صدر آصف زرداری نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ کے استعفے منظور کر لیے
اشاعت کی تاریخ: 14th, November 2025 GMT
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ نے گذشتہ روز استعفے دیے تھے۔ فائل فوٹو
صدر مملکت آصف علی زرداری نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ کے استعفے منظور کر لیے۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ نے گذشتہ روز استعفے دیے تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے 13 صفحات پر مشتمل استعفیٰ صدر مملکت کو بھجوا یا تھا، انہوں نے کہا تھا کہ میں نے ادارے کی عزت، ایمانداری اور دیانت کے ساتھ خدمت کی، سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کی حیثیت سے استعفیٰ پیش کرتا ہوں۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللّٰہ نے بھی استعفیٰ صدرِ پاکستان کو بھجوا دیا تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا تھا کہ 11 سال قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایا، چار سال بعد اسی عدالت کے چیف جسٹس کے طور پر حلف لیا، مزید 4 سال بعد سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر حلف اُٹھایا۔
یہ بھی پڑھیے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ کے مستعفی ہونے کی اندرونی کہانی سامنے آگئی آئین، جس کی پاسداری کا حلف لیا تھا، اب موجود نہیں رہا، جسٹس اطہر من اللہ سپریم کورٹ کے ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللّٰہ مستعفیانہوں نے مزید تحریر کیا تھا کہ تمام حلفوں کے دوران میں نے ایک ہی وعدہ کیا آئین سے وفاداری کا، میرا حلف کسی فرد یا ادارے سے نہیں، بلکہ آئینِ پاکستان سے تھا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ کا کہنا تھا کہ 27ویں آئینی ترمیم سے قبل، میں نے اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط لکھا تھا، خط میں اس ترمیم کے ممکنہ اثرات پر آئینی تشویش ظاہر کی تھی، اُس وقت کے خدشات، خاموشی اور بے عملی کے پردے میں آج حقیقت کا روپ دھار چکے ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من الل سپریم کورٹ کورٹ کے تھا کہ
پڑھیں:
سپریم کورٹ کے ججز منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ مستعفی
میرا ضمیر صاف اور دل میں پچھتاوا نہیں ،27 ویں ترمیم کے ذریعہ سپریم کورٹ پر کاری ضرب لگائی گئی ، میں ایسی عدالت میں حلف کی پاسداری نہیں کر سکتا، جس کا آئینی کردار چھین لیا گیا ہو،جسٹس منصور
حلف کی پاسداری مجھے اپنے باضابطہ استعفے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ وہ آئین جسے میں نے تحفظ اور دفاع کا حلف دیا تھا اب موجود نہیں رہا(جسٹس اطہر من اللہ)دونوں ججوںنے صدر مملکت کو استعفا بھجوادیا
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے اپنا استعفیٰ صدر مملکت آصف علی زرداری کو بھیج دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ میں نے ادارے کی عزت، ایمانداری اور دیانت کے ساتھ خدمت کی۔جسٹس منصور نے اپنے استعفیٰ میں مزید لکھا ہے کہ میرا ضمیر صاف ہے اور میرے دل میں کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کی حیثیت سے استعفیٰ پیش کرتا ہوں۔انہوں نے 27 ویں آئینی ترمیم کو آئین پاکستان پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعہ سپریم کورٹ پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ ترمیم سے انصاف عام آدمی سے دور اور کمزور طاقت کے سامنے بے بس ہو گیا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم سے ملک کی ماہر اعلیٰ ترین عدالت کو منقسم اور اس کی آزادی پامال کر کے ملک دہائیوں پیچھے دھکیل دیا گیا۔ میں ایسی عدالت میں حلف کی پاسداری نہیں کر سکتا، جس کا آئینی کردار چھین لیا گیا ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ہمیشہ ایک ہی سپریم کورٹ رہی اور یہ ہمارا مشترکہ ورثہ ہے۔ 27 ویں ترمیم نے اس ڈھانچے کو توڑ کر سپریم کورٹ کے اوپر آئینی عدالت قائم کر دی۔جسٹس منصور نے یہ بھی کہا کہ 27 ویں ترمیم کو بغیر مشاورت اور بحث یا عدلیہ کی رائے کے ایوان سے منظور کیا گیا۔ اس ترمیم کا واحد مقصد حکومت کو اپنی مرضی کے ججز لگانے کا اختیار دینا ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے مزید کہا کہ وہ قومیں ترقی کرتی ہیں جہاں حکومت میں قانون کی حکمرانی کو مرکزی حیثیت حاصل ہو اور جہاں عدالتی آزادی کو مقدس امانت کی طرح محفوظ رکھا گیا ہو۔سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفی میں لکھا کہ 11 سال قبل میں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج پھر اسی عدالت کے چیف جسٹس اور مزید 4 سال بعد سپریم کورٹ کے جج کے طور پر حلف اٹھایا، تو اس پورے عرصہ کے دوران جو بنیادی وعدہ میں نے کیا تھا وہ ایک ہی تھا۔ یہ کسی آئین کا نہیں، بلکہ آئینِ پاکستان کا حلف تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے پہلے میں نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا کہ چیف جسٹس پاکستان کو خط میں مجوزہ شقوں پر اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ یہ ہماری آئینی ساخت کیلیے کیا معنی رکھتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس خاموشی اور بے عملی کے اس ماحول میں میرے خدشات حقیقت بن چکے۔ اپنے حلف کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا سب سے بڑا اعزاز حاصل رہا ہے اور آج اسی حلف کی پاسداری مجھے اپنے باضابطہ استعفے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ وہ آئین جسے میں نے تحفظ اور دفاع کا حلف دیا تھا اب موجود نہیں رہا۔جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ میں اس جھوٹ کے ساتھ نہیں جی سکتا کہ اب جو نئی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں وہ اسی آئین کی بقا پر کھڑی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ باقی رہ گیا ہے، وہ صرف ایک سایہ ہے۔ اب آئین میں نہ اس کی روح ہے اور نہ ہی وہ عوام کی آواز جس کے لیے یہ آئین وجود میں آیا تھا۔جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بھی کہا کہ آئندہ نسلوں نے مختلف نظر سے دیکھنا ہے تو پھر ہمارا مستقبل ماضی کی غلطیوں کی تکرار نہیں ہونا چاہیے۔ ان ہی امیدوں کے ساتھ آج میں یہ جبّہ ہمیشہ کے لیے اتار رہا ہوں اور سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے اپنا باضابطہ استعفیٰ فوری طور پر پیش کرتا ہوں۔