کوئی انسان قانون سے بڑا نہیں، کسی ادارے کے سربراہ کےلیے بھی استثنی نہیں، امیر جماعت اسلامی پاکستان
اشاعت کی تاریخ: 23rd, November 2025 GMT
امیرجماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ کسی ادارے کے سربراہ، صدر یا وزیر اعظم کے لیے بھی استثنی نہیں ہے، اب سردار، وڈیروں اوربیوروکریسی کا نہیں اللہ کا نظام ہوگا، کوئی بھی انسان سے اللہ کے قانون سے بڑا اورطاقتور نہیں ہے۔
لاہور کے مینار پاکستان پر منعقدہ اجتماع عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ کے بنائی ہوئی زمین پر نظام بھی اللہ کا ہوگا، کوئی بھی انسان سے اللہ کے قانون سے بڑا اورطاقتور نہیں ہے، مینارکستان کے سائے تلے لاکھوں لوگ یہ عہد کرتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کسی کی بالادستی قبول نہیں کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ دھوکے کے ذریعے اقتدار میں آنیوالے امریکا سے ڈرتے ہیں، یواین او کی فلسطین سے متعلق قرار داد کی پاکستان کو حمایت نہیں کرنی چاہیے تھی، کسی کے لیے کوئی استثنی نہیں ہے، کسی ادارے کے سربراہ، صدر یا وزیر اعظم کے لیے بھی استثنی نہیں ہے، اب سردار، وڈیروں اوربیوروکریسی کا نہیں اللہ کا نظام ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی طاقت یا فارم 47 کے ذریعے قبضہ کرے گا تو پھر مزاحمت ہوگی، اگر دائیں بائیں اے ٹی ایم ہوں گی تو نظام نہیں بدلے گا، پھر سربراہ اندر اور پارٹی باہر ہوگی، بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے امیر کو پھانسی دی گئی لیکن وہاں نوجوانوں نے جدوجہد نہیں چھوڑی، بنگلہ دیش میں آج نوجوان کامیاب ہوئے انڈیا کی حمایت یافتہ لابی کو اٹھا باہر کیا یے۔
حافظ نعیم نے کہا کہ پرامن طریقے سے نظام کی تبدیلی کا شعور بیدار کریں گے، جماعت اسلامی میں وڈیروں،جاگیرداروں اور بیوروکریسی کی گود میں بیٹھ کر سربراہ نہیں بنتا، وراثت اورخاندان پر مبنی جماعتیں انقلاب نہیں لاسکتیں۔
جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام کے دوسرے روز کاروباری، صنعتی اور پالیسی ماہرین نے ملک کی معاشی صورت حال، حکمرانی کے ڈھانچے اور مقامی حکومتوں کے اختیارات پر اپنے تفصیلی مؤقف پیش کیے۔
ایف پی سی سی آئی کے رہنما اور یو بی جی کے پیٹرن ان چیف ایس ایم تنویر نے ملکی معاشی صورتِ حال، برآمدات اور وسائل کے استعمال میں پائی جانے والی کمزوریوں پر تفصیل سے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد کا ہمیشہ یہ کہنا تھا کہ پاکستان ایک روز ایشیائی ٹائیگر بنے گا، اور عسکری صلاحیت کے لحاظ سے ملک اس مقام تک پہنچ چکا ہے، مگر اب وقت ہے کہ معاشی میدان میں بھی پاکستان کوایشیئن ٹائیگربنایا جائے
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے عالمی منڈی میں اپنی جگہ بنانے کا حق تو حاصل کر لیا ہے لیکن اصل چیلنج معیشت کو مستحکم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ مختلف سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ تاجر برادری کی آواز مؤثر انداز میں سامنے لائی جا سکے۔
ان کے مطابق ملک میں سو ارب ڈالر کی برآمدات حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اور اگر درست سمت میں اقدامات کیے جائیں تو غربت، بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ایس ایم تنویر نے کہا پاکستان کے پاس چار سے پانچ کھرب ڈالر مالیت کےریز ارتھ ذخائر، دو کھرب ڈالر کے پلیسر گولڈ ذخائر، تیل کے ممکنہ ذخائر اور سمندری معیشت کے مواقع موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس ہر طرح کا موسم، سمندر سے کے ٹو تک پھیلا جغرافیہ اور محنتی قوم موجود ہے، مگر اس کے باوجود ملکی مجموعی پیداوار 412 ارب ڈالر تک محدود ہے، جبکہ بھارت چار ٹریلین، چین انیس ٹریلین اور امریکا 39 ٹریلین ڈالر کی معیشت رکھتے ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب قیمتوں کے اشاریے نسبتاً کم ہیں تو شرح سود گیارہ فی صد کیوں برقرار ہے، اور خطے کے مقابلے میں بجلی سب سے مہنگی کیوں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک کا دفاعی بجٹ 2.
ایس ایم تنویر نے مختلف اضلاع کے پیداواری امکانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چنیوٹ کا فرنیچر، وزیرآباد کی کٹلری، شیخوپورہ کا باسمتی چاول، رحیم یار خان کے آم، سیالکوٹ کے سرجیکل اور اسپورٹس سامان، سکھر کی کھجوریں، سوات کے قیمتی پتھر، سکردو کے پھل اور معدنیات، سرگودھا کی کینو اور گجرات و گوجرانوالہ کی برقی صنعت دنیا بھر میں پہچان رکھتی ہیں، مگر اقتصادی صورتحال اس کے باوجود بگڑتی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حقیقی تبدیلی حاصل کرنی ہے تو انتظامی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات ضروری ہیں۔ ان کے مطابق ملک میں 33 ڈویژن موجود ہیں اور ہر ڈویژن کی سربراہی ایک کمشنر کے پاس ہوتی ہے جو مقامی انتظامی امور اور امن و امان تک محدود ہوتا ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ خواتین کی ترقی، ہنرمندی کے فروغ اور مقامی وسائل کے استعمال جیسے بڑے اہداف پر کون توجہ دے گا؟
ایس ایم تنویر نے ملک میں 33 صوبے بنانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ قیامِ پاکستان کے وقت چار صوبے تھے اور آج بھی وہی صورتحال ہے، جس کے باعث اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کا عمل رکا ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر خطے کو بااختیار بنا کر مقامی صلاحیت کو بروئے کار لایا جائے تاکہ قومی معیشت مضبوط ہو اور پاکستان حقیقی معنوں میں ایشیائی ٹائیگر بن سکے۔
اجتماع سے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ گزشتہ 78 برسوں سے نظام بدلنے کا نعرہ لگایا جاتا رہا ہے مگر عملی تبدیلی سامنے نہیں آئی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کی اس بات پر تحسین کی کہ نعرے کے ساتھ ساتھ ماہرین کی مشاورت سے ایک روڈ میپ بھی پیش کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ حکمرانی کے ڈھانچے کا ہے اور مقامی حکومتوں کے بغیر اس میں بہتری ممکن نہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ عوام کے کم ازکم 70 فیصد مسائل بلدیاتی نظام سے جڑے ہوتے ہیں، جبکہ اس وقت ملک میں 1181 ارکان پارلیمنٹ پورے نظام کو مستحکم بنیاد فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔
ان کے مطابق، جب مقامی حکومتوں کے ذریعے ہزاروں منتخب نمائندے سامنے آتے ہیں تو خواتین، نوجوانوں اور کسانوں کو بھی کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کو بھارت کی طرح اپنی آئینی ترامیم کے ذریعے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا ہوگا، جہاں 72 ویں اور 73 ویں ترامیم نے نچلی سطح کے نظام کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔
انہوں نے کہا کہ ترقیاتی پروگرام کا کم ازکم 35 فیصد مقامی حکومتوں کے لیے مختص ہونا چاہیے، جبکہ اس وقت صرف 8 فیصد رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی حکومتوں کی مدت پانچ سال ہونی چاہیے اور تمام نکات آئین میں واضح طور پر درج ہونے چاہئیں تاکہ نچلی سطح کے ادارے سیاسی مداخلت سے محفوظ رہ سکیں۔
بزنس کمیونٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے خالد عثمان نے خطاب میں دعویٰ کیا کہ چند روز قبل شائع ہونے والی بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی رپورٹ کو حکومت چھپانے کی کوشش کرتی رہی، جس میں کرپشن کے بارے میں تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس کا موجودہ نظام کاروباری طبقے کو ہراساں کر رہا ہے اور اس ماحول میں صنعتکار نہ صرف غیر یقینی کا شکار ہیں بلکہ سرمایہ کار اپنا سرمایہ منتقل کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ کاروباری طبقے میں کچھ عناصر غلط طرزعمل رکھتے ہوں گے، لیکن مجموعی طور پر معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بزنس کمیونٹی کو اعتماد دینا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر ہے، صنعتی پیداوار منفی میں جا چکی ہے، برآمدات اس لیے کم ہیں کہ خطے کے مقابلے میں پاکستان کی پیداواری لاگت زیادہ ہے، اور سرمایہ کاروں کے وسائل کا بڑا حصہ ٹیکسیشن میں ختم ہو جاتا ہے۔
فیڈریشن آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر ذکی اعجاز نے خطاب میں کہا کہ آج اسی عزم اور یکجہتی کی ضرورت ہے جو 1947 کے اہم موڑ پر اور بعد ازاں 10 مئی کو بھارت کے خلاف آپریشن بین المرصوص کے دوران سامنے آئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں کم کرنا اور ٹیکس کی شرح سنگل ڈیجیٹ پر لانا ناگزیر ہے، جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جامع حکمت عملی کی فوری ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں انتظامی اصلاحات کے تحت نئے صوبے بنانے ہوں گے اور معاشی تسلسل کے لیے ایک چارٹر آف اکانومی مرتب کیا جانا چاہیے۔
کسان بورڈ کے صدر سردار ظفر حسین خان نے کہا کہ قومی بجٹ کا کم ازکم 10 فیصد زراعت کے لیے مختص ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کپاس پاکستان کی ترقی کی بنیاد تھی مگر کپاس کے علاقوں میں شوگر ملیں لگا کر زرعی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا گیا۔
انہوں نے تجویز دی کہ سندھ اور جنوبی پنجاب سے شوگر ملوں کو منتقل کیا جائے، ایگری اِن پٹ سستی کی جائے اور سی پی آر کو چیک کا درجہ دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ان پٹ لاگت کم کر دی جائے تو کسان 1500 روپے من کے حساب سے گندم فراہم کر سکتے ہیں۔
سارک چیمبر آف کامرس کے نائب صدر میاں انجم نثار نے ملکی معیشت کی کمزوری کو گڈ گورننس کے فقدان سے جوڑتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات نے صنعت اور کاروبار دونوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے اور اگر یہی نظام جاری رہا تو نقصان بڑھتا جائے گا۔
Tagsپاکستان
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان پاکستان کھیل مقامی حکومتوں کے ان کا کہنا تھا کہ ایس ایم تنویر نے انہوں نے کہا کہ استثنی نہیں ان کے مطابق کہ پاکستان پاکستان کو کے سربراہ کے ذریعے ملک میں اللہ کے نہیں ہے کے لیے نے ملک کہ اگر
پڑھیں:
پاکستان کی تقدیر بدلنے کا عزم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251122-03-2
الحمدللہ! تاریخی بادشاہی مسجد میں علامہ یوسف القرضاوی مرحوم کے جانشین اور یونین آف اسلامی اسکالرز کے سربراہ شیخ ڈاکٹر علی محی الدین القرہ داغی کے خطبہ جمعہ سے مینار پاکستان کے سائے تلے وطن عزیز کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع شروع ہو چکا ہے۔ 329 ایکڑ پر پھیلے عظیم تر اقبال پارک میں جماعت اسلامی پاکستان کے تین روزہ اجتماع عام میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہر رنگ ونسل، ہر فرقہ و مسلک، ہر علاقہ و زبان اور ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے انسانوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں، مردوں اور عفت مآب مائوں، بہنوں، بیٹیوں کے سر ہی سر ہر طرف دکھائی دے رہے ہیں۔ جو پاک وطن کی تقدیر بدلنے، یہاں کے فرسودہ اور سرطان زدہ نظام سے نجات دلا کر یہاں اسلام کے بتائے ہوئے قرآن و سنت پر مبنی فلاحی نظام کے نفاذ کا عظیم مقصد لے کر یہاں جمع ہوئے ہیں۔ وہ سب اس یقین سے سرشار ہیں کہ یہ اجتماع عام اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اس کے مقصد وجود سے ہم آہنگ کرنے، یہاں بسنے والے 25 کروڑ انسانوں کو مسائل و مصائب سے نجات دلانے اور ایک روشن صبح کے طلوع میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گا۔ ان شاء اللہ! بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے اپنے الفاظ میں ’’جماعت اسلامی کا نصب العین زندگی کے پورے نظام کو اسلامی نظریۂ حیات کے مطابق بدلنا ہے۔ اس غرض کے لیے وہ معاشرے کی فکری اور عملی اصلاح کے ساتھ ساتھ حکومت کے نظام میں بھی تبدیلی چاہتی ہے تاکہ مملکت کے ذرائع و وسائل پوری طرح اصلاح تعمیر کے لیے استعمال کیے جا سکیں اور ان اسباب کی روک تھام کی جا سکے جن کی وجہ سے زندگی کا نظام اسلام کے منشا کے خلاف چل رہا ہے۔ جماعت اسلامی ایک مدت سے تحریر اور تقریر کے ذریعے سے عوام میں اسلام پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اور تمام نئی اور پرانی جاہلیتوں کے خلاف بھی نبرد آزما ہے، جنہوں نے ہماری زندگی کے مختلف گوشوں میں ڈیرے جما رکھے ہیں۔ وہ انگریزی اقتدار کے ان تمام اثرات کو بھی کھرچنے کی کوشش کر رہی ہے جنہوں نے اخلاق اور نظریات سے لے کر معاشرت اور سیاست تک ہماری ہر چیز کو اسلامی نقطۂ نظر سے مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ علمی حیثیت سے بھی بتا رہی ہے کہ اسلامی اصولوں پر ہر شعبہ حیات کی تعمیر جدید کس طرح کی جا سکتی ہے اور اس وقت کے مسائل زندگی کا حل کیا ہے۔ وہ عملی حیثیت سے اس بات کی کوشش بھی کر رہی ہے کہ انفرادی و اجتماعی طور پر لوگوں میں خدا کی بندگی اور انبیائؑ کی پیروی کا جذبہ اور ایمانی اخلاق کا رنگ پیدا ہو، اور ایسی سیرتیں تیار ہوں جن میں آخرت کی جواب دہی کا احساس کار فرما ہو اور ان سب باتوں کے ساتھ وہ یہ بھی ضروری سمجھتی ہے کہ پاکستان کا نظامِ حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیا جائے جو اسلام کے مطابق کام کرنا جانتے بھی ہوں اور چاہتے بھی ہوں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ ایک بگڑی ہوئی حکومت اصلاح کے راستے میں سب سے بڑی مزاحم طاقت ہوتی ہے۔ اگر ایک طرف اصلاح کی خواہش رکھنے والے لوگ و عظ و تلقین اور تحریر و تقریر سے لوگوں کی زندگی درست کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف حکومت کی ساری طاقت اور اس کے سارے ذرائع لوگوں کے ذہن اور اخلاق اور معاملات کو بگاڑنے میں لگے رہیں تو ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ ایسے حالات میں کتنی کچھ اصلاح ہو سکے گی۔ اس کے علاوہ یہ چیز اس بنا پر بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ اگر ایک طرف یہاں اسلامی اصلاح و انقلاب کے خواہش مند لوگ غیر سیاسی تدبیروں سے اسلامی زندگی کی تعمیر کے لیے کوششیں کریں اور دوسری طرف ہماری قومی حکومت کا انتظام ان فرنگیت مآب لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو اپنی پوری سیاسی طاقت اس ملک کو انگلستان اور امریکا یا روس کی نقل بمطابق اصل بنانے کی کوشش میں صرف کر دیں تو اس سے یہاں ایک سخت کشمکش رونما ہو گی جو کسی حیثیت سے بھی اس ملک کے لیے مفید نہیں ہو سکتی۔ اس طرح ہر ایک جو کچھ بنانے کی کوشش کرے گا دوسرا اسے بگاڑنے میں اپنی طاقت صرف کرتا رہے گا اور فی الواقع یہاں کچھ بھی نہ بن سکے گا۔ یہی وہ وجوہ ہیں جن کی بنا پر جماعت اسلامی اپنی دوسری کوششوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی قیادت کو ایک صالح (ایمان دار، باصلاحیت اور خدا ترس) قیادت سے بدلنے کی جدوجہد بھی کر رہی ہے۔ اس جدوجہد میں اس کے پیش نظر اپنا اقتدار نہیں بلکہ ان اصولوں کا اقتدار ہے جن پر اس کا اور ساری مسلم امت کا ایمان ہے۔ جماعت اسلامی آزمائے ہوئے غلط کار لوگوں کے مقابلے میں ان لوگوں کو انتخابات کے لیے قوم کے سامنے لانا چاہتی ہے جو دیندار بھی ہوں اور دیانت دار بھی اور اس کے ساتھ نظام حکومت چلانے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں۔ جماعت اسلامی انتخاب کے غلط طریقوں کی اصلاح کرنا چاہتی ہے جو اب تک ہمارے ملک میں دھن سے، دھونس سے اور دھاندلی سے جیتے جاتے رہے ہیں۔ جن میں جھوٹ، بہتان اور دشنام طرازی سے کام لیا جاتا رہا ہے جن میں نسل، برادری، صوبائیت اور فرقہ بندی کے تعصبات سے اپیل کی جاتی رہی ہے۔ جماعت اسلامی خود ایمانداری کے ساتھ اخلاق کے اصولوں کی پوری پابندی کرتے ہوئے یہ انتخابی جنگ لڑنا چاہتی ہے اور دوسروں کو بھی اس قابل نہیں رہنے دینا چاہتی کہ وہ انتخاب میں ناجائز ہتھکنڈے استعمال کر کے عوام کی آزاد مرضی کے خلاف ان کے سروں پر سوار ہو جائیں۔ جماعت اسلامی ایک حقیقی اور صحت مند جمہوریت کا قیام چاہتی ہے جس کے باشندے ذی شعور ہوں اور حکومت کا بدلنا اور بننا ان کی آزاد مرضی پر موقوف ہو‘‘۔ پاکستان کو وجود میں آئے 78 برس بیت چکے مگر آج بھی یہ ان مقاصد سے کوسوں دور ہے جن کی خاطر اسے وجود میں لایا گیا تھا یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہترین انسانی مادی اور معدنی وسائل کی دستیابی کے باوجود حالات ایسے پیدا کر دیے گئے ہیں کہ تمام وسائل ایک خاص طبقے نے اپنی وراثت تصور کر لیے ہیں یہ طبقہ اپنی نا اہلیوں سمیت ملک پر حکمرانی کر رہا ہے اور عام آدمی کو اس کے حقوق دستیاب نہیں اسے ہر طرف محرومیوں کا سامنا ہے، وہ تعلیم، صحت، خوراک و رہائش جیسی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے جب کہ بالا دست طبقہ ایک جانب تو خود ٹیکس دینے پر تیار نہیں اور عام آدمی پر ہر روز نت نئے اور بھاری ٹیکسوں کا بوجھ لادا جا رہا ہے اور پھر غریبوں سے جمع ہونے والے ٹیکسوں کی رقم بھی یہ بالادست طبقہ اور اشرافیہ اپنی عیش و عشرت پر بے دردی سے استعمال کرتا ہے۔ جماعت اسلامی عوام کو ان کا مناسب حالات اور بے یقینی کی فضا سے نجات دلانے کے لیے ایک بڑی تحریک شروع کرنا چاہتی ہے اور اکیس سے 23 نومبر تک مینار پاکستان پر منعقد کیے جانے والے عظیم الشان اجتماع عام کے ذریعے قوم کو روشنی اور امید کی کرن دکھانا مقصود ہے یہ تاریخی اجتماع عام پاکستان کی سیاسی، جمہوری اور عوامی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہو گا۔ اجتماع سے عوام کو ایک نیا عزم و حوصلہ ملے گا۔ امیر جماعت کلیدی خطاب میں اپنے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔ جماعت اجتماع کے ساتھ ہی ایک بڑی سیاسی تحریک عوام کے حقوق کے لیے برپا کرے گی۔ اس تحریک کے نتیجے میں جماعت اسلامی ایک بڑی حقیقت اور قوت کے طور پر عوام کی نگاہوں کا مرکز بنے گی اور موجود گلے سڑے ناکارہ نظام کو تبدیل کر کے اسلامی و فلاحی نظام کے قیام کی منزل تک پہنچ کر دم لے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ!!!