نواب شاہ میں نجی تعلیمی اداروں نے حکومتی وعدالتی احکامات ہوا میں اڑا دیے
اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نوابشاہ( نمائندہ جسارت) نوابشاھ میں نجی تعلیمی اداروں نے حکومتی عدالتی اورمحکمہ تعلیم کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے نجی اسکولوں میں اضافی فیسیں غیر قانونی قرار دینے کے باوجود والدین کو پریشان کیا ہوا ہے اس سلسلے میں آرڈیننس 2001 اور عدالتی فیصلوں کا واضح حکم موجود ہیوالدیںن کی جانب سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق سندھ میں نجی اسکولوں کی جانب سے سالانہ فیس، امتحانی فیس اور دیگر اضافی چارجز وصولی کو سندھ پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز (ریگولیشن اینڈ کنٹرول) آرڈیننس 2001 اور عدالتی احکامات کی روشنی میں غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ صوبائی قوانین اور ہائی کورٹ کے فیصلوں کے مطابق نجی اسکول صرف وہی فیس وصول کرنے کے مجاز ہیں جو رجسٹرنگ اتھارٹی سے منظور شدہ ہو لیکن عملاً شہر بھر کے تعلیمی ادارے غیر قانونی قرار دیے جانے والی فیسوں کو وصول کر رہے ہیں جبکہ محکمہ تعلیم از خود نوٹس لینے پر تیار نہیں ہے جسکی وجہ سے نجی تعلیمی اداروں کی لوٹ مار جاری ہیوالدین نے بتایا کہ سندھ پرائیویٹ تعلیمی ادارہ جات آرڈیننس 2001 کا واضح حکم آرڈیننس 2001 کے تحت کوئی بھی نجی اسکول فیس اسٹرکچر میں ازخود اضافہ نہیں کر سکتا۔ فیس، صرف اس صورت میں بڑھائی جا سکتی ہے جب ادارہ باضابطہ طور پر رجسٹرنگ اتھارٹی کو درخواست دے اور منظوری حاصل کرے۔ قواعد (Rules 2005) کے مطابق فیسوں میں سالانہ اضافہ بھی مخصوص حد کے اندر رہ کر ہی ممکن ہے ۔ قانون کے مطابق اسکول اگر رجسٹریشن فیس لیتے ہیں، تو وہ صرف وہی سروسز شامل کر سکتے ہیں ۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ا رڈیننس 2001 کے مطابق
پڑھیں:
خواتین کی تعلیم: افغان طالبان کی پابندیاں شدت پسندی کو بڑھا رہی ہیں! تشویشناک رپورٹ جاری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کابل میں انسانی حقوق کے کارکنان نے افغان طالبان کی جانب سے تعلیم، اظہارِ رائے اور فکری آزادی پر سخت پابندیوں کو دہشت گردی کے فروغ کے لیے خطرناک بنیاد قرار دیا ہے۔
غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق کارکنان انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ طالبان ایک خاموش، خوف زدہ اور فکری طور پر محروم معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں افغانستان شدید تعلیمی و فکری دباؤ کا شکار ہو چکا ہے۔
رپورٹس کے مطابق طالبان نے خواتین کی تعلیم پر سخت پابندیاں عائد کر کے نہ صرف لڑکیوں کے تعلیمی مستقبل کو تاریک بنا دیا ہے بلکہ خواتین اساتذہ کی بڑی تعداد بھی بے روزگار ہو چکی ہے۔
یونیورسکو اور یونیسیف کی تازہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اساتذہ کی کمی، تعلیمی وسائل کی قلت اور اہم علمی شعبہ جات کے خاتمے نے افغانستان کے تعلیمی معیار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ طالبان کے دورِ حکومت میں سماجی علوم، قانون اور میڈیا اسٹڈیز جیسے شعبے بند کیے جا رہے ہیں، جو فکری سوچ کے خاتمے کا حصہ ہیں۔
کئی یونیورسٹیاں بند ہونے سے ملک میں علمی سرگرمیاں تقریباً ختم ہو چکی ہیں اور نوجوانوں کا مستقبل غیر یقینی صورتحال کی لپیٹ میں ہے۔
ماہرین کے مطابق طالبان رجیم آزادی اظہار، تنقیدی سوچ اور تخلیقی فضا کو مکمل طور پر ختم کر کے ایسا معاشرہ تشکیل دے رہی ہے جو خوف، جبر اور خاموشی میں جکڑا ہوا ہو۔ عالمی سطح پر افغان طالبان کی پالیسیوں کو باعثِ شرم اور شدت پسندی کے فروغ کا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے۔