کراچی(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔30جنوری 2025)کراچی کے نوجوان کی محبت میں پاکستان آنے والی امریکی خاتون اونیجا اینڈریو رابنسن نے اپنے ملک واپس جانے سے انکار کرتے ہوئے لڑکے کے گھر کے باہر دھرنا دیدیا،امریکی خاتون رات بھر میرے شوہر کو بلوا دو کے نعرے لگاتی رہیں،خاتون نے امریکہ واپسی کیلئے لڑکے سے ملاقات اور ڈالرز کی ادائیگی کی شرط رکھ دی۔

تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے گارڈن ویسٹ کے رہائشی نوجوان 19 سالہ ندال احمد میمن کی محبت میں گرفتار 33 سالہ امریکی خاتون اونیجا اینڈریو رابنسن گزشتہ رات ایئرپورٹ سے نوجوان کے اپارٹمنٹ پہنچ گئی اور دھرنا دے دیا۔امریکی خاتون پولیس اور فلیٹ کی یونین کے عہدیداروں سے بار بارفریاد کرتی رہیں کہ میرے شوہر کو بلوا دو۔

(جاری ہے)

امریکن خاتون نے اپنے شوہر کی یاد میں کھانا بھی نہیں کھایا اور آرام بھی نہیں کیا۔

ان کے منہ سے یہ ہی الفاظ نکلتے رہے کہ میرے شوہر کو بلوادو جس کے جواب میں پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ہم ندال کو تلاش کرکے آپ سے ملوانے کی کوشش کرتے ہیں آپ تھوڑ انتظار کریں۔امریکی خاتون اپارٹمنٹ کی پارکنگ میں کرسی ڈال کر بیٹھ گئی۔ اپارٹمنٹ کی یونین نے انہیں واپس جانے کا کہا لیکن خاتون نے انکار کر دیا۔ امریکی خاتون کی موجودگی کے باعث گارڈن کے مذکورہ اپارٹمنٹ میں لوگوں کو رش لگ گیا۔

19 سالہ نوجوان اور اس کے اہلخانہ گھر پر تالا ڈال کر کہیں چلے گئے ہیں جبکہ خاتون واپسی کیلئے لڑکے سے ملاقات اور امریکی ڈالرز کی ادائیگی کا مطالبہ کرتی رہی۔پولیس والوں اور بلڈنگ مکینوں کے اصرار پر امریکی خاتون کچھ دیر کیلئے یونین آفس میں چلی گئیں اور وہاں انہوں نے آرام کیا۔امریکی خاتون کو کھانے کی پیشکش بھی کی گئی ان کیلئے برگر۔

سوپ سمیت مختلف اقسام کے کھانے منگوائے گئے تاہم اپنے عاشق ندال کے انتظار اور محبت میں دھوکا کھانے کے غم میں انہوں نے کھانا نہیں کھایا۔پولیس اور فلیٹ سوسائٹی یونین کے بہت اصرارکرنے پر امریکی خاتون نے صرف بسکٹ کھائے اور چائے پی لی۔خیال رہے کہ گزشتہ روز پاکستانی نوجوان کی محبت میں پاکستان آنے والی امریکی خاتون اونیجا اینڈریو رابنس اپنی ضد پر اڑ گئیں تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی نوجوان سے شادی کرکے ہی واپس جاﺅں گی۔امریکی خاتون کراچی ائیرپورٹ سے نامعلوم مقام روانہ ہوگئی تھی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ایس ایس پی ملیر کاشف عباسی کا کہنا تھا کہ امریکی خاتون نے پولیس سے کہا کہ اپنے شوہر کے پاس جا رہی ہوںجس کے بعد وہ کراچی ایئر پورٹ سے ٹیکسی میں بیٹھ کر نامعلوم مقام پر چلی گئی تھیں۔ائیرپورٹ ذرائع کا کہنا تھا کہ خاتون کو امریکی قونصل خانے کے حوالے کرنے کافیصلہ کیا تھا مگر امریکی خاتون نے امریکی قونصل خانے کے عملے کے ساتھ جانے سے انکار کیا اور ایئر پورٹ سے لڑکے کی تلاش میں خود ہی روانہ ہو گئی تھی۔

ایس ایس پی ملیر کا یہ بھی کہنا تھا امریکی خاتون نے امریکی خاتون نے قونصلیٹ کی ٹیم سمیت کسی سے بھی مدد لینے سے انکار کیا تھا ۔ائیرپورٹ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی قونصل خانے کی 2 رکنی ٹیم نے کراچی ائیرپورٹ پہنچ کر امریکی خاتون سے ملاقات کی اور ائیرپورٹ حکام سے بھی بات چیت کی تھی۔ امریکی حکام نے اس موقع پر کہا تھاکہ ہماری کوشش یہی ہے خاتون کو راضی کرکے امریکا واپس بھیجاجائے لیکن اگر خاتون نہ جانا چاہے توہم زبردستی نہیں کرسکتے۔

خاتون کا کہنا تھا کہ مجھے امریکی قونصل خانے کی مدد نہیں چاہیے تھی۔ایئر پورٹ حکام کے مطابق امریکی خاتون کے پاس ایئر پورٹ سے باہر جانے کا 15 روز کا پرمٹ تھا۔امریکی خاتون گارڈن کے علاقے میں ندال احمد میمن نامی لڑکے کی تلاش میں ایئر پورٹ سے روانہ ہوئی تھی۔اس سے قبل پاکستانی نوجوان کی محبت میں امریکہ سے کراچی آنے والی خاتون نے واپس جانے سے انکار کردیا تھا۔

وزارت داخلہ کی جانب سے امریکی خاتون اونیا اینڈریو رابنسن کو امریکا واپس بھیجنے کیلئے قطر ائیر کی صبح 10 بجے کی پرواز میں ٹکٹ کرایا گیا تھا۔ ایئرپورٹ ذرائع کا کہنا تھا کہ محبت میں ناکامی پر مایوس خاتون نے کراچی ایئرپورٹ پر ہنگامہ آرائی کی تھی۔ امریکی خاتون نے پہلے امیگریشن کرانے سے انکار کیا تھا اوراس کے بعد ڈیپارچر لاونج سے جہاز میں سوار نہیں ہوئی تھی۔

خاتون حیلے بہانوں سے کراچی ائیرپورٹ پر امریکا واپسی سے کتراتی رہی تھی۔پولیس اور ایئر پورٹ سکیورٹی فورس نے امریکی خاتون کو حفاظتی تحویل میں ڈیپارچر لاونج تک پہنچایا تھا تاہم خاتون نے جہاز میں سوار ہونے سے انکار کر دیاتھا اور جہاز میں سوار کرانے کی تگ و دو کی وجہ سے پرواز 36 منٹ تاخیر کا شکار ہوئی تھی۔بعدازاںامیگریشن ذرائع نے تصدیق کی تھی کہ امریکی خاتون مسافر نے واپس جانے سے انکار کردیا تھا اور پرواز ساڑھے 10 بجے روانہ ہوگئی تھی۔

امریکی خاتون نے امریکہ واپس جانے سے انکار کرتے ہوئے اس بات پر بضد تھی کہ جس لڑکے کی خاطر وہ پاکستان آئیں اس سے ان کی ملاقات کرائی جائے۔ائیرپورٹ حکام کا کہنا تھا کہ سکیورٹی ایس او پیز کی وجہ سے مسافر کو زبردستی پرواز میں سوار نہیں کرایا جا سکتا تھا۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کراچی ایئر پورٹ کے حکام نے امریکی قونصل خانہ کراچی سے رابطہ کیا تھا اور ان سے درخواست کی تھی کہ امریکی خاتون مسافر کے معاملے کو حل کیا جائے جس پر امریکی قونصل خانے کی 2 رکنی ٹیم نے ایئر پورٹ پر خاتون سے ملاقات کی تھی اور اسے امریکا روانہ ہونے کیلئے منانے کی کوشش بھی کی تھی۔
.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے واپس جانے سے انکار نوجوان کی محبت میں امریکی قونصل خانے امریکی خاتون نے کا کہنا تھا کہ ایئر پورٹ سے سے انکار کر نے امریکی کہ امریکی سے ملاقات میں سوار خاتون کو آنے والی گئی تھی کیا تھا تھا اور کی تھی

پڑھیں:

جب عورت کا ’نہ‘ جرم بن جائے: ثنا یوسف کا قتل اور اِن سیل ذہنیت کا المیہ

ثنا یوسف چترال سے تعلق رکھنے والی ایک باہمت، تخلیقی اور خودمختار نوجوان لڑکی تھی جو سوشل میڈیا پر سرگرم تھی اور ایک بااثر ڈیجیٹل کریئیٹر کے طور پر ابھر رہی تھی۔ مگر بدقسمتی سے اس کی زندگی کا اختتام ایک ایسے المیے پر ہوا جو صرف ذاتی سانحہ نہیں بلکہ ایک گہری سماجی بیماری کی علامت ہے۔

ثنا کو ایک 23 سالہ نوجوان عمر حیات نے صرف اس لیے قتل کر دیا کہ اس نے اس کی دوستی کی پیشکش قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: ٹک ٹاکر ثنا یوسف قتل کیس میں سنسنی خیز انکشافات: قاتل کا اعتراف، رینٹ کی گاڑی، تحائف ٹھکرانے کا رنج

یہ معاملہ محض ‘غیرت’ یا وقتی غصے کا نہیں بلکہ ایک زہریلی سوچ کی پیداوار ہے۔ وہ سوچ جو عورت کے انکار کو جرم اور مرد کی انا کو انصاف کا پیمانہ سمجھتی ہے۔ دنیا اس سوچ کو ان سیل (In Cel) کے نام سے جانتی ہے۔

اِن سیل کلچر: ایک خطرناک ذہنیت

‘ان سیل’ (Involuntary Celibate) یعنی ‘بغیر اپنی مرضی کے غیررومانوی زندگی گزارنے والے افراد’ کی اصطلاح مغرب میں ایک آن لائن کمیونٹی سے وابستہ رہی ہے، جو جنسی یا رومانوی تعلق سے محرومی کے باعث عورتوں کے خلاف شدید نفرت اور غصے میں مبتلا ہوتے ہیں۔

یہ لوگ عورتوں کے ‘نہ’ کو اپنی تذلیل سمجھتے ہیں اور اس انکار کو ‘انتقام’ کے قابل جرم مانتے ہیں۔ ان کی گفتگو، آن لائن فورمز، یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا گروپس میں عورت دشمنی عام سی بات ہے۔

اگرچہ پاکستان میں اس اصطلاح سے واقفیت عام نہیں لیکن اس کی روح اور ذہنیت ہمارے معاشرے میں کئی انداز سے موجود ہے:

مردانگی کو تسلیم کروانے کے لیے تعلق کا ‘حاصل ہونا’ ضروری سمجھا جاتا ہے؛

عورت کا انکار مرد کی تذلیل کے مترادف سمجھا جاتا ہے؛

خودمختار عورت کو ‘مغرور’ یا ‘قابلِ سزا’ قرار دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اسلام آباد میں قتل ہونے والی 17 سالہ سوشل میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کون تھیں؟

یہ وہ معاشرتی سانچے ہیں جو عمر حیات جیسے نوجوانوں کی سوچ کی تشکیل کرتے ہیں۔ وہ شعوری طور پر خود کو ‘ان سیل’ نہ بھی سمجھتے ہوں، تب بھی ان کی سوچ اسی زہریلے سانچے سے جنم لیتی ہے۔

ثنا کا ‘نہ’ اور معاشرتی انا کا زخم

ثنا یوسف کا جرم صرف یہ تھا کہ اس نے تعلق سے انکار کیا، اپنی پسند اور اپنی آزادی کا استعمال کیا۔ عمر نے اس انکار کو نہ صرف انا کا مسئلہ بنایا، بلکہ اسے ‘سزا دینے’ کی حد تک پہنچا دیا۔ اس نے اسے قتل کیا ، وہ بھی دن دیہاڑے۔

یہ ردعمل محض ایک فرد کی نفسیاتی بے چینی نہیں تھی، بلکہ ایک پوری سوچ کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ سوچ جو عورت کو انسان نہیں، ایک شے یا ‘حق’ سمجھتی ہے۔

عمر، ان سیل تھا؟ شاید خود بھی نہ جانتا ہو

یہاں ایک بنیادی نکتہ سمجھنا ضروری ہے: عمر شاید کبھی Reddit یا 4chan پر نہ گیا ہو، نہ ہی ‘ان سیل’ کے نظریے سے واقف ہو۔ مگر اس کے طرزِ فکر میں وہ تمام علامات موجود تھیں جو ان سیل کلچر کی بنیاد ہیں:

عورت کا انکار ناقابلِ برداشت؛

تعلق پر ‘حق’ کا تصور؛

مسترد کیے جانے پر غصہ اور انتقام کی جبلّت۔

یہ بھی پڑھیے: بیگم جہاں آرا شاہنواز سے نسیم جہاں تک، جدوجہدِحقوقِ نسواں کی اَن کہی داستان

یہی وہ ذہنیت ہے جو ہمارے نوجوانوں میں غیر محسوس طریقے سے سرایت کرتی جا رہی ہے، کبھی واٹس ایپ گروپس، کبھی یوٹیوب پر ‘مردانہ طاقت’ کے نام پر ویڈیوز، اور کبھی روزمرہ لطیفوں اور گفتگو میں۔

سوشل میڈیا اور زہریلا مردانہ بیانیہ

سوشل میڈیا پر مردوں کے لیے مخصوص کئی وی لاگرز، ‘ریڈ پِل’ چینلز اور آن لائن گروپس موجود ہیں جو عورت کو ناقابلِ بھروسا، چالاک یا کمتر ثابت کرتے ہیں۔ وہ مرد کو یہ سکھاتے ہیں کہ عورت کو کیسے ‘جیتا’ جائے، کیسے ‘قابو’ میں رکھا جائے، اور کیسے اس کے انکار کو اپنی طاقت سے شکست دی جائے۔

یہی وہ بیانیہ ہے جو مسترد کیے جانے کو مرد کی شکست اور عورت کی غلطی بنا دیتا ہے اور آخر کار ثنا یوسف کے قتل جییسے سانحات کو جنم دیتا ہے۔

حل کہاں ہے؟

ہمیں فرد کو سزا دینے سے آگے بڑھ کر، اس ذہنیت کا احتساب کرنا ہوگا جو ہر گھر، ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور ہر کلاس روم میں جنم لے رہی ہے۔

عورت کے انکار کو حق تسلیم کرنا — یہ نصاب، میڈیا اور والدین کی تربیت کا حصہ ہونا چاہیے۔ مردوں کی جذباتی تربیت — لڑکوں کو یہ سکھانا کہ انکار زندگی کا ایک عام تجربہ ہے، نہ کہ انا کا زخم۔ سوشل میڈیا پر عورت دشمن مواد کی روک تھام — پلیٹ فارمز کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے مواد سے حقیقی دنیا میں کیا اثرات پیدا ہو رہے ہیں۔ معاشرتی گفتگو کی اصلاح — ہر وہ جملہ، مذاق، یا تصور جو عورت کو کمتر یا مرد کو غالب ظاہر کرے، اسی ذہنیت کو فروغ دیتا ہے جس نے ثنا کو مارا۔ ثنا کی یاد، ایک سوال بن کر باقی ہے

ثنا یوسف کا قتل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عورتوں کی خودمختاری، انکار اور انتخاب کو صرف قانون نہیں، معاشرتی سوچ بھی خطرہ سمجھتی ہے۔ جب تک ہم اس سوچ کو جڑ سے نہیں اکھاڑتے، ‘نہیں’ کہنا کئی عورتوں کے لیے جان لیوا فیصلہ بنا رہے گا۔

یہ بھی پڑھیے: سعودی عرب میں با اختیار خواتین کی کامیابیوں کی متاثر کن کہانیاں

اب وقت ہے کہ ہم خود سے سوال کریں:

کیا ہم واقعی عورتوں کے ‘نہ’ کہنے کے حق کا احترام کرتے ہیں؟

یا ہم اسے مرد کی شکست، اور سزا کے قابل جرم سمجھتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

احسن بودلہ

ان سیل کلچر تشدد ثنا یوسف خواتین

متعلقہ مضامین

  • کراچی: ڈیفنس میں مبینہ طور پر منشیات سپلائی کرنے والی خاتون گرفتار
  • میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے ایم کیو ایم کو مستقل قومی مصیبت قرار دیدیا
  • امریکا، تارکین کیخلاف انتظامیہ کا کریک ڈاؤن، شدید جھڑپیں
  • کراچی کے مختلف علاقوں میں کرنٹ لگنے سے نوعمر لڑکے سمیت 2 افراد جاں بحق  
  • اٹک اور تورغر میں دریائے سندھ میں 3 لڑکے ڈوب گئے
  • گھوٹکی: کچے میں پولیس کا آپریشن، نوجوان بازیاب، ایس ایس پی
  • انکار کیوں کیا؟
  • نوجوان کی چیٹ جی پی ٹی سے دن رات پیار و محبت کی باتیں؛ ویڈیو وائرل
  • اٹلی کے قومی دن کی تقریب،خاتونِ اوّل آصفہ بھٹو کی شرکت
  • جب عورت کا ’نہ‘ جرم بن جائے: ثنا یوسف کا قتل اور اِن سیل ذہنیت کا المیہ