Express News:
2025-12-13@09:37:53 GMT

پاک انڈونیشیا معاہدے اور تعاون

اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT

 پاکستان اور انڈونیشیا ایک ایسے یقین کی دنیا ہے جن میں ایمان رچا بسا ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے باشندے مختلف زبان، رسم و رواج اور ثقافت رکھنے کے باوجود اسلام کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ اب دونوں ملکوں کی حکومتوں نے 7 عہد ناموں پر دستخط کر کے دنیا کو باورکرا دیا ہے کہ اب ایک مشترکہ راستہ طے کریں گے۔ وہ تجارت کریں گے جو حلال اصولوں پر مبنی ہو اور غربت کو ختم کر کے کامیابی بانٹے۔ وہ دن دور نہیں جب پاکستانی اور انڈونیشین پوری انسانیت کے لیے علم کی روشنی لے کر آگے بڑھیں گے۔ دونوں ملکوں نے علم کا رشتہ مضبوط کرنے کے لیے تعلیمی معاہدے پر بھی دستخط کر دیے ہیں، اگرچہ دونوں ممالک کا فاصلہ ایک دوسرے سے دور ہے لیکن یہ دوری اسلامی رشتے میں بندھ کر انتہائی قریب تر ہو جاتی ہے۔

پاکستان جوکہ اپنی بڑھتی ہوئی آبادی اور مسلم اکثریت کے باعث عالمی مسلم منظر نامے میں نہایت ہی اہم مقام رکھتا ہے جسے اب امریکا نے بھی تسلیم کر لیا ہے۔ اسی طرح انڈونیشیا بھی ایک بہت بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے اور دنیا میں پام آئل کا بہت بڑا برآمدی ملک بھی ہے۔ دونوں ملکوں میں اسلام یہاں کی مسلم اکثریتی معاشرے کا مذہبی اور ثقافتی اساس ہے۔ اور عالمی مسلم منظر نامے میں دونوں ملکوں کے درمیان جو سات ایم او یوز پر دستخط ہوئے ہیں یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ دونوں ملکوں کا اتحاد، یگانگت، بھائی چارگی نہ صرف علاقائی سطح پر اہم ہے بلکہ عالمی مسلم امت کی ڈوبتی امیدوں اور ابھرتی توقعات کا محور بھی ہے۔ دونوں ملکوں نے اب یہ ثابت کرنا ہے کہ اسلام دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، اسلامی ممالک کتنے دور اور نزدیک کیوں نہ ہوں بالآخر ایک مسلم براعظم کی زنجیر کا حصہ بن جاتے ہیں۔

گزشتہ دنوں انڈونیشیا کے صدر نے پاکستان کا نہ صرف دورہ کیا بلکہ کئی ایم او یوز پر دستخط بھی کیے۔ اسلام آباد کے یخ موسم نے دستخطوں والے 7 معاہدے کو ایسے دیکھا جیسے دو ناخدا اپنے جہازوں کی سمت درست کر رہے ہوں۔ ایک طرف بحیرہ عرب کی لہروں کی خوشبو دوسری طرف ’’جاوا‘‘ کے ساحلوں کی ٹھنڈک اور درمیان میں وہ 7 دستاویزات جو آنے والے مستقبل کی تجارت، تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں کے علاوہ علم کے راستے طے کرنے والی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم اور اسکالرشپ کا معاہدہ ایسے لگا جیسے دو ڈین اپنے ڈپارٹمنٹ کے دروازے ایک دوسرے کے شاگردوں کے لیے کھول رہے ہوں۔ یوں کتابیں سفر کریں گی، علم سانس لے گا اور اسٹوڈنٹس استفادہ حاصل کریں گے اور نسلیں بدلیں گی، اہم معاہدہ یہ بھی تھا کہ اعلیٰ تعلیم اور انڈونیشین اسکالرشپ پروگرام۔

چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کی ترقی و تعاون، حلال تجارت اور سرٹیفکیٹس، صحت کے شعبے میں پاکستان سے ڈاکٹروں اور میڈیکل ماہرین کو انڈونیشیا بھیجنے اور تعلیم و تربیت میں تعاون کی پیش کش کی گئی ہے۔ صحت کے میدان میں تعاون یوں تھا جیسے ایک ڈاکٹر اپنے اوزار دوسرے کو دے کر کہے ’’ لو جہاں زندگی مشکل ہو، وہاں استعمال کرنا‘‘ پاکستان کے ڈاکٹر اور ماہرین انڈونیشیا کے اسپتالوں میں اور مشترکہ علاج کا خواب۔ یہ وہ فاصلہ ہے جو زبانوں سے نہیں طے ہوتا، اچھی نیتوں سے طے ہوتا ہے۔ حلال سرٹیفکیٹس کی شراکت ایک ایسا عہد ہے جسے قافلے میں موجود ہر مسافر کو خالص پانی دینا، دنیا کی مارکیٹیں کھلیں گی، اعتماد بڑھے گا اور حلال مصنوعات کی مارکیٹ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے قریب کر دے گی۔

دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ تجارت میں توازن لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی طرف سے زرعی اور مصنوعی برآمدات کو بڑھانے کی کوشش کی جائے گی۔ فی الحال بڑی تعداد میں پام آئل کی درآمد کے باعث پاکستان زیادہ مالیت کی درآمد کرنا ہے اور انڈونیشیا کے لیے پاکستانی برآمدی مالیت کم ہے جسے فوری طور پر اس معاہدے کی رو سے بڑھایا جا سکتا ہے۔

ان ساتوں معاہدوں کا مقصد 75 سالہ دوستی کے اس سفرکو مزید آسان بنانے کے لیے انڈونیشیا کے صدر کی آمد اس بات کا اعلان ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات کو صرف اہمیت کی سطح پر نہیں، بلکہ عملی معاشی اور سماجی سطح پر گہرا اور دیرپا بنانا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دنیا کے نقشوں پر لکیر کھینچنے والے لوگ کم ہوتے ہیں، لیکن وہ قومیں وہ ممالک جو ایک دوسرے کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں وہ نقشہ نہیں بدلتی وہ تاریخ بدل دیتی ہیں۔

یہ 7 دستخط آنے والے برسوں کا وہ باب ہیں جسے پڑھ کر دنیا کہے گی، یہ دو قومیں نہیں تھیں، یہ دو خواب تھے جو ایک جیسے آسمان کے نیچے لکھے گئے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو تحریروں کی صورت میں کتابوں میں لکھی گئی ہے وہ کتابیں بند نہ کر دی جائیں، ہر دم کھلی رہیں تاکہ عملدرآمد کے راستے باآسانی طے کیے جا سکیں۔
 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

معاشی خودکفالت کی منزل

وزیراعظم شہباز شریف اور انڈونیشیا کے صدر پرابووو سوبیانتو نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی و تجارتی تعلقات، دفاع، سلامتی، صحت، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، زراعت اور ماحولیاتی تعاون مزید مضبوط بنانے کے مشترکہ عزم کا اعادہ اور دو طرفہ تجارتی حجم بڑھانے کے لیے اتفاق کیا ہے، اس موقعے پر 7معاہدوں اور مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط کیے گئے۔

دوسری جانب ایک اور تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے حالیہ مالی اجرا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان معاشی استحکام اور ترقی کے لیے ضروری اقدامات پر عملدرآمد کر رہا ہے۔ 

وہ وقت دور نہیں جب پاکستان قرضوں سے مکمل نجات حاصل کر کے معاشی طور پر خود کفیل ہوگا، جب کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے کہا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے، مہنگائی کی شرح 4.5 فیصد سے 6.3 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔

پاکستان اور انڈونیشیا کے تعلقات میں حالیہ پیش رفت جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظر نامے میں ایک اہم موڑکی حیثیت رکھتی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان سات معاہدوں اور مفاہمتی یاد داشتوں پر دستخط اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اسلام آباد اور جکارتہ مستقبل میں باہمی تعاون کو محض روایتی سفارتی سطح تک محدود رکھنے کے بجائے اسے معاشی، سائنسی، ٹیکنالوجیکل اور سلامتی سے متعلق پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے خواہاں ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف اور انڈونیشیا کے صدر پرابووو سوبیانتو کی ملاقات میں جو گرمجوشی، واضح ہدف بندی اور عملی تعاون کا عزم سامنے آیا، اس نے دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی جہت دے دی ہے۔

یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب دنیا بھر میں معاشی دباؤ، جغرافیائی کشیدگی، توانائی کے بحران اور علاقائی اتحاد و تعاون کی نئی شکلیں ابھر رہی ہیں۔ چنانچہ اس ملاقات کے دور رس اثرات پر غور ضروری ہے۔

پاکستان اور انڈونیشیا دونوں دنیا کی بڑی مسلم آبادی رکھنے والے ممالک ہیں۔ دونوں کا ماضی تحریکِ آزادی، نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف جدوجہد اور عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے حوالے سے مشترکہ روایت رکھتا ہے۔ 

مگر گزشتہ دو دہائیوں میں جہاں انڈونیشیا نے معاشی استحکام، صنعتی ترقی، سیاحت، ڈجیٹلائزیشن اور جمہوری انتظام میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں، وہیں پاکستان اندرونی سیاسی عدم استحکام، معاشی کمزوری، سرکلر ڈیٹ، مہنگائی اور خارجی انحصار کے بوجھ میں الجھا رہا۔

تاہم اب پاکستان میں معاشی نظم و ضبط، سفارتی سرگرمیوں کی ازسرنو تنظیم کاری، ایس آئی ایف سی کے ذریعے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کی کوششوں اور علاقائی روابط کے فروغ نے حالات کو نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔

ایسے وقت میں انڈونیشیا کی قیادت کا دورہ پاکستان نہ صرف ایک سفارتی واقعہ ہے بلکہ ایک پیغام بھی ہے کہ خطہ پاکستان کی معیشت اور اس کے امکانات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا۔معاہدوں میں شامل شعبوں کا تنوع بھی اس دورے کی اہمیت کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔

اعلیٰ تعلیم میں تعاون کے ذریعے دونوں ممالک کے تعلیمی اداروں میں تحقیق، مشترکہ پروگرامز، فیکلٹی ایکسچینج اور اسکالرشپ کے مواقع بڑھیں گے۔ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا بحران صرف وسائل کا نہیں بلکہ جدید ٹیکنالوجی، تحقیقاتی صلاحیت اور صنعتی ضروریات سے ہم آہنگ ماحول کی کمی کا بھی ہے۔ 

اگر انڈونیشیا کے ساتھ تعلیمی اشتراک کو مؤثر انداز میں آگے بڑھایا جائے تو پاکستان کی یونیورسٹیاں ایک نئے تعلیمی دور میں داخل ہوسکتی ہیں۔ اس کے ساتھ صحت کے شعبے میں تعاون کے امکانات بھی کم نہیں۔

انڈونیشیا نے کووڈ کے بعد اپنے طبی نظام، بائیو ٹیکنالوجی اور صحت عامہ کے پروگراموں میں جو پیش رفت کی ہے وہ پاکستان کے کام آ سکتی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان طبی ماہرین کے تبادلے، اسپتالوں کی استعداد میں اضافہ، مشترکہ تحقیقی منصوبے اور وبائی امراض کی نگرانی کے نظام پر باہمی اشتراک صحت کے شعبے میں نئی راہیں کھول سکتا ہے۔

حلال انڈسٹری میں تعاون ایک ایسا پہلو ہے جس کی عالمی سطح پر انتہائی اہمیت ہے۔ دنیا بھر میں حلال فوڈ، حلال فارما، حلال کاسمیٹکس اور حلال سرٹیفکیشن کی مارکیٹ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

انڈونیشیا اس شعبے میں مضبوط مؤقف رکھتا ہے جب کہ پاکستان کی صلاحیت اور خام مال کی فراوانی اس شعبے کو دونوں کے لیے فائدہ مند بناتی ہے۔ اگر پاکستان عالمی حلال سپلائی چین کا فعال حصہ بن جائے تو نہ صرف برآمدات بڑھیں گی بلکہ دیہی معیشت اور زراعت کو بھی سہارا ملے گا۔

 یہ تمام فیصلے خوش آیند ہیں مگر ایک اہم پہلو دو طرفہ تجارت میں بڑھوتری ہے ،اس پس منظر میں جب ہم پاکستان کی مجموعی معاشی حالت کا جائزہ لیتے ہیں تو آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ نہایت اہمیت اختیارکرجاتی ہے۔

آئی ایم ایف نے جہاں معاشی نمو کے 3.2 فیصد تک پہنچنے، ٹیکس آمدن میں اضافے، بے روزگاری میں کمی اور مجموعی مالی نظم میں بہتری کی نشاندہی کی ہے، وہیں مہنگائی کے دوبارہ بڑھنے کے خدشات بھی ظاہرکیے ہیں۔

مہنگائی بڑھ کر 6.3 فیصد تک پہنچنے اور 2026 میں تقریباً 9 فیصد تک جانے کا امکان ظاہرکیا گیا ہے۔ عوامی سطح پر پہلے ہی مہنگائی نے زندگی کو متاثر کیا ہے، اگر بنیادی اشیائے خورونوش، توانائی اور ٹرانسپورٹ کے نرخوں میں مزید اضافہ ہوا تو سماجی پریشانی اور عدم اطمینان میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ جہاں ٹیکس اصلاحات اور مالی نظم میں بہتری لائی جائے وہاں مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سبسڈی پروگراموں، ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی اور زرعی سپلائی چین کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت ہے۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ میں ٹیکسوں کا معیشت میں حصہ 16.3 فیصد تک بڑھنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ پاکستان کا ٹیکس نیٹ دنیا میں سب سے کم سمجھا جاتا ہے۔ 

اگر وسیع بنیادوں پر ٹیکس اصلاحات، ڈیجیٹائزیشن اور ایف بی آر کی کارکردگی بہتر ہو جائے تو ملکی معیشت کو اندرونی بنیادوں پر مضبوط بنایا جا سکتا ہے، جس سے بیرونی قرضوں کا بوجھ کم ہوگا اور ترقیاتی اخراجات کے لیے گنجائش بڑھے گی۔

آئی ایم ایف کی جانب سے تازہ مالی اجرا اس حقیقت کا مظہر ہے کہ پاکستان درست سمت میں گامزن ہے اور حکومت کی جانب سے کیے جانے والے معاشی اقدامات عالمی اداروں کے نزدیک بھی قابلِ اطمینان ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان قرضوں سے مکمل نجات حاصل کرلے گا اور معاشی خود کفالت کی منزل سر کر لے گا۔ یہ ایک قابلِ قدر خواہش ہے، جسے ہر پاکستانی دل سے چاہتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معاشی ڈھانچے میں وہ اصلاحات ہوچکی ہیں جو قرضوں کے چنگل سے نکلنے کے لیے ضروری تھیں؟ کیا ہماری معاشی پالیسیاں اب اس نہج پر آگئی ہیں کہ بیرونی قرضوں کے بغیر ملک چل سکے؟

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دہائیوں سے قرضوں کے سہارے کھڑا ہے اور ان قرضوں کا حجم اس قدر بڑھ چکا ہے کہ انھیں کم کرنا ایک طویل اور مشکل عمل ہوگا۔ تاہم کسی بھی اصلاحاتی ماڈل کو کامیاب قرار دینے سے پہلے اس کے اثرات کو عوام کی زندگی میں محسوس کیا جانا زیادہ ضروری ہے۔

مہنگائی، بے روزگاری، صنعتوں کی زبوں حالی، زراعت کے مسائل اور معاشی پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونے جیسے عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اگر اصلاحات واقعی کامیاب ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں آسانی کیوں پیدا نہیں ہورہی؟

اس کے گھر کا بجٹ کیوں بگڑا ہوا ہے؟ بنیادی ضروریات تک رسائی کیوں پہلے کی نسبت زیادہ مشکل ہوگئی ہے؟

زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، لیکن آج کسان مہنگے کھاد، پانی کی کمی اور منڈیوں کے غیر منصفانہ نظام میں پس رہا ہے، اگر حکومت معاشی استحکام چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے زراعت کو جدید، منافع بخش اور موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔

دوسری جانب صنعتوں کی بحالی بھی ضروری ہے۔ انرجی ٹیرف میں اتار چڑھاؤ، ٹیکسوں کا بوجھ اور عدم استحکام نے صنعت کاروں کو مشکلات میں ڈالا ہوا ہے۔ جب تک صنعت مضبوط نہیں ہوگی، برآمدات میں اضافہ نہیں ہوسکتا، اور جب تک برآمدات نہیں بڑھتیں، قرضوں سے نجات محض خواب ہی رہے گی۔

آئی ٹی سیکٹر وہ شعبہ ہے جو پاکستان کو کم وقت میں معاشی بلندیوں تک لے جاسکتا ہے، لیکن افسوس کہ اس جانب اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی کہ ضروری تھی۔

نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آئی ٹی کی مہارت رکھتی ہے، لیکن انھیں عالمی مارکیٹ تک رسائی دینے کے لیے حکومتی سطح پر مناسب اقدامات کی کمی رہی ہے، اگر حکومت اس شعبے پر توجہ دے، فری لانسنگ کو آسان بنائے اور ٹیکنالوجی پارکس قائم کرے تو پاکستان اربوں ڈالر سالانہ کما سکتا ہے۔

عوام حکومت کی ہر مثبت کوشش کی قدر کرتے ہیں، لیکن وہ زبانی دعوؤں سے زیادہ عملی نتائج کے منتظر ہیں۔ پاکستان اس وقت ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں سنجیدہ، بصیرت افروز اور طویل المدتی فیصلے ناگزیر ہو چکے ہیں۔

اگر موجودہ حکومت واقعی اصلاحات کو پائیدار بنا سکے، سیاسی اتفاقِ رائے پیدا کر سکے، اور معاشی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھ سکے تو وہ دن ضرور آئے گا جب پاکستان معاشی طور پر خود کفیل ہوگا اور قرضوں کے سہارے سے آزاد ہو جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • یوکرین جیسے تنازعات دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیل سکتے ہیں، ٹرمپ
  • پاک فوج، پیپلز لبریشن آرمی کی انسداد دہشت گردی مشق جاری: مضبوط دفاعی تعاون کی عکاس، آئی ایس پی آر
  • پاکستان اور انڈونیشیا: تعاون کی نئی جہتیں
  • انڈونیشین سرمایہ کار پاکستان میں مواقع تلاش کریں ، اکنامک قونصل
  • بنگلہ دیش اور نیدرلینڈز کے درمیان بحری دفاع کے تعاون کے نئے مفاہمتی معاہدے پر دستخط
  • ایران قزاقستان تجارتی روڈ میپ تیار ہے، صدر مسعود پزیشکیان
  • کمبوڈیا اور تھائی لینڈ کے درمیان جھڑپیں جاری، امن معاہدے کیلئے ٹرمپ کی مداخلت آج متوقع ہے
  • معاشی خودکفالت کی منزل
  • پاک افغان کشیدگی: چین کی خطے میں امن اور عالمی برادری سے تعلقات میں تعاون کی پیشکش