Express News:
2025-09-18@13:08:58 GMT

سروس کی اگلی پرواز… پی آئی اے

اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT

(بیتے دنوں کی یادیں)

1997کے انتخابات کے نتیجے میں میاں نوازشریف وزیراعظم اور میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ اُس وقت جرائم کی روک تھام ان کی ترجیحِ اوّل تھی۔ اس کے لیے انھوں نے پولیس افسروں کی لسٹیں بنانی شروع کردیں۔ وزیرِ اعلیٰ نے آتے ہی جب ایس پی لاہور طارق سلیم ڈوگر کو ہٹادیا تو مجھ سے رابطہ کرکے مجھے ایس ایس پی لاہور کا چارج سنبھالنے کا کہا۔ میں نے معذرت کی مگر جب انھوں نے اور آئی جی صاحب دونوں نے زور دیا تو میں نے یہ ذمّے داری قبول کرلی۔

لاہور پولیس کے سربراہ کے طور پر بڑی معرکہ آرائیاں ہوئیں۔جرائم کی روک تھام کے علاوہ بھی کئی محاذوں پر لڑنا پڑا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس گیارہ مہینے کے بعد مجھے ہٹادیا گیا۔ اس پر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔ مجھے لاہور پولیس کی سربراہی سے ہٹوانے کے لیے کئی فورسز اکٹھی ہوگئی تھیں۔ دو ٹولے سب سے زیادہ سرگرم تھے، پہلا اُن سیاسی لوگوں کا تھا جن کی پولیس کے انتظامی معاملات میں مداخلت بند ہوئی تھی اور جن کے کہنے پر ایس ایچ او اور ڈی ایس پی لگنے بند ہوگئے تھے۔

دوسرا ٹولہ کچھ بیوروکریٹوں کا تھا جو اپنی میٹنگوں میں اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے تھے کہ موجودہ ایس ایس پی (راقم) کچھ دیر مزید رہا تو یہ لاہور میں پولیس کے پرانے اور فرسودہ نظام (جس کی وجہ سے ان کی چودھراہٹ قائم تھی) کی جگہ دہلی اور ڈھاکہ والا جدید میٹرو پولیٹن پولیسنگ سسٹم لے آئے گا، جس کی وجہ سے ہمارا ڈی سی آفس irrelevant یا کمزور ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے اُن کا نظرّیۂ حیات یہی ہے کہ صدیوں پرانے فرسودہ سسٹم کو تحفّظ دیا جائے تاکہ ہماری چوہدراہٹ قائم رہے۔ کچھ بدنام قسم کے صحافی (جو اپنی مرضی کے ایس ایچ او لگوانے اور پھر ان سے ماہانہ معاوضہ وصول کرنے کے عادی تھے) بھی اُن کے ساتھ شامل تھے۔

بہرحال لاہور کی ذمّے داری سے سبکدوش ہونے کے بعد میں گاؤں آگیا اور کتابوں اور کاشتکاری میں دل لگانے لگا۔ اس دوران گاؤں کی خالص خوراک اور صاف آب وہوا کی وجہ سے میری صحت بہت اچھی ہوگئی بلکہ وزن کچھ بڑھ گیا۔ دو ڈھائی مہینے کے بعد ایک روز مجھے پیغام ملا کہ ’’آپ کو وزیرِاعلیٰ شہباز شریف صاحب نے کل رائیونڈ میں ملاقات کے لیے بلایا ہے‘‘۔ دوسرے روز میں ملاقات کے لیے گیا تو مجھے دیکھتے ہی شہبازشریف صاحب نے کہا ’’آپ کافی ویٹ گین کرگئے ہیں‘‘۔

میں نے کہا ’’جی لاہور کی ذمّے داری سے فارغ تھا، کوئی ٹینشن بھی نہیں تھی اور پھر گاؤں کی خالص خوراک اور صاف آب وہوا میّسر آئی تو اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا‘‘۔ ملاقات کے دوران میں نے اُن کے فیصلے پر تنقید کی کہ ’’دنیا بھر میں یہ فارمولا کہیں نہیں ہے کہ کوئی واقعہ ہونے پر قصور نہ بھی ہو تب بھی پولیس افسروں کو ہٹادیا جائے۔ ہر جگہ سنگین ترین واقعے کے بعد بھی دیکھا جاتا ہے کہ کوتاہی یا قصور کس کا ہے؟ کوتاہی نہ ہونے کے باوجود پولیس چیف کے خلاف کارروائی کرنے سے فورس کے مورال پر بہت منفی اثر پڑتا ہے‘‘۔

ان کی باتوں سے اندازہ ہوگیا کہ انھیں اپنے غلط فیصلے کا احساس ہوچکا ہے کیونکہ ان کا رویّہ مدافعانہ رہا۔ کچھ دیر بعد چیف منسٹر صاحب مجھ سے پوچھنے لگے ’’اب آپ کہاں لگنا چاہیں گے؟ آپ کو فیصل آباد لگادیں‘‘؟ میں نے لاہور کے بعد پنجاب میں کوئی اور پوسٹنگ لینے سے معذرت کرلی۔ میں ان سے ملاقات کے بعد کمرے سے نکلا تو پرائم منسٹر نوازشریف صاحب نظر آگئے جو اُسی جانب آرہے تھے۔ اُن سے سلام دعا ہوئی تو کہنے لگے ’’میں نے آپ سے کہا تھا کہ پنجاب نہ جائیں وہ آپ کو خراب کریں گے۔ اب آپ اسلام آباد آکر پھر اپنی ذمّے داریاں سنبھال لیں‘‘ اتفاق سے ان کے اسٹاف آفیسر رؤف چوہدری بھی ان کے ساتھ تھے، انھیں ہدایات دے دی گئیں اور ایک دو روز بعد میری ایک بار پھر پرائم منسٹر آفس میں تعیّناتی ہوگئی۔

چند روز بعد پی ایم آفس کی نئی بلڈنگ میں پہنچا تو پورچ میں ہی پرانے اسٹاف نے ریسیو کیا، میرا پرانا پی اے/ اسٹینو مجھے اپنے آفس کی طرف لے جاتے ہوئے بتارہا تھا کہ ’’سر! یہ سیف الرحمٰن صاحب کے نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی سیل (جنرل مشرّف کے دور میں اسے سیل کی بجائے بیورو بنادیا گیا) کے دفاتر ہیں، اچانک میری نظر ایک تختی پر رک گئی۔

لکھا تھا ’’ فلاں ڈائریکٹر جنرل‘‘ میں نے اپنے پی اے سے پوچھا کہ اس نام کا ایک افسر تو صوبہ سرحد کا وہ بیوروکریٹ تھا جسے پرائم منسٹر نے چند ماہ پہلے کرپشن کی بناء پر معطّل کیا تھا۔ پی اے کہنے لگا ’’جی سر یہ وہی صاحب ہیں‘‘ اتنے میں سامنے سے سیف الرّحمٰن آتے ہوئے نظر آئے، میں نے ان سے ملتے ہی حیرانی اور تشویش بھرے لہجے میں پوچھا ’’سیف صاحب! کل کے چور آج آپ کے ساتھی بن گئے ہیں؟ کرپشن میں معطّل ہونے والے شخص کو آپ نے ڈائریکٹر جنرل لگا لیا ہے لہٰذا اب تو خوب اکاؤنٹیبلیٹی ہوگی!!‘‘ اس پر وہ کوئی واضح جواب نہ دے سکا، مگر اُس نیم پلیٹ سے بڑا واضح پیغام مل گیا کہ اب احتساب کا سلسلہ بند ہی سمجھا جائے اور اب جو ہوگا وہ کچھ اور ہی ہوگا، احتساب نہیں ہوگا۔

اس کے بعد ہر روز میرے ان خدشات کو تقویّت ملتی گئی اور میں محسوس کرنے لگا کہ دو سالوں میں نیچے سے اوپر تک سب کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اس دوران صرف ایک بار مجھے مانسہرہ میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں تین افراد کی موت کے سانحے کی تحقیقات کے لیے بھیجا گیا، مگر میرے ساتھ ایک مشکوک شخص کو بھی نتھی کردیا گیا۔ میں اپنی عادت اور تربیّت کے مطابق بازار میں چل پھر کر لوگوں سے حقائق دریافت کرتا رہا مگر وہ صاحب دفتر سے ہی باہر نہ نکلا۔ واپس آکراس صاحب نے حقائق کے برعکس خوشامدانہ سی باتیں کیں، جب کہ میں نے پرائم منسٹر کو صاف صاف بتادیا کہ ’’وہاں کے لوگوں کا خیال ہے کہ ہزارہ کے معاملات، منجھے ہوئے، زیرک اور تجربہ کار وزیراعلیٰ سردار مہتاب عباسی کو سلجھانے دیے جائیں ، اور پارٹی کے دیگر اہم افراد کی مداخلت بند کرادی جائے‘‘۔

حالات دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ میری رپورٹ کا کوئی اثر نہیں ہوگا، جلد ہی مجھے دفتر کا ماحول اجنبی سا لگنے لگا اور میں محسوس کرنے لگا کہ میری اب وہاں کوئی ضرورت یا افادیّت نہیں رہی۔ ایک بار پرائم منسٹر صاحب سے آمنا سامنا ہوا توکہنے لگے ’’آپ ہر روز صبح آٹھ بجے مجھے ملا کریں اور میرے ساتھ ہی پرائم منسٹر آفس جایا کریں (ان دنوں وہ پرائم منسٹر آفس کی نئی اور پرشکوہ بلڈنگ میں بیٹھنے لگے تھے) تاکہ راستے میں کرائم اور لاء اینڈ آرڈر کے ایشوز discuss ہوجائیں‘‘ ایک دو بار میں ساتھ گیا مگر حکومت کی ترجیحات بدل چکی تھیں لہٰذا مجھے اب وہاں اپنی افادیّت نظر نہیں آتی تھی۔

ایک روز کوریڈور میں شاہد خاقان عباسی صاحب (جو ان دنوں پی آئی اے کے چیئرمین تھے) سے ملاقات ہوگئی، وہ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے ’’آپ کے لیے پی آئی اے میں آنے کی پیشکش برقرار ہے‘‘ دراصل چند ماہ پہلے وہ کسی کام کے سلسلے میں میرے پاس لاہور آئے تھے اور وہاں انھوں نے کہا تھا کہ ’’پی آئی اے میں بھی ’’صفائی‘‘کے لیے آپ کی ضرورت ہے، آپ کچھ دیر کے لیے آجائیں تو بڑا اچھا ہوگا‘‘۔ میں نے اُس وقت تو یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ ’’اِس وقت لاہور پولیس کو کمانڈ کررہا ہوں، امن وامان اور دہشت گردی کے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔

ان حالات میں تو حکومت مجھے بالکل spare نہیں کرے گی‘‘ مگر اب میں پی آئی اے میں جانے کے لیے ذہنی طور پر تیّار تھا، میں نے فوراً حامی بھرلی۔ شام کو اُن سے ملاقات ہوئی، اور اگلے روز ان کی طرف سے پرائم منسٹر کو کو خط لکھ دیا گیا کہ آپ کے اسٹاف افسر کی خدمات پی آئی اے کے لیے درکار ہیں، کچھ عرصہ پہلے نوازشریف صاحب مجھے وزیرِاعلیٰ پنجاب کے کہنے کے باوجود ریلیو کرنے کے لیے تیار نہ تھے مگر اب انھوں نے مجھے روکے بغیر فوراً ریلیو کردیا۔  (جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پی ا ئی اے ملاقات کے انھوں نے کے بعد ایس پی کے لیے گیا کہ

پڑھیں:

’انسانوں نے مجھے مارا‘: چین کا ہیومنائیڈ روبوٹ حیران کن ’فائٹ ٹیسٹ‘ میں بھی ڈٹا رہا

چینی کمپنی یونی ٹری’ کا نیا ہیومنائیڈ روبوٹ ’G1‘ ان دنوں سوشل میڈیا پر موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اس روبوٹ کو بار بار لاتیں اور دھکے مار کر آزمایا گیا، لیکن ہر بار اس نے اپنا توازن بحال کر کے سب کو حیران کر دیا۔

ویڈیو کے آغاز میں جی ون روبوٹ اپنے ہلکے پھلکے ڈھانچے اور لچکدار حرکات کا مظاہرہ کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک موقع پر یہ قالین پر پھسل کر گر بھی جاتا ہے، لیکن ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں دوبارہ سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ایک ڈیمانسٹریٹر روبوٹ کو تقریباً 9 بار مختلف سمتوں سے زور دار لاتیں مارتا ہے، مگر جی ون ہر مرتبہ جھولنے کے باوجود گرتا نہیں اور فوراً توازن سنبھال لیتا ہے۔

ویڈیو کے کمنٹس سیکشن میں صارفین نے دلچسپ اور طنزیہ ریمارکس دیے۔ کسی نے لکھا، ’جب اے آئی حکمران آئیں گے تو سب سے پہلے یہ بندہ نشانے پر ہوگا۔‘

جبکہ ایک اور نے خبردار کیا، ’یاد رکھو، ایک دن یہ روبوٹ بھی یہ ویڈیوز دیکھ رہے ہوں گے!‘

یونی ٹری کا پرمننٹ میگنیٹ سنکرونس موٹرز (PMSM)، ڈوئل انکوڈر سسٹم، اور پورے جسم کے کنٹرول فریم ورک کے ساتھ تیار کیا گیا ہے۔ اس کے جوڑ لمحوں میں مائیکرو ایڈجسٹمنٹ کر سکتے ہیں، جس سے یہ بیرونی دباؤ کے باوجود توازن قائم رکھتا ہے۔

???????? Chinese robot balance test pic.twitter.com/bZALPwr4nR

— BRICS News (@BRICSinfo) September 17, 2025


اس میں 3D LiDAR، ڈیپتھ کیمرے اور انرشیل میژرمنٹ یونٹ (IMU) جیسے سینسر لگے ہیں جو ماحول کی لمحہ بہ لمحہ تصویر بنا کر روبوٹ کو فوری ردعمل دینے میں مدد کرتے ہیں۔

مزید یہ کہ جی ون مشین لرننگ اور ری انفورسمنٹ لرننگ کے ذریعے انسانی حرکات، چاہے مارشل آرٹس ہوں یا ڈانس کی نقل اور تربیت بھی حاصل کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یونی ٹری اپنے جی ون کے ذریعے براہِ راست بوسٹن ڈائنامکس ایٹلس جیسے عالمی معیار کے روبوٹس کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ G1 ابھی اتنے پیچیدہ پارکور اسٹنٹ نہیں کر سکتا، مگر اس کی سائیڈ فلپس اور کِک اپس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ چھوٹا روبوٹ بھی بڑے امتحانوں میں کامیاب ہو سکتا ہے۔

مختصر یہ کہ فائٹ ٹیسٹ نے G1 کو دنیا کے سامنے ایک ایسے روبوٹ کے طور پر پیش کیا ہے جو لاتوں اور دھکوں کے باوجود ڈٹا رہتا ہے، اور ہر بار واپس اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • آپریشنل وجوہات کے باعث قومی ایئرلائن کی 10 پروازیں منسوخ
  • آئی ایم ایف کی اگلی قسط کیلئے شرائط، ٹیکس ہدف اور بجٹ سرپلس حاصل کرنے میں ناکام
  • آئی ایم ایف کی اگلی قسط کیلئے شرائط، ٹیکس ہدف اور بجٹ سرپلس حاصل کرنے میں ناکام
  • سیلاب سے متاثرہ دربار صاحب کرتار پور کو صفائی کے بعد سکھ یاتریوں کے لیے کھول دیا گیا
  • ’انسانوں نے مجھے مارا‘: چین کا ہیومنائیڈ روبوٹ حیران کن ’فائٹ ٹیسٹ‘ میں بھی ڈٹا رہا
  • کیا ہم اگلی دہائی میں خلائی مخلوق کا سراغ پا لیں گے؟
  • مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر
  • تکنیکی اورآپریشنل وجوہات کے باعث مختلف پروازیں منسوخ
  • سید علی گیلانیؒ… سچے اور کھرے پاکستانی
  • کرنسی مارکیٹوں میں امریکی ڈالر کی نسبت پاکستانی روپے کی پرواز جاری