شکست کی خفت مٹانے کی کوشش!
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے سر کریک کی نیوی کی مشقوں کے بعد بیان داغا ہے کہ سندھ کی پاکستانی سرحد تبدیل ہو سکتی ہے یہ بیان بھارتی عوام کاحوصلہ بڑھانے اور جنگ بنیان مرصوص میں بھارت کی شرمناک شکست کے بعد خفت مٹانے کی بات سے بڑھ کر نہیں سمجھی گئی۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر صاحب نے بھی اس بیان کے جواب میں خوب کہا کہ اب حملہ ہوا تو رعایت نہیں برتی جائے گی اور سخت ترین منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی بھارت کی اس دھمکی کی مذمت کی اور نوٹس لیتے ہوئے بھارت کو متنبہ کیا کہ وہ ایسی جارحانہ حرکت نہ کرے ہم متحد ہیں سندھ ان شاء اللہ پاکستان کا حصہ رہے گا اور ایوان نے مذمتی قرار داد بھی منظور کی، پاکستان ہندو کونسل کے ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے بھی اپنے بیان میں کہا کہ محب وطن پاکستانی ہندوکمیونٹی پاکستان کو اپنی دھرتی ماتا سمجھتی ہے۔ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا بیان غیر ذمے دارانہ اور بچکانہ احمقانہ اور اشتعال انگیز ہے۔ سندھ پاکستان کا حصہ ہے۔ دنیا میں سرحدیں جذباتی نعروں یا تقریوں سے نہیں بدلتیں۔
سندھ اسمبلی میں جماعت اسمبلی کے پارلیمانی لیڈر محمد فاروق فرحان نے سندھ اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کی گئی قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے بھارت کے طیاروں کی صنعت تباہ کردی اس کے جنگی طیارے تو ائر شو میں شو کرنے کے قابل بھی نہیں مودی کس منہ سے ہمارے ساتھ جنگ کریں گے؟ سندھ وہ صوبہ ہے جس نے قرار داد پاکستان کی منظوری اور پاکستان کا جھنڈا لہرایا مودی ہماری فکر چھوڑیں اپنی فکر کریں۔ وہ تنہائی کا شکار ہوگئے ہیں سکھ تنظیموں نے پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
بھارت سندھ کو بانی پاکستان ہونے اور باب الاسلام ہونے پر سزا وار سمجھے ہوئے ہے اور ایک روایت بھی سندھ کے مسلمانوں کو متنبہ کرتی ہے کہ بھارت کے ہاتھوں سندھ تباہ ہوگا۔ سو اس کے ہاتھوں سے بچنے کی تدبیر حتی المقدور سندھ کے غیور مسلمان اور دیگر باسی اپنا جز ایمان ودھرم بنائے ہوئے ہیں بلکہ وہ یہ بھی تصور رکھتے ہیں کہ ممبئی سندھ کا حصہ تھا اور یہ حق بھی سندھ کا ہے جو آج نہیں تو کل غزوۂ ہند کی صورت مل کر رہے گا ان شاء اللہ۔ بھارت نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی سندھ کی سرحد پر مشقوں کے ذریعہ پاکستان کے اس صوبہ پر قبضہ کا منصوبہ بنایا مگر پھر ضیاء الحق کی ایک ہی دھمکی نے بھارتی نیتائوں کی پتلون گیلی کردی تھی، یوں بھارتی فوج لوٹ کے بدھو گھر کو آئے کی مثال بن گئے۔ آرمی چیف اسلم بیگ نے کہا تھا کہ بھارت سندھ میں بھارتی پٹھوئوں پر سالانہ 4 ارب روپے کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، اس کے منہ پر کالک جی ایم سید کے گھرانے نے سندھو دیش کے نعرے سے دستبرداری کرکے خود مختاری کا نعرہ اپنا کر مل دی۔ رہے دیگر قوم پرست کہلانے والی تنظیمیں وہ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گئیں اور ان کو ایک محدود دائرہ میں بھڑاس نکالنے اور اغیار سے محنتانہ کی اجازت اور کڑی نگہداشت نے ان کو غیر موثر کردیا اور جس نے بھی دائرہ پھلاندہ وہ مارا گیا؛ نے بھی بھارتی عزائم کو غیر موثر بنادیا ہے۔ اس زمینی حقائق کی روشنی اور بھارت کی عالم آشکار پٹائی میں بھارتی وزیر دفاع کا خواب اور بیان دیوانے کی بڑ بڑاہٹ سے بڑھ کر نہیں ویسے بھی ہوش محمد شیدی کا نعرہ تاریخ کے صفحات اور سندھ کے عوام کے قلب میں زندہ اور تابندہ ہے کہ ’’مرسون مرسون سندھ نہ ڈیسون‘‘۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نے بھی
پڑھیں:
بھارتی معیشت کا جھوٹ؟ آئی ایم ایف رپورٹ کی روشنی میں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251210-03-5
وجیہ احمد صدیقی
بھارتی روپے کی حالت دیکھ کر یہی لگا کہ جیسے ہاتھ سے نکلتی ہوئی چیز کو پکڑنے کی کوشش کی جا رہی ہو، جتنا زور لگا کر تھاما جائے، اتنا ہی زیادہ گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ 2014 میں وزیراعظم مودی نے وعدہ کیا تھا کہ ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں چلتی پھرتی جائے گی اور روپے کی قیمت چالیس روپے تک آجائے گی، لیکن آج دیکھیں کہ کس طرح روپیہ نیچے گرا اور اب ڈالر پہنچ چکا ہے، 90 کے قریب۔ اب ریزرو بینک آف انڈیا والے بھی سمجھ گئے ہیں کہ گرتے ہوئے خنجر کو پکڑنا ناممکن ہے، اس لیے فاریکس ریزرو بچانے کے لیے بس دیکھتے رہنا بہتر ہے۔ دوسری طرف پاکستان کا روپیہ اگرچہ 280 روپے پر ہے، مگر اس میں کمزوری کے باوجود حقیقت چھپی ہے، کیونکہ پاکستانی کرنسی کی قدر مارکیٹ میں جو قیمت ملنی چاہیے، وہ زیادہ حقائق کے قریب ہے، جب کہ بھارت کے روپیہ کی مصنوعی اونچائی کے پردے میں بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔ جی ڈی پی جتنی چاہو بڑا دکھا لو، بازار میں قوم کے روپے کی عزت وہی ہوتی ہے جو لوگ اسے دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ پاکستانی روپے سے قریبی موازنہ کر کے دیکھا جائے تو بھارت کا روپیہ کئی اعتبار سے کمزور اور بے بس نظر آتا ہے۔ یہ سب کچھ ہمیں اس گھٹیا حکمرانی کے نقصانات کی یاد دہانی کرواتا ہے جس نے صرف بکواس کے ساتھ عوام کا وقت ضائع کیا ہو اور حقیقت کو چھپایا ہو۔ درمیانے سے بڑے ہر بندے کا سوال یہ ہے کہ کب یہ دھوکے بازی کا کھیل ختم ہوگا اور روپے کی حقیقت سامنے آئے گی، جسے دنیا خود دیکھ سکے اور پاکستان کے روپیہ کے ساتھ اس کا موازنہ کر کے صحیح فیصلہ کر سکے۔ اس حال سے نکلنے کے لیے دونوں ملکوں کو صفائی اور دیانتداری سے اپنی کرنسی کی قدر سنبھالنی ہوگی۔
آج کے عالمی معاشی منظر نامے میں کرنسی کی قدر کا تعین نہ صرف ناممکن (nominal) ایکسچینج ریٹ سے ہوتا ہے بلکہ قوت خرید کی مساوات (PPP) پر بھی مبنی ہوتا ہے۔ پاکستان میں امریکی ڈالر کی قیمت تقریباً 280 پاکستانی روپے ہے جبکہ بھارت میں یہ 89 بھارتی روپے تک محدود ہے۔ یہ فرق بظاہر بھارتی معیشت کی برتری کی نشاندہی کرتا ہے مگر حقیقت میں بھارتی روپے کی قدر پاکستان سے بھی کم ہونی چاہیے کیونکہ بھارت کی معیشت 2011-12 کے پرانے بنیادی سال پر قائم ہے اور 85 کروڑ افراد قوت خرید سے محروم ہیں۔ آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹس اس دھوکا دہی کو بے نقاب کرتی ہیں۔ یہ تجزیہ مستند ذرائع سے ثابت کرے گا کہ بھارتی اعداد و شمار میں جو ہیرا پھیری ہے اس کی وجہ سے روپے کی قدر مصنوعی طور پر کم دکھائی جا رہی ہے، جبکہ پاکستان کی صورتحال زیادہ حقیقی ہے۔
بھارت کی معاشی بنیاد 2011-12 کے بیس (بنیادی) سال پر قائم ہے، جو 14 سال پرانا ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی اکتوبر 2025 کی ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بھارت کا قومی اکاؤنٹس سسٹم ‘C’ گریڈ کا ہے کیونکہ بیس سال اپ ڈیٹ نہیں ہوا۔ نئی معاشی ساخت، جیسے ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز، انفارمل سیکٹر کی تبدیلیاں اور انفلیشن، کو نظر انداز کر کے جی ڈی پی کو اوور اسٹی میٹ کیا جاتا ہے۔ ماہرین ارون کمار اور پرناب سین کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار ’’کم سے کم قابل اعتماد‘‘ ہیں اور 8.2 فی صد کی حالیہ گروتھ بھی مشکوک ہے۔ اس پرانے بیس سال (بنیادی) کی وجہ سے بھارتی جی ڈی پی per capita PPP 9817 ڈالر دکھایا جاتا ہے جو 2024 کا ہے مگر حقیقی طور پر یہ 55 فی صد عالمی اوسط سے کم ہے۔
پاکستان کی کرنسی PKR/USD 280-282 کے قریب ہے جو REER (Real Effective Exchange Rate) کے مطابق undervalued ہے، مگر بھارتی روپے کو PPP ایڈجسٹمنٹ میں مصنوعی طور پر مضبوط رکھا جاتا ہے۔ اگر بھارت نیا بیس سال اپنائے تو اس کا روپیہ 300 PKR سے زیادہ کا ہونا چاہیے کیونکہ انفلیشن ڈفرینشل اور غربت PPP کو متاثر کرتی ہے۔
غربت کا بھوت: 85 کروڑ افراد بغیر قوت خرید بھارت کی آبادی 140 کروڑ سے زائد ہے اور آئی ایم ایف؍ ورلڈ بینک کے مطابق 16.4 فی صد ملٹی ڈائمینشنل غربت (2019-21) ہے جو لگ بھگ 23 کروڑ افراد بنتے ہیں۔ صارفین کی قوت خرید نہ ہونے سے PPP تباہ ہو جاتی ہے۔ ورلڈ بینک کی 2025 PPP ریٹ پر انتہائی غربت لائن 62 روپیہ؍ دن ہے مگر 84 فی صد ہندوستانی $6.85 ؍دن سے کم پر زندہ ہیں، استعمال کنندہ کا دعویٰ کہ 85 کروڑ قوت خرید نہیں رکھتے، UNDP کی 2025 MPI سے قریب ہے جو بھارت کو شدید غربت والا قرار دیتی ہے۔ یہ غریب آبادی GDP اور PPP کی تردید کرتی ہے کیونکہ ان کی ضروریات (کھانا، رہائش) کو ایڈجسٹ نہیں کیا جاتا۔ آئی ایم ایف 2022 رپورٹ میں بھارت نے انتہائی غربت کو 0.8 فی صد تک کم کیا مگر یہ پرانی PPP پر مبنی ہے۔ نئی رپورٹس میں انفارمل سیکٹر کی تباہی اور COVID اثرات کو چھپایا گیا، جس سے حقیقی PPP rate بھارتی روپے کو 300 PKR سے اوپر لے جائے گا۔ بظاہر پاکستان میں غربت زیادہ ہے مگر اعداد و شمار زیادہ شفاف ہیں، جو PKR کی کمزوری کو جائز بناتا ہے۔
PPP بمقابلہ ناممکن ایکسچینج ریٹ: پاکستان اور بھارت کا موازنہ کرتے ہوئے قوت خرید کی مساوات (PPP) کہتی ہے کہ
ایکسچینج ریٹ انفلیشن اور پرائس لیولز کے مطابق ہونا چاہیے۔ بھارت میں 1 INR = 3.13 PKR ہے مگر USD/INR 89.9 اور USD/PKR 281 سے حساب لگائیں تو 1 USD = 89.9 INR اور 281 PKR، یعنی 1 INR = 3.13 PKR۔ یہ ریٹ PPP کے مطابق نہیں کیونکہ بھارت کی انفلیشن ہائی ہے اور غربت PPP کو کم کرتی ہے۔ پاکستان کا REER بتاتا ہے کہ PKR undervalued ہے مگر بھارتی روپے overvalued دکھتا ہے کیونکہ بنیادی سال پرانا اور WPI ڈیفلیٹر استعمال ہوتا ہے۔ کوانٹیگریشن ٹیسٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان- پاکستان PPP میں ایکسچینج ریٹس پرائس موومنٹس سے ہم آہنگ ہوتے ہیں مگر بھارت کی ہیرا پھیری سے انڈین روپے کی قدر بڑھائی جاتی ہے۔ اگر 85 کروڑ غریبوں کو ایڈجسٹ کریں اور نیا بیس سال لیا جائے تو بھارتی روپے کی USD قیمت 100+ ہونی چاہیے، یعنی PKR سے زیادہ کمزور۔ یہ ٹیبل ظاہر کرتا ہے کہ بھارتی اعداد و شمار مصنوعی ہیں۔ آئی ایم ایف اور عالمی اداروں کی تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق بھارتی وزارت خزانہ کی دھوکا دہی کا ثبوت ہیں۔ آئی ایم ایف کی 2025 WEO میں بھارت کے جی ڈی پی کو اوور اسٹی میٹ قرار دیا گیا، جہاں discrepancies 2-4% تک ہیں۔ بھارتی وزیر خزانہ سیتارامن نے بھی تسلیم کیا کہ ‘C’ گریڈ بیس سال کی وجہ سے ہے۔ ایک تحقیق میں بھارتی جی ڈی پی کو 4 فی صد تک محدود بتایا گیا جبکہ آفیشل 8+ فی صد ہے۔ ورلڈ بینک کی پرانی رپورٹس غربت کم دکھاتی ہیں مگر نئی PPP ($3/دن) پر 40 فی صد اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان پر آئی ایم ایف نے REER کی بنیاد پر PKR کو undervalued کہا، جو 7 فی صد اوپر ہے مگر بھارت کی خاموشی دھوکا دہی کی نشاندہی
کرتی ہے۔ یہ رپورٹیں ثابت کرتی ہیں کہ بھارتی روپے کی قدر 300 PKR سے زیادہ ہونی چاہیے۔ عالمی معیشت پر بھارتی دھوکا دہی اور ہیرا پھیری سرمایہ کاروں کو گمراہ کرتی ہے، جیسے انڈین اسٹاکس میں انفلو $38-61 فی صد گراوٹ کا باعث۔ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرامز میں سختی سے پابند کیا جاتا ہے جبکہ بھارت بچ جاتا ہے۔
بھارت کو نیا بیس سال اپنانے کا پابند بنایا جائے، غربت کو PPP میں ایڈجسٹ کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی روپے کی قدر پاکستان سے زیادہ نہیں بلکہ مزید کمزور ہونی چاہیے۔ آئی ایم ایف رپورٹس اسے واضح کرتی ہیں۔ عالمی برادری کو شفافیت کا مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ معاشی اعداد و شمار کے جھوٹ پر مبنی بھارتی معیشت دنیا کو دھوکا نہ دے۔