوی سلطنت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا — یہ جملہ فخر کا بھی تھا اور طنز کا بھی۔ کیونکہ جس طرح اس سلطنت کی حدود براعظموں تک پھیلی ہوئی تھیں، اسی طرح اس کے سائے بھی تاریخ کے کئی خطوں پر دراز ہوگئے۔
برطانوی تاج کے تحت کیے گئے دو فیصلوں نے جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں وہ بیج بوئے جن کی جڑیں آج بھی خون میں ڈوبی ہوئی ہے۔ ایک فیصلہ برصغیر کی تقسیم کا تھا، جو 1947 میں ہوا جس میں کشمیر کے تناظر میں بد نیتی پر مبنی سرحدی لکیریں کھینچی گئیں، اور دوسرا 1917 کا بالفور اعلامیہ۔ دونوں فیصلے امن اور انصاف کے نام پر پیش کیے گئے، مگر دراصل یہ دائمی تنازعات کی تمہید ثابت ہوئے۔
جنوبی ایشیا میں ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کو آزادی اور خود ارادیت کا مظہر قرار دیا گیا۔ مگر سر سیریل ریڈ کلف کی کھینچی ہوئی جلدباز لکیروں کے پیچھے سازشوں اور مصلحتوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ اس کا سب سے واضح ثبوت گرداسپور کا ضلع ہے، جو مسلم اکثریت کے باوجود بھارت کو دے دیا گیا۔ یہی ایک فیصلہ کشمیر کی تقدیر بدلنے کا سبب بنا۔ گرداسپور وہ واحد زمینی راستہ تھا جس کے ذریعے بھارت نے جموں و کشمیر تک رسائی حاصل کی اور چند ہی مہینوں میں اپنی فوجیں وہاں داخل کر دیں۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کردار، جس پر مؤرخین نے ہمیشہ سوال اٹھائے ہیں، آج تک جانبداری کے شائبے سے مبرا ثابت نہیں ہو سکا۔ بعد ازاں برطانوی سرکاری ریکارڈ سے معلوم ہوا کہ تقسیم کی سرحدوں میں آخری لمحات میں ترمیم ماؤنٹ بیٹن کے دفتر کے دباؤ پر کی گئی تاکہ بھارت کو تزویراتی برتری حاصل ہو سکے۔
دنیا بھر میں کشمیری 27 اکتوبر 1947 کو یومِ سیاہ کے طور پر مناتے ہیں — وہ دن جب بھارت نے کشمیر پر ناجائز قبضے کا آغاز کیا اور پھر انسانی حقوق کی پامالیوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک نہیں تھما۔ ایک بددیانت سرحد سے شروع ہونے والا سانحہ اب دنیا کے طویل ترین تنازعات میں سے ایک بن چکا ہے، جہاں انصاف اور انسانیت خاردار تاروں کے پیچھے قید ہیں۔
خود تقسیم برصغیر کا عمل کسی منظم منتقلی کے بجائے قتل و غارت، لوٹ مار اور ہجرت کا طوفان تھا۔ دس لاکھ سے زائد انسان مارے گئے، اور پندرہ ملین کے قریب لوگ بے گھر ہو گئے — انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جبری ہجرتوں میں سے ایک۔ پورے کے پورے گاؤں مٹ گئے، اور سرحد پار کرنے والی ٹرینیں زندہ انسانوں کے بجائے لاشوں سے بھری ہوتی تھیں۔ برطانیہ کا ہندوستان سے انخلا ایک منظم نوآبادیاتی اختتام نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا جلدی میں کیا گیا فرار تھا، جس نے پیچھے تلخی، نفرت اور تقسیم کی داستان چھوڑ دی۔ آج بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات انہی فیصلوں کے زخموں سے عبارت ہیں، اور کشمیر اس المیے کا نہ بھرنے والا ناسور ہے۔
تین دہائیاں قبل مشرقِ وسطیٰ میں بھی ایک ایسا ہی دھوکہ دیا گیا۔ 2 نومبر 1917 کو برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے برطانوی یہودی رہنما لارڈ لائینل روتھ شائلڈ کے نام ایک خط لکھا — جو تاریخ میں ”بالفور اعلامیہ” کہلاتا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ برطانوی حکومت فلسطین میں یہودی قوم کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اُس وقت فلسطین میں عرب مسلمان اور عیسائی اکثریت میں تھے جو صدیوں سے امن کے ساتھ رہتے آئے تھے۔ مگر برطانیہ نے ان کی رائے لیے بغیر ان کی سرزمین دوسروں کو دینے کا وعدہ کر لیا۔
یہ اعلان کسی اخلاقی جذبے کا نہیں بلکہ سیاسی مصلحت کا نتیجہ تھا۔ برطانیہ پہلی عالمی جنگ کے دوران امریکہ اور یورپ کی یہودی برادریوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا صیہونی تحریک سے وعدہ محض جنگی حکمتِ عملی تھی، انصاف یا امن کے نام پر نہیں۔ اس کے بعد فلسطینیوں کی بے دخلی کا عمل شروع ہوا، جو برطانوی مینڈیٹ (1920 تا 1948) کے دور میں تیز ہوا، اور آخرکار 1948 کے ”نکبہ” میں 7 لاکھ سے زائد فلسطینی اپنے گھروں سے نکال دیے گئے۔
برطانوی سرکاری ریکارڈ — بشمول 1937 کی پیل کمیشن رپورٹ اور 1939 کے وائٹ پیپرز — اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ برطانیہ عربوں اور یہودیوں کے درمیان انصاف برقرار رکھنے میں ناکام رہا۔ معروف برطانوی مؤرخ سر آرنلڈ ٹائن بی نے مینڈیٹ کے اس کردار کو ”ضمیر اور تہذیب کی غداری” قرار دیا۔ آج، ایک صدی بعد بھی فلسطینی قبضے، تقسیم، چیک پوسٹوں اور محاصروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔
یوں جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ دونوں میں برطانوی پالیسیوں نے مصنوعی سرحدیں اور دائمی تنازعات پیدا کیے۔ دونوں خطوں میں سلطنت نے اپنی مصلحت کے تحت قوموں کو باہم ٹکرا دیا اور خود رخصت ہوگئی۔ برطانیہ نے اپنے اقدامات کو ہمیشہ قانونی اور سفارتی پردوں میں لپیٹا — کہیں ماؤنٹ بیٹن پلان کے ذریعے، کہیں بالفور اعلامیہ کے ذریعے — مگر تاریخ نے ان تمام پردوں کو چاک کر دیا۔ باقی رہ گیا تو صرف خودغرضی اور اقتدار کی ہوس پر مبنی فیصلوں کا ریکارڈ۔
قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:
اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں انصاف سے نہ روکے۔ انصاف کرو، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ (المائدہ: 8)
انصاف، جو ان قوموں کی پیدائش کے وقت ان سے چھین لیا گیا تھا، آج بھی بحال نہیں ہوا۔ جب انسان نقشوں پر لکیریں کھینچتے ہوئے ان روحوں کو بھول جاتا ہے جو ان زمینوں پر بستے ہیں، تو وہ مستقبل کی جنگوں کے خدوخال بھی کھینچ دیتا ہے۔
برطانوی سلطنت اپنے اقتدار کے غرور پر نازاں تھی، مگر اس کے زوال کے بعد جو اندھیرا چھایا وہ روشنی سے زیادہ گہرا ثابت ہوا۔ برصغیر کی تقسیم اور فلسطین کا وعدہ محض تاریخی واقعات نہیں — یہ زندہ المیے ہیں جو آج بھی کروڑوں انسانوں کی قسمت پر اثر انداز ہیں۔ لاہور سے لے کر غزہ تک، سری نگر سے یروشلم تک، ان استعماری فیصلوں کی بازگشت اب بھی سنائی دیتی ہے۔
سلطنتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں، مگر ان کے چھوڑے گئے زخم صدیوں تک تازہ رہتے ہیں۔ برطانوی تاج پر سورج تو غروب ہو چکا، مگر جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ پر اس کے سایے آج بھی لمبے اور گہرے ہیں۔ حقیقی امن تب ہی ممکن ہوگا جب تاریخ کے ان مظالم کو تسلیم کیا جائے اور انسانیت یہ سبق سیکھے کہ کسی دوسری قوم کے گھر کی بنیاد پر سلطنت کبھی قائم نہیں رہ سکتی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرآزاد کشمیر میں حکومت سازی کیلئے پیپلزپارٹی متحرک، صدر زرداری کا وزیراعظم سے رابطہ تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوت اِک واری فیر دشمن بھی باوقار ہونا چاہیے پاکستان کا دل اسلام آباد شہید زندہ ہیں، قوم جاگتی رہے ننھی آوازیں، بڑے سوال: بچیوں کا دن، سماج کا امتحانCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
کلیسائی تاریخ میں نیا باب رقم، پوپ لیو اور برطانوی کنگ چارلس کی پانچ صدیوں بعد ایک ساتھ عبادت
ویٹی کن: برطانیہ کے بادشاہ کنگ چارلس اور پوپ لیو نے جمعرات کو ویٹی کن کے تاریخی سسٹین چیپل میں ایک ساتھ دعا کی، جو 1534ء میں انگلینڈ کے پوپ سے علیحدگی کے بعد پہلی بار کسی برطانوی بادشاہ اور پوپ کی مشترکہ عبادت تھی۔
اطلاعات کے مطابق، مقدس چیپل میں لاطینی اور انگریزی زبان میں عبادت کی گئی، جہاں مائیکل اینجلو کی مشہور پینٹنگ "دی لاسٹ ججمنٹ" کے نیچے دونوں رہنماؤں نے امن اور اتحاد کے لیے دعا کی۔ اس موقع پر پوپ لیو، انگلکن آرچ بشپ اسٹیفن کاٹریل، سسٹین چیپل کوائر اور دو شاہی گرجا گھروں کے گلوکاروں نے شرکت کی۔
یہ تاریخی لمحہ اس وقت آیا جب بادشاہ چارلس اور ملکہ کمیلا ویٹی کن کے سرکاری دورے پر ہیں، جو کیتھولک چرچ اور چرچ آف انگلینڈ کے درمیان تعلقات میں بہتری کی علامت سمجھا جارہا ہے۔
ویسٹ منسٹر ایبی کے عالمِ دین ریورنڈ جیمز ہاکی کے مطابق، “یہ لمحہ تاریخ کے زخموں کو بھرنے جیسا ہے۔ صرف ایک نسل پہلے تک یہ ناممکن تھا، لیکن گزشتہ 60 سالوں میں دونوں کلیساؤں کے درمیان مکالمہ نمایاں حد تک آگے بڑھا ہے۔”
خدمات کے دوران پوپ لیو نے بادشاہ چارلس کو “رائل کنفرایٹر” (Royal Confrater) کا اعزازی لقب بھی عطا کیا، اور روم کے سینٹ پال چرچ میں ان کے لیے ایک خصوصی نشست مختص کی گئی جو مستقبل میں صرف برطانوی بادشاہوں کے لیے مخصوص ہوگی۔
چرچ آف انگلینڈ کے نمائندہ بشپ انتھونی بال کے مطابق، “یہ اعزاز ظاہر کرتا ہے کہ دونوں کلیسا ایک مشترکہ مستقبل کے لیے سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔”
???? King Charles prays with Pope Leo in 500-year first https://t.co/wEhfpkvDOy pic.twitter.com/iXGlLDuKO7
— The Telegraph (@Telegraph) October 23, 2025واضح رہے کہ چرچ آف انگلینڈ اور کیتھولک چرچ کے درمیان تعلقات 1960 کی دہائی سے مسلسل بہتر ہورہے ہیں۔ تاہم اب بھی دونوں کلیساؤں میں کچھ بنیادی اختلافات موجود ہیں، جیسے کہ خواتین کی بشپ کے طور پر تقرری اور شادی شدہ پادریوں کا معاملہ ہے۔