پاکستان اور اسرائیل سے دو خبریں …!
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251209-03-7
کہا جاتا ہے کہ دنیا میں صرف دو ملک ہیں جو مذہب کی بنیاد پر قائم ہوئے ہیں، پاکستان اور اسرائیل، دونوں سے ایک ایک خبر ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو معاف کرنے کی درخواست اسرائیلی صدر نے مسترد کر دی، اسرائیلی وزیراعظم پر پانچ سال سے بدعنوانی کے مقدمات چل رہے ہیں، ٹرمپ نے اسرائیلی صدر کو خط میں نیتن یاہو پر بدعنوانی کے الزامات کو سیاسی اور غیر منصفانہ قرار دیا تھا اور انہیں معاف کرنے کی درخواست کی تھی، اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں صدر ٹرمپ کی دوستی اور ان کی رائے کا احترام کرتا ہوں لیکن اسرائیل ایک خود مختار ملک ہے اور قانونی نظام کا مکمل احترام ہونا چاہیے، اسحاق ہر ذوگ کا کہنا تھا یہ یقینی طور پر ایک غیر معمولی درخواست ہے مگر اسرائیلی عوام کی بھلائی میری پہلی دوسری اور تیسری ترجیح ہے۔
دوسری خبر پاکستان سے ہے جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی کی عدالت نے گاڑی کی ٹکر سے دو لڑکیوں کی ہلاکت سے متعلق کیس میں فریقین کے درمیان باہمی صلح کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کے گرفتار بیٹے ابوذر کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا گزشتہ روز سماعت کے دوران ملزم کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر شام کو عدالت میں پیش کیا گیا اس موقع پر سیکورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے، میڈیا سمیت کسی کو بھی کمرۂ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی، دوران سماعت متاثرہ خاندانوں کی جانب سے ملزم کو معاف کرنے کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
واضح رہے کہ وفاقی دارالحکومت کی شاہراہ دستور پر تیز رفتار لینڈ کروزر نے اسکوٹی پر جانے والی دو دو کم عمر لڑکیوں کچل دیا تھا، گاڑی اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج محمد آصف کا کم عمر بیٹا ابوذر چلا رہا تھا، عینی شاہدین کے مطابق حادثہ تیز رفتاری کے باعث پیش آیا، ٹکر اتنی شدید تھی کہ اسکوٹی کئی فٹ دور جاگری اور دونوں لڑکیاں موقع پر ہی دم توڑ گئی تھیں، ملزم کی تاریخ پیدائش جولائی 2009 ہے، اس کا ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں بنا ہے، حادثے کے وقت ملزم سوشل میڈیا ایپ کے لیے ویڈیو بنا رہا تھا۔
دوسرے روز پاکستان کے دو ممتاز دانشوروں محمد اظہار الحق اور خورشید ندیم کے کالم شائع ہوئے، دونوں حضرات نے دلی تاسف کا اظہار کیا اور پاکستان کے حالات کے بارے میں اپنے تجربات کی روشنی میں بالکل واضح الفاظ میں لکھا تھا کہ ملزم کو سزا نہیں ملے گی، محمد اظہار الحق صاحب کے الفاظ تھے ’’کچھ بھی نہیں ہوگا کچھ بھی نہیں، پیر کی رات وفاقی دارالحکومت کی شاہراہ دستور پر اندھا دھند رفتار سے کروڑوں کی شاہانہ گاڑی چلانے والے 16 سالہ چھوکرے نے جن دو بہنوں کو گاڑی کے نیچے دے کر ہلاک کیا ہے ان دونوں بہنوں کو انصاف نہیں ملے گا، لکھ لیجیے نہیں ملے گا، کیا مجرم کے والد محترم جو خود بڑے عہدے پر فائز ہیں جانتے نہیں تھے کہ ان کا فرزند اس کچی عمر میں گاڑی چلاتا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک 16 سالہ لڑکا رات ایک بجے گھر سے باہر ہو اور اس کے والدین کو معلوم ہی نہ ہو کہ بیٹا گھر پر نہیں ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ 16 سالہ لڑکا باپ کے علم کے بغیر گاڑی چلاتا ہو جبکہ اس عمر میں ڈرائیونگ لائسنس بن ہی نہ سکتا ہو‘‘۔
اسی طرح بہت ہی متحمل مزاج خورشید ندیم صاحب نے لکھا تھا ’’میں نجومی نہیں ہوں مگر پیش گوئی کر سکتا ہوں کہ اسلام آباد کی ایک شاہراہ پر کچلی جانے والی پاکستان کی دو بیٹیوں کو انصاف نہیں ملے گا، کراچی کے ابراہیم کو بھی نہیں، جو دیکھتے دیکھتے موت کی آغوش میں چلا گیا، اس نظام عدل و حکومت میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ یہ انصاف جیسی اعلیٰ اخلاقی قدروں کی حفاظت کر سکے، یہاں قاتلوں کو وکیل مل جاتے ہیں، ان کے پاس اخلاقیات کا اپنا فلسفہ ہے۔ آئین شکنی سے لے کر عہد شکنی تک یہاں ہر جرم کے مرتکب کے لیے وکیل موجود ہیں، قانون بھی اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب موقع ملے اور وہ شک کا فائدہ ملزم کو دے، ایسے واقعات حادثہ نہیں ہوتے، لازم ہے کہ انہیں قتل عمد قرار دیا جائے۔
اس واقعے میں ایک نوجوان جو قانون کی رو سے گاڑی چلانے کا مجاز نہیں تھا نہ صرف قانون شکنی کرتے ہوئے گاڑی چلا رہا تھا بلکہ اس کے ساتھ خرمستیاں بھی کر رہا تھا جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ حادثے کے وقت ملزم ویڈیو بنا رہا تھا، ایسے واقعات میں اصل مجرم باپ ہوتا ہے جس نے گاڑی دی چلانے کا اذن دیا اور یوں اس دوہرے قتل کے لیے اسباب فراہم کیے۔
محترم اظہار الحق اور خورشید ندیم صاحبان اس نتیجے پر کیوں پہنچے کہ دو لڑکیوں کو کچلنے والے لڑکے کو سزا نہیں ہوگی اس لیے کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ملک میں درجنوں ایسے واقعات ہو چکے ہیں جب کسی اہم شخصیت نے یا اس کی اولاد، بیوی حتیٰ کہ ملازم نے کسی غریب کو کچلا ہو اور وہ کسی نہ کسی طرح سزا سے بچ نہ نکلا ہو ہمارے وطن میں ایسے موقع پر پوری سرکاری مشینری ظالم کو سزا سے بچانے میں لگ جاتی ہے اور مظلوم کو، اس کے رشتہ داروں کو دھمکانے یا لالچ دینے کی ہر کوشش آزمائی جاتی ہے، پہلے قدم کے طور پر تو پولیس مقدمہ ہی درج نہیں کرتی، بہت جدوجہد کے بعد ایف آئی آر درج کرا دی جائے تو پولیس اتنی کمزور ایف آئی آر درج کرتی ہے کہ ہر مرحلے پر ملزم کو فائدہ ہو اور مظلوم یا اس کے لواحقین کی مشکلات بڑھتی جائیں۔
وطن عزیز میں درجنوں ایسے واقعات ہو چکے ہیں کسی ایک مقدمے میں بھی کسی اہم شخصیت کو سزا نہیں مل سکی اس طرح امیر یا بااثر افراد کی غیر کی غیر مہذب اولادوں کو یقین ہو چکا ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں انہیں کچھ نہیں ہوگا، کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکے گا، یہی وجہ ہے کہ اب پاکستان میں ایک افرا تفری کا سماں ہے۔ جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے وہ ہر چیز پر قبضہ کر لینا چاہتا ہے۔ جو غریب، بے اثر لوگ ہیں ان پر قانون 100 فی صد بلکہ اس سے بھی زیادہ نافذ کیا جاتا ہے۔ ہر محکمہ، ہر ادارہ صرف اپنے لوگوں کا تحفظ کر رہا ہے خواہ وہ حق پر ہو یا حق کے خلاف۔
بس پاکستان اور اسرائیل میں یہی فرق ہے جس کے باعث ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل پوری امت مسلمہ کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے اور پاکستان جیسے بڑے ملک کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ وہ ہر دوست ملک کا مقروض ہے آئی ایم ایف کے پاس بار بار جانا پڑتا ہے ہر مرتبہ اس کے سامنے ناک رگڑنا پڑتی ہے، ہر دفعہ عزم کرتے ہیں کہ بس یہ آخری مرتبہ ہے لیکن پھر کچھ عرصے بعد آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑے ہوتے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایسے واقعات بھی نہیں نہیں ملے ملزم کو رہا تھا کے لیے کو سزا اور اس
پڑھیں:
جج آصف کا بیٹا بھی جج بنے گا؟
نہ سیف سٹی اسلام آباد نے سی سی ٹی وی فوٹیج برآمد کی، نہ کسی چشم دید گواہ نے گواہی دی، نہ کچلی ہوئی بچیوں کے دفتر نے احتجاج کیا، نہ ٹریفک پولیس نے کوئی کارروائی کی، نہ آج تک پتہ چلا کہ گاڑی میں کون کون تھا، نہ وی ایٹ جیسی بڑی گاڑی کی نمبر پلیٹ کی تصدیق ہوئی، نہ وکلاء نے احتجاج کیا، نہ معزز ججوں نے ایک دوسرے کو خط لکھا، نہ سول سوسائٹی نے موم بتیاں جلائیں، نہ وزیر اعظم نے دکھی خاندان کی داد رسی کی۔ اور صرف 5 دن میں انصاف ہو گیا۔ کچلی جانے والی بچیوں کے خاندان کی زبان پر قفل لگا دیے گئے اور انصاف کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔ کیس عدالت سے اسی تیز رفتاری سے ختم ہوا جس تیز رفتاری سے سکوٹی پر بیٹھی بچیوں کو کچلا گیا تھا۔
انصاف کے حصول کے لیے اس برق رفتاری کا مظاہرہ اس عدلیہ کی جانب سے کیا گیا جس کے کیس نسلوں تک فیصلوں کے منتظر رہتے ہیں۔ یہ تیز رفتار انصاف اس عدلیہ کی جانب سے کیا گیا جس کا دنیا میں انصاف کی فراہمی میں 140واں نمبر ہے۔ یہ کارنامہ اس عدلیہ کی جانب سے کیا گیا جہاں کسی کسی کیس میں دہائیوں تک گواہوں کی پیشی نہیں لگتی، جہاں سائل انصاف کی تلاش میں عمریں گزار دیتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا۔ اس عدلیہ کی جانب سے ایسا کیس 5 دن میں نپٹانا ایسا کارنامہ ہے جو شاید اس وقت تک نہ دہرایا جائے جب تک کسی اور جج کا بچہ کسی اور بڑی گاڑی میں کسی اور بچی کو قتل نہیں کرتا۔
سارا زمانہ ششدر ہے کہ یہ کیسا کیس تھا جو بس 5 دن میں تمام ہو گیا۔ حیرت ان وکیلوں پر ہے جو ہر وقت احتجاج کو تیار رہتے ہیں، جن کی مرضی سے عدالتیں چلتی ہیں، جو سب سے زیادہ انصاف کا نعرہ لگاتے ہیں، جو اپنے پریشر سے حکومتوں کو زیرِ دام کرتے ہیں، جن کی بارز کی طاقت سے بڑے بڑے جج گھبراتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ سارے وکیل لیڈر، وکیل تنظیمیں کیوں خاموش ہو گئیں؟ ان کا جذبۂ جہاد کہاں چلا گیا؟ ان کی انصاف کی طلب کہاں مر گئی؟
وہ بڑے بڑے جج جو سرعام ایک دوسرے کو خط لکھتے ہیں، جن کی طاقت اور دہشت سے ٹی وی پر ٹکر چلتے ہیں، جن کے فیصلوں سے حکومتیں الٹتی ہیں، جن کے خوف سے حکومتیں تھر تھر کانپتی ہیں، وہ سبھی اپنے مجرم ساتھی کو بچانے کی خاطر چپ ہو گئے۔ نہ کسی نے سوموٹو لیا، نہ سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا، نہ فل کورٹ کو طلب کرنے کی درخواست آئی، نہ کوئی خط میڈیا میں لیک ہوا، نہ انصاف کے ترازو میں کوئی جنبش ہوئی۔ سب اپنے ساتھی کے جرم پر پردہ ڈالنے کو خاموش ہو گئے۔
ایک لمحے کو سوچیں: جج آصف اب بھی انصاف کی مسند پر براجمان ہوں گے۔ سائل امید سے انصاف کی توقع لے کر ان کی عدالت میں آئیں گے۔ میزانِ عدل بھی وہیں پڑا ہوگا۔ قانون کی کتاب بھی وہیں کہیں رکھی ہو گی۔ قرآنِ کریم کا نسخہ بھی گواہی کے لیے موجود ہوگا۔ چوبدار بلند آواز میں سائلین کو پکارے گا۔ پولیس معزز جج کے حکم پر لوگوں کو گرفتار یا رہا کرے گی لیکن انصاف کی مسند پر وہ شخص بیٹھا ہوگا جس نے اپنے ادارے کے نام کو بٹہ لگایا، انصاف کا تماشا بنایا۔ نہ ادارے کو حیا آئی نہ کسی اور جج کی غیرت جاگی۔
جج آصف کو چاہیے کہ اپنی عدالت میں رکھی قانون کی کتاب کو آگ لگا دیں، انصاف کے میزان کے دونوں پلڑے زمین پر گرا دیں، قرآنِ کریم کے نسخے کو طاق پر رکھوا دیں، سائلین میں منادی کرا دیں کہ یہ اس منصف کی عدالت ہے جو خود مجرم ہے، جس کا بیٹا قاتل ہے اور اس قاتل کی پشت پناہی کرنے والا آج آپ کا مقدمہ سنے گا۔ سائلین خود بتائیں کہ انہیں کون سا انصاف درکار ہے: جج آصف کے بیٹے ابوذر ریکی والا یا سکوٹی پر بیٹھی 2 غریب بچیوں والا؟
کہا جاتا ہے کہ جس بڑی گاڑی نے سکوٹی والی بچیوں کو کچلا اس کی نمبر پلیٹ بھی جعلی تھی۔
سرکارِ پاکستان اس وقت دہشتگردی کے خلاف جہاد سے نبرد آزما ہے۔ غیر قانونی مقیم افغانیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا جا رہا ہے۔ ہر شخص کے لائسنس اور گاڑی کے نمبر کی تصدیق ہو رہی ہے۔ کوئٹہ سے کراچی تک دہشتگردی اور دہشتگروں کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے۔ ان حالات میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک جج وی ایٹ جیسی بڑی گاڑی جعلی نمبر پلیٹ پر چلا رہا ہے، تو اس پر تشویش کسی ایک ادارے کو نہیں، پورے ملک کو ہونی چاہیے۔
ایک زمانہ تھا جب ہم مجرم اس کو کہتے تھے جس نے جرم کیا ہوتا تھا، مگر جج آصف نے اس عدلیہ کے منہ پر وہ کالک ملی ہے کہ اب مجرم اور منصف میں تخصیص ختم ہو گئی ہے۔ اب دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہو گئے ہیں۔ اب دونوں ایک ہی گھر میں پرورش پاتے ہیں۔ ایک اپنے بچے کو 9 سال کی عمر سے گاڑی چلانے کی ترغیب دیتا ہے اور اسی تربیت کا فائدہ اٹھا کر وہ بچہ 16 سال کی عمر میں وی ایٹ تلے 2 بچیوں کو قتل کر دیتا ہے۔ اسی گھر میں ایک منصف ہے جو اس سارے جرم پر پردہ ڈالتا ہے۔ پورا ادارہ اس کی پشت پناہی کرتا ہے۔ کہیں سے کوئی احتجاج کی آواز نہیں آتی۔ انصاف کا سارا ادارہ ایک مجرم جج کے حق میں خاموش رہتا ہے۔
جج آصف نے اپنے عہدے اور دولت سے اپنے قاتل بیٹے کے لیے جو انصاف خریدا ہے، اس سے یوں گمان ہوتا ہے کہ ان کا بیٹا بھی بڑا ہو کر جج ہی بنے گا کیونکہ طاقت کے بل پر سستے داموں انصاف کو خریدنے کا نسخہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہو چکا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔