Express News:
2025-12-07@23:27:43 GMT

فکر اقبالؒ کی کچھ اور کرنیں

اشاعت کی تاریخ: 8th, December 2025 GMT

کوئٹہ کی اقبال انٹرنیشنل کانفرنس ذاتی طور پر میرے لیے بھی خوش گوار ثابت ہوئی۔ میری ملاقات ایک ایسی شخصیت سے ہوئی جس سے میری بچپن کی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ میرے پرائمری اور ہائی اسکول کے زمانے میں سرگودھا کے در و دیوار پر ایک پوسٹر کثرت سے دکھائی دیا کرتا تھا۔

پرانا ہو جاتا تو اسے تازہ کر دیا جاتا، یعنی اسی مضمون کا ایک اور پوسٹر بہار دکھاتا۔ مختلف تہذیبی سرگرمیوں کی اطلاع دینے والے پوسٹر پر نک سک سے درست وردی میں ملبوس ایک چاک و چوبند شخص سلامی دیتا ہوا دکھائی دیتا۔تصویر والے چاک و چوبند شخص کا نام تھا کیپٹن ہارون الرشید تبسم۔ یہ کپتان ترقی کرتے کرتے میجر اور کرنل بھی بنا ہو گا لیکن اس کا اصل مشغلہ ایم اے کرنا تھا۔

معلوم نہیں کتنے اس شخص نے ایم اے کیے ہوں گے۔ پھر وہ کہیں خلد آشیانی ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے ہاتھ لگ گیا، یوں یہ مشغلہ بیچ میں رہ گیا اور اس نے پی ایچ ڈی کی۔ اقبالیات پر عموماً دو طرح سے کام کیا گیا ہے: ایک فکری پہلو پر اور دوسرا ان کی زندگی اور شعر کے فنی پہلو پر۔ ہاشمی صاحب کا رجحان دوسری طرف تھا، لہٰذا ان کا شاگرد بھی اسی رخ پر چلا اور نمایاں ہوا۔

انٹرنیشنل اقبال کانفرنس میں مالدیپ کے ڈاکٹر اشرف عبد الرحیم بھی شریک تھے جو وہاں کی قومی زبان دیویہی (Dhivehi) کی ترقی کے ادارے کے سربراہ ہیں۔ اپنی گفتگو میں انھوں نے کوئی شعر اقبال سے منسوب کیا تو ڈاکٹر ہارون نے فوراً مداخلت کی۔ یوں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی یاد تازہ ہوئی۔ پورے کا پورا اقبال جن کی نوکِ زبان پررہتا تھا۔ یہی خوبی ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم میں دکھائی دی تو ان کے عظیم استاد کی یاد تازہ ہو گئی۔ڈاکٹر ہارون کو میں بچپن سے دیکھتا آیا ہوں لیکن کوئٹہ کی اقبال کانفرنس کی برکت سے ان سے ملاقات بھی ہو گئی۔ گرائیں ہونے کے ناتے بے تکلفی بھی ہوئی اور گاہے میں نے شوخی سے بھی کام لیا، لیکن عمر اور علم میں بڑا ہونے کے باوجود ان کی محبت اور شفقت ویسی کی ویسی ہی رہی۔ یوں سمجھ میں آیا کہ سرگودھا کی تہذیبی اور ادبی زندگی ان کے دم سے ہے تو اس کا راز کیا ہے۔

کوئٹہ کے سفر میں ڈاکٹر شیر علی کا ساتھ رہا، ہر چھوٹی بڑی بات میں تقریب کا پہلو تلاش کر لینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ تقریب برپا کرنا، پھر اس میں حسن پیدا کرنا یہ ڈاکٹر شیر علی کا ہنر ہے۔ انھوں نے تھوڑی سے مدت میں الحمد یونیورسٹی کو ادب کا ایک مؤثر پلیٹ فارم بنا دیا ہے جہاں اب اقبال چیئر بھی قائم کی جا رہی ہے۔تقریبات برپا کرنے والوں کا علم عام طور پر ان کے حسنِ انتظام کے پیچھے کہیں چھپ کر رہ جاتا ہے۔ اس کانفرنس کے وسیلے سے سمجھ میں آیا کہ اقبال کو انھوں نے اپنے عصری مسائل کے تعلق سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے مسائل کے حل کی کنجی حقیقی جمہوریت میں پوشیدہ ہے، جس کا سبق ہمیں اقبال نے دیا ہے۔

اپنی تہذیب اور مسائل سے آگاہی فارسی کے شعور کے بغیر ممکن نہیں۔ کانفرنس کی یہ خوش قسمتی تھی کہ اس میں فارسی زبان و ادب کے ممتاز استاد اور ادارہ فروغِ قومی زبان کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر بھی شریک تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان کی گفتگو کانفرنس کا حاصل تھی تو اس میں کوئی شبہ نہیں ہو گا۔

انھوں نے بتایا کہ یہ زمانہ نظریاتی کشمکش کا ہے جس میں ہر نظریہ بالادستی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ اس کشمکش میں وہ تہذیبیں زندہ رہیں گی اور فروغ پائیں گی جو اپنے نظریے کے ساتھ پورے شعور کے ساتھ کھڑی رہیں گی۔ ہمیں بھی اقوامِ عالم میں اپنا سر بلند رکھنے کے لیے اپنا تعلق اپنے نظریے کے ساتھ مضبوط بنانا ہے۔ ہمارا نظریہ کیا ہے، یہ ہمیں معلوم ہے، لیکن نظریے کو سمجھنا اور اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق اسے متحرک صرف اقبال کی مدد سے کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اقبال کے شعری اور نثری دونوں متون پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ توجہ کی ضرورت ہے، فی زمانہ جس پر توجہ دکھائی نہیں دیتی۔

بنگلا دیش کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ کے سربراہ ڈاکٹر عبد العزیز کی اس کانفرنس میں شرکت غیر معمولی رہی، وہ جس وقت بھی اسٹیج پر آئے ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ خرقہ ٔ اقبال پہناتے وقت ڈاکٹر عبد الرف رفیقی نے جب یہ کہا کہ آج ہم ثابت کر دیں کہ پاکستان ہو یا بنگلا دیش، دونوں فکر اقبال کی کرنیں ہیں تو حاضرین معزز مہمان کے احترام میں کھڑے ہو گئے اور دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔ رحمۃ للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی رکن کی حیثیت سے مجھے برادر عزیز سہیل بن عزیز کی معیت میں انھیں تحقیقی کتاب علامہ محمد اقبال اور تحریک قادیانیت پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جسے انھوں نے انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری کے لیے گراں قدر اضافہ قرار دیا۔

اقبال نے اپنی تمام تر امیدیں نوجوانوں سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ اس کانفرنس کی اصل خوبی بھی تھوڑے سے بزرگ مہمانوں کو چھوڑ کر نوجوان ہی تھے، جو صبح سے شام تک جاری رہنے والے سیشنوں میں موجود رہتے اور اہلِ علم کی بات چیت کو غور سے سنتے۔ مہمان مقررین میں ایک نوجوان حنان علی عباسی بھی شامل تھے جنھوں نے یوتھ پارلیمنٹ بنا کر نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے مثبت سرگرمیوں کا مستقل انتظام کر دیا ہے۔

حنان علی عباسی نے کانفرنس کے عمومی مزاج سے ہٹ کر جدید عہد کی سب سے بڑی ایجاد انفارمیشن ٹیکنالوجی اور اس کے مثبت و منفی اثرات کو اپنی گفتگو کا موضوع بنایا اور بتایا کہ کس طرح آج نوجوان جدید عہد کے تقاضوں پر پورا اترتے ہوئے بھی اپنے نظریے اور تہذیب سے وابستہ رہ سکتے ہیں۔ جنریشن زی کا مزاج کیا ہے اور کیسے اس سے مفید کام لیا جا سکتا ہے، اس موضوع پر ان کی گفتگو غیر معمولی تھی۔

یوں کوئٹہ میں ایک اقبال کانفرنس ہوئی؛ اصل میں یہ دو کانفرنسیں تھیں۔ ایک تعمیرِ نو پبلک کالج کے مردانہ کیمپس میں اور دوسری زنانہ کیمپس میں۔ دونوں کانفرنسیں تعمیر نو ٹرسٹ کے سی ای او حافظ طاہر کے حسنِ انتظام کا مظہر تھیں، تاہم خواتین کی کانفرنس بے مثال ثابت نہ ہوتی اگر اسے جویریہ عبد الحق کی خدمات حاصل نہ ہوتیں۔ جویریہ انگریزی ادب کی طالب علم اور استاد ہیں۔ انگریزی میں شاعری بھی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اردو نثر میں بھی ان کا کافی کام ہے۔

وہ کانفرنس کی مجلسِ منتظمہ میں شامل تھیں۔ ان کی متحرک شخصیت نے خواتین کی کانفرنس تو یقینا کامیاب بنائی، لیکن وہ کانفرنس کے مردانہ حصے میں بھی مصروف دیکھی گئیں۔ کانفرنس کی مصروفیات کی وجہ سے ان سے زیادہ ملاقات تو نہیں رہی، لیکن ان کی خوش ذوقی اور سنجیدہ مزاجی ایک اثاثہ ہے۔ ان کے طالب علم یقینا خوش قسمت ہیں جنھیں ایسی استاد کی رہنمائی حاصل ہے۔

ان ہی کی طرح ڈاکٹر علی کمیل قزلباش سے ملاقات بھی دورہ کوئٹہ کی خوشگوار یاد ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا اختصاص اقبال اور خوشحال خان خٹک ہیں۔ اس موضوع پر انھوں نے تہران یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ اقبال اور خوشحال بابا کے افکار پر کام اور ترویج وقت کی ضرورت ہے۔ اس موضوع پر ان سے جتنی گفتگو بھی رہی، متاثر کن تھی۔

مختصر یہ کہ بلوچستان کی موجودہ صورتِ حال میں یہ کانفرنس تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی، جس کی مدد سے اہلِ بلوچستان، خاص طور پر نئی نسل، سمجھ پائی کہ اقبال کی اصل فکر کیا ہے اور اس کی مدد سے بلوچستان کے مسائل کیسے حل کیے جا سکتے ہیں۔ بلوچستان کی تنہائی ختم کرنے کے لیے اس طرح کی سرگرمیاں مبارک ہیں، جس کے لیے اقبال اکیڈمی، رحمۃ للعالمین اتھارٹی اور تعمیر نو ایجوکیشن ٹرسٹ مبارک باد کے مستحق ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کانفرنس کی انھوں نے کے ساتھ اور اس کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

احسن اقبال: ڈی جی آئی ایس پی آر نے قوم کے جذبات کی بہترین ترجمانی کی

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے نارووال میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے قوم کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افواجِ پاکستان ملک کی محافظ ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلح افواج نے تاریخی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جنہیں پوری قوم قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ سیاسی مفاد کے لیے ریاست اور افواج پر تنقید کرنا ملک دشمنی کے مترادف ہے، اور پی ٹی آئی کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ ریاست کے ساتھ کھڑی ہے یا اپنی متنازع قیادت کے ساتھ۔
احسن اقبال نے 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل کی شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عوام کے پیسے کا غلط استعمال ہوا اور عسکری قیادت پر تنقید ناقابل قبول ہے، پوری قوم افواجِ پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کی موجودہ سیاسی مشکلات اس کی اپنی طرزِ سیاست کا نتیجہ ہیں، اور اگلے انتخابات میں عوام ایسے رویے کو مسترد کریں گے۔ موجودہ عالمی حالات میں پاکستان کسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا، اور گزشتہ دو برس میں ملک کو معاشی بحران سے نکالا گیا ہے۔ آنے والے تین سال پاکستان کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ انتشار اور فساد کی سیاست نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے، جبکہ مستقبل کی کامیابی کے لیے قومی اتحاد ضروری ہے۔ مسلم لیگ (ن) اگلی نسل کو روشن اور خوشحال پاکستان دینا چاہتی ہے۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ نفرت اور گالی گلوچ کی سیاست کو مسترد کر کے اب تعمیر و ترقی کی سیاست کو ترجیح دینی ہوگی، کیونکہ یہی ملک کو آگے بڑھا سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مرکزی مسلم لیگ کے لاہور میں انٹرا پارٹی انتخابات کے تیسرے مرحلے کا کامیاب انعقاد 
  • گلشن اقبال بلاک ون: گھر سے 3 خواتین کی لاشیں برآمد، ایک مرد بے ہوشی کی حالت میں
  • ڈی جی آئی ایس پی آر نے قوم کے جذبات کی ترجمانی کی، احسن اقبال
  • احسن اقبال: ڈی جی آئی ایس پی آر نے قوم کے جذبات کی بہترین ترجمانی کی
  • یونیورسٹی روڈ موت کا کنواں بن چکی جو کے ایم سی کے ماتحت ہے، ٹاؤن چیئرمین گلشن اقبال
  • 4 ارب میونسپل ٹیکس بجلی بلوں میں وصول کیے، گٹر پر ڈھکن لگانے کے پیسے نہیں، چیئرمین گلشن اقبال ٹاؤن
  • میئر کراچی اختیارات نہیں دیتے ذمہ داری بھی نہیں لیتے؛ چیئرمین گلشن اقبال ٹاؤن ڈاکٹر فواد احمد
  • کراچی: گلشن اقبال میں کھلے گٹروں پر ٹاؤن چیئرمین کی تصاویر آویزاں
  • کلامِ اقبال بخط ِاقبال