پاکستان میں قانون سب کے لیے برابر نہیں!
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان میں قانون کی بالادستی، مساوات اور انصاف کے تصورات اس وقت شدید سوالات کی زد میں آ جاتے ہیں جب کسی طاقتور یا بااثر خاندان کا فرد ایک سنگین جرم میں ملوث ہو اور معاملہ چند قانونی موشگافیوں یا ’’صلح‘‘ کے نام پر ختم ہوتا دکھائی دے۔ جج کے بیٹے کی گاڑی کی ٹکر سے دو معصوم بچیوں کی ہلاکت کا حالیہ واقعہ بھی اسی تلخ حقیقت کی ایک کڑی بن کر سامنے آیا ہے، جس کا تحریری عدالتی حکم نامہ منظر ِ عام پر آنے کے بعد کئی تشویشناک سوالات جنم لے رہے ہیں۔ جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی کی جانب سے جاری کیے گئے حکم نامے کے مطابق دونوں جاں بحق بچیوں کے ورثا عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے اللہ کے نام پر ملزم کو معاف کرنے کا بیان دیا۔ ایک بچی کے بھائی عدنان تجمل اور دوسری کے والد غلام مہدی نے عدالت میں حلفیہ بیانات جمع کرائے اور یہاں تک استدعا کی کہ اگر آئندہ مرحلے میں ملزم کو ضمانت کے بعد بری بھی کر دیا جائے تو انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ بظاہر یہ ایک قانونی عمل ہے جو فوجداری قوانین میں موجود صلح اور معافی کی شقوں کے تحت ممکن ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہر قانونی عمل لازماً اخلاقی اور سماجی انصاف پر بھی پورا اترتا ہے؟ دو معصوم جانوں کے ضیاع کو محض ایک فائل بند کر دینے، چند دستخطوں اور چند رسمی بیانات کے ذریعے ختم کر دینا، ریاستی نظامِ انصاف کی روح پر گہرا حملہ ہے۔ یہاں یہ نکتہ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ حادثہ ایک عام شہری کے بجائے ایک جج کے بیٹے سے منسوب ہے۔ یہی پہلو عوام کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے، کیا ورثا کی معافی واقعی آزادانہ اور دل کی رضا سے تھی، یا سماجی دباؤ، قانونی پیچیدگیوں اور طاقتور حلقوں کے اثر و رسوخ نے انہیں اس فیصلے پر مجبور کیا؟ پاکستان جیسے معاشرے میں، جہاں غریب اور کمزور شہری برسوں عدالتوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں، وہاں اس نوعیت کی ’’صلح‘‘ انصاف کے دوہرے معیار کا تاثر مضبوط کرتی ہے۔ ایک طرف عام آدمی کے لیے قانون کی سختی اور دوسری جانب بااثر افراد کے لیے نرمی، یہ تضاد ریاست پر عوام کے اعتماد کو کھوکھلا کرتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ٹریفک حادثات میں انسانی جانوں کے ضیاع کو اکثر غیر ارادی کہہ کر معمولی لیا جاتا ہے، حالانکہ غفلت، تیز رفتاری اور قانون شکنی بھی جرم کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ صورتحال اس پورے نظام پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔ کیونکہ سوال یہ بنتا ہے کہ کیا ریاست کا فرض صرف مقدمات نمٹانا ہے یا انسانی جان کے احترام اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام بھی اس کی ذمے داری ہے؟ اگر ہر بااثر ملزم صلح کے ذریعے بری ہوتا رہا تو پھر ٹریفک قوانین، احتیاط اور شہری ذمے داری کا تصور محض کتابی بات بن کر رہ جائے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
فیض حمید کی سزا فوج کا اندرونی معاملہ ہے، ترجمان تحریکِ انصاف کا تبصرے سے گریز
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی سزا کے معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے فوج کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے کہا ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف کے ٹرائل، سزا اور دیگر کارروائیوں پر بات کرنا فوجی ادارے کا داخلی معاملہ ہے، جس پر پارٹی کا کوئی مؤقف نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب فیض حمید کو حراست میں لیا گیا تو اس وقت بھی پارٹی سے ردِعمل مانگا گیا، مگر یہ واضح کیا گیا کہ فوج کے اپنے احتسابی نظام موجود ہیں۔
شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں سیاسی عناصر کا ذکر کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے بعض حلقوں کی جانب سے پی ٹی آئی کو بھی اس سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی۔
انہوں نے یاد دلایا کہ آئی ایس پی آر پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ سزا یافتہ افسر کے سیاسی بے چینی اور عدم استحکام میں مبینہ کردار کے پہلو کو الگ سے دیکھا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ جب تک کسی سیاسی شخصیت کا نام واضح طور پر سامنے نہیں آتا، تب تک بیان بازی کا کوئی جواز نہیں۔ ان کے مطابق اگر آئندہ کسی سیاسی شخصیت کا براہِ راست حوالہ دیا گیا تو وہ خود اس پر جواب دیں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ فی الحال پارٹی کا مؤقف یہی ہے کہ یہ ایک ادارہ جاتی معاملہ ہے، جس پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں