نوزائیدہ بچے کی ہچکی دماغی نشوونما کا بنیادی ذریعہ ہو سکتی ہے، مطالعہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 مارچ 2025ء) یہ تحقیق نوزائیدہ بچوں کے دماغی اسکین پر مبنی تھی۔ اس مطالعے کے سرکردہ مصنف اوریو سی ایل کے نیورو سائنس، فزیالوجی اینڈ فارماکولوجی شعبے کے ریسرچ ایسوسی ایٹ کمبرلے وائٹ ہیڈ کے بقول، ''ہم ہچکی کیوں لیتے ہیں، اس کی وجوہات پوری طرح سے واضح نہیں ہیں، لیکن نشوونما ایک وجہ ہو سکتی ہے، کیونکہ جنین اور نوزائیدہ بچے کثرت سے ہچکی لیتے ہیں۔
‘‘ہر بار جب کوئی نوزائیدہ بچہ ہچکی لیتا ہے، تو یہ دماغی سگنلز کی ایک بڑی لہر کو متحرک کرتا ہے جس سے بچے کو یہ سیکھنے میں مدد مل سکتی ہے کہ وہ اپنی سانسوں کو کس طرح منظم کر سکتے ہیں۔ زیادہ تر والدین کے لیے بچوں کی ہچکی پریشانی کا باعث ہوتی ہے۔ محققین کو تاہم اپنی تحقیق سے یہ پتا چلا کہ یہ ہچکی بچوں کے دماغ کی نشوونما کے لیے بہت اہم ہے۔
(جاری ہے)
بریسٹ فیڈنگ کی بجائے ڈبے کے دودھ کا استعمال، فائدہ مند یا نقصان دہ؟
'نوزائیدہ بچوں میں ہچکی معمول کی بات ہے‘
محققین نے تمام والدین کو اس امر کا یقین دلایا کہ بچوں میں ہچکی آنا معمول کی بات ہے اور یہ پریشان کن بات نہیں ہے۔ جب تک کہ ہچیکوں کے بعد کسی گہرے مسئلے کی دوسری علامات ظاہر نہ ہوں۔ سائنسدانوں کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ ہچکی کی وجہ کیا ہے، لیکن بہت زیادہ کھانا یا بہت زیادہ ہوا خوری جیسی چیزیں ہچکیوں کے امکان میں اضافہ کر دیتی ہیں۔
ہچکیوں کا سبب
عام طور پر ہچکی ایک اضطراری حالت ہے جو اس وقت ہوتی ہے جب ڈایافرام کی حرکت نطقی عصبہ کو فوری طور پر کھولنے اور بند کرنے کا سبب بنتی ہے۔ یہ عام طور پر کھانے، پینے یا ذہنی دباؤ کے لمحات کے وقت آتی ہے۔
بچوں میں ہچکی ایک عام شے ہے۔ زیادہ تر نوزائیدہ بچوں کو اکثر ہچکی آتی ہے، جو اس بات کی علامت ہوسکتی ہے کہ آپ کا بچہ صحت مند ہے اور اچھی طرح نشوونما پا رہا ہے۔
ہچکیوں کے دوران کیا ہوتا ہے؟
ڈایافرام یا پردہ شکم کے پٹھے جو سانس لینے کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں، ہچکی کے دوران اس میں اینٹھن ہوتی ہے۔ یہ پسلیوں کے نیچے پایا جاتا ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جب پیٹ میں تیزابیت یا جزوی طور پر ہضم شدہ کھانا دوبارہ حلق (یا غذائی نالی) میں چلا جاتا ہے تو ایسڈ ریفلکس ان پٹھوں میں اشتعال پیدا کرتا ہے اور ہچکی کا سبب بن سکتا ہے۔
تاہم، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہچکییاں از خود صحت کے مسائل کی علامت نہیں ہوتیں۔ورلڈ بریسٹ فیڈنگ ویک: پاکستان میں رجحان کیا؟
بچوں کی ہچکیاں فائدہ مند
اس تحقیق سے ایک دلچسپ بات سامنے آئی وہ یہ کہ بچوں کی ہچکی اچھی شے ہو سکتی ، خاص طور سے دماغ کی نشوونما کے تناظر میں۔ ایک تحقیق کے دوران جب نوزائیدہ بچوں کو ہچکی آرہی تھی تو سائنسداں ان کی دماغی سرگرمی کی سطح پر نظر رکھے ہوئے تھے، اس دوران انہوں نے برقی تحریکوں کی بڑی لہروں کو قریب سے دیکھا۔
ہچکی کے دوران بچوں کے جسم کے مختلف حصوں سے دماغی سگنلز ملنے کا احساس ، ڈایافرام کے سکڑ جانے کے احساس سے ہوا۔ یہ تاثرات انہیں آخرکار صحیح طریقے سے سانس لینے کا طریقہ سیکھنے میں مدد گار ثابت ہوئے، جس کا محققین نے جائزہ لیا ۔انٹرنیٹ پر ماں کے دودھ کی خرید و فروخت؟
اگرچہ ہچکیاں عام طور سے بے ضرر ہوتی ہیں اور تھوڑی دیر میں بغیر کسی بیرونی مداخلت کے خود ہی رُک جاتی ہیں لیکن اگر نو زائیدہ بچہ ہچیکوں سے تنگ ہونے لگے تو اُس کی پشت کو ہلکے ہلکے سہلانے سے اُسے سکون ملتا ہے۔
والدین کے لیے یہ کبھی کبھی پریشان کن اور انہیں بے چین کر دینے کا سب بنتی ہے تاہم نو زائیدہ بچوں کی ہچکیوں سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ بچے عام طور پر اپنی ہچکیوں سے پریشان نہیں ہوتے ہیں بلکہ وہ ہچکی کے دوران کھا اور سو سکتے ہیں۔ عام طور پر ہچکی کا سلسلہ 5 تا 10 منٹ کے اندر خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے اس کے لیے کسی علاج کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔حمل کے دوران ماں جنین کی ہچکی محسوس کر سکتی ہے
حاملہ خاتون اپنے جنین کی ہچکیاں محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم ڈاکٹروں کو یہ پتا نہیں چل سکا کہ رحم مادر میں جنین کی ہچکیوں کی وجہ کیا ہوتی ہے۔ حاملہ خاتون محسوس کر سکتی ہے کہ جنین کی دیگر حرکات کے مقابلے میں ہچکیاں زیادہ صوتی توازن اور ہم آہنگی کے ساتھ محسوس ہوتی ہے۔
حاملہ خاتون حمل کے 16 ویں سے لے کر 20 ویں ہفتے کے درمیان جنین کی حرکت محسوس کرنا شروع کر دیتی ہے۔ چند کیسز میں اس میں زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ ماں کے جنین کی حرکت محسوس کرنے کے وقت کا دار ومدار چند عوامل پر ہوتا ہے۔جب رحم اور ویجائنا گر جاتے ہیں!
جیسے کہ رحم مادر سے جنین کو خوراک فراہم کرنے والی نالی 'پلاسنٹا‘ کی پوزیشن بھی یہ تعین کرتی ہے کہ ماں کتنی جلدی جنین کی حرکت محسوس کرنا شروع کرتی ہے۔
ماں یا حاملہ خاتون کے وزن کا بھی اس سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جن خواتین کے پیٹ کے ارد گرد وزن کم ہوتا ہے وہ بہت جلد جنین کی حرکت محسوس کرنا شروع کر دیتی ہیں۔رضاعی کتیا نے دودھ پلا کر بچے کی جان بچا لی
ماؤں کے لیے چند ہدایات
دودھ پلانے کے دوران بچے کو ڈکار دلواتے رہیں۔ بچہ پیٹ میں اضافی گیس کے سبب بے چین ہو جاتا ہے۔
ایسی صورت میں بچے کی پیٹ کو ہلکے ہلکے تھپتھپائیں اور پیٹ کو آہستہ آہستہ سہلائیں۔ ہچکی کے وقت بچے کو کھانا کھلانے سے پرہیز کریں۔ بچے کے بھوک کے سبب رونے سے پہلے اُسے دودھ یا غذا دے دیں۔ دودھ پلانے کے بعد بچے کو سیدھا اپنے کاندھے سے لگا کر اس کی پیٹ تھپتھپائیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جب آپ دودھ پلائیں تو بوتل میں نپل مکمل طور پر دودھ سے بھرا ہوا ہے۔ دودھ پلانے سے پہلے نپل میں ہوا کو کم کریں۔ اضافی ہوا ہچکی کو بگاڑ سکتی ہے۔ اپنے بچے کے لیے نپل کا صحیح سائز استعمال کریں، تو یقینی بنائیں کہ نپل کا بہاؤ آپ کے بچے کے لیے بہت تیز یا بہت سست نہیں ہے۔ صحیح بہاؤ اس بات پر منحصر ہو سکتا ہے کہ آپ کے بچے کی عمر کتنی ہے، اس لیے آپ کو ہر چند ماہ بعد بوتل کے نپل تبدیل کرتے رہنا چاہیے۔کشور مصطفیٰ
ادارت: عاطف توقیر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنین کی حرکت محسوس نوزائیدہ بچوں حرکت محسوس کر حاملہ خاتون کے دوران سکتی ہے ہوتا ہے جاتا ہے ہوتی ہے بچے کی اس بات بچے کو کے لیے
پڑھیں:
چند دنوں میں 29 فلسطینی بچے اور بزرگ بھوک سے زندگی کی بازی ہار گئے، رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مقبوضہ بیت المقدس: غزہ کی پٹی ایک بار پھر انسانی بحران کی بدترین صورت اختیار کر چکی ہے جہاں خوراک کی شدید کمی کے باعث درجنوں معصوم بچے اور بزرگ زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غذائی قلت کی صورت حال پچھلے چند ہفتوں کے دوران نہ صرف سنگین ہو چکی ہے بلکہ اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس سے فلسطینی عوام خاص طور پر بچے اور ضعیف افراد براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
خبر رساں اداروں کے مطابق عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ مہینے میں صرف چند دنوں کے اندر اندر 29 فلسطینی شہری، جن میں اکثریت بچوں اور ضعیف افراد کی تھی، بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
یہ المناک اعداد و شمار ایک ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب اسرائیل کی جانب سے امدادی سامان کی رسائی پر شدید اور سخت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان پابندیوں کے باعث نہ صرف خوراک، بلکہ طبی سہولیات کی فراہمی بھی متاثر ہے اور کئی اہم مراکز جن میں شدید متاثرہ بچوں کا علاج کیا جاتا تھا، اب بند ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ اور عالمی امدادی اداروں کی جانب سے جاری کردہ ’’نیوٹریشن کلسٹر‘‘رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ 5سال سے کم عمر کے بچوں میں شدید غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ مئی کے وسط میں کیے گئے ایک تازہ سروے کے مطابق غزہ میں 5.8 فیصد بچے ایسی حالت میں پائے گئے جو نہ صرف ان کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے بلکہ فوری طبی مداخلت نہ ہو تو موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ یہ شرح فروری میں محض 2 فیصد کے لگ بھگ تھی، جب عارضی جنگ بندی کے دوران امداد کی فراہمی ممکن ہو سکی تھی۔
اس انسانی بحران کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ امدادی مراکز جو متاثرین کے لیے واحد امید بن چکے تھے، اب نشانہ بننے لگے ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکی تعاون سے بنائے گئے امدادی مقامات کے قریب فائرنگ کے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں، جن میں امداد کے منتظر شہری شہید ہوئے۔ ان واقعات پر دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے اور اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی اداروں نے امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
اسرائیل کی جانب سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکا جاتا ہے کہ حماس امدادی سامان کو اپنی ضروریات کے لیے ضبط کرتی ہے، تاہم حماس ان الزامات کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ زمینی حقائق اس دعوے کے برخلاف ایک اور ہی تصویر دکھا رہے ہیں، جہاں بھوک سے بلکتے بچوں کی آہیں، کمزور اور مایوس والدین کی نظریں اور بند اسپتالوں کے دروازے اس بات کے گواہ ہیں کہ امداد کی رسائی کو محدود کرنے کا خمیازہ براہ راست عام فلسطینی عوام بھگت رہے ہیں۔
شمالی غزہ اور جنوبی رفح جیسے علاقے اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہیں، جہاں وہ مراکز بند ہو چکے ہیں جو بچوں کی غذائی کمی اور دیگر طبی پیچیدگیوں کا علاج کرتے تھے۔ ان علاقوں میں شدید قلت کے شکار بچوں کو اب فوری طبی امداد کی سہولت میسر نہیں، جس سے اموات کی شرح مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ یہ رپورٹ عالمی برادری کے لیے ایک الارم ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ انسانی بنیادوں پر امدادی راستوں کو فوری طور پر کھولا جائے اور خوراک و دوا کی ترسیل کو کسی سیاسی یا عسکری حکمت عملی سے مشروط نہ کیا جائے۔ بچوں کی زندگیاں کسی بھی تنازع سے بالاتر ہیں، اور اگر دنیا نے فوری اقدام نہ کیا تو صورتحال مزید بدتر ہو سکتی ہے۔