شدید گرمی سے ہونے والی اموات، سندھ حکومت اور نجی اداروں کے اعدادوشمار میں بڑا تضاد
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
کراچی:
گرمی کی لہروں کے دوران ہونے والی اموات کے حکومت اور نجی اداروں کے اعدادوشمار میں بڑا تضاد پایا گیا ہے۔ اموات کے اعدادوشمار سرکاری سطح پر چھپائے جاتے ہیں اور گرمی سے ہونے والی اموات کو اسپتال میں brought death کہا جاتا ہے تاکہ یہ معلوم نہ ہو سکے کہ یہ اموات گرمی سے ہوئی ہیں۔
ادھر محکمہ صحت ہیٹ ویو کا سرکلر جاری کرکے اپنی جان چھڑا لیتا ہے، محکمہ صحت اور حکومت سندھ دونوں ہیٹ مینجمنٹ پلان جاری کرتے ہیں جس میں ایمرجنسی الرٹ کا لفظ استعمال کر کے دونوں ہی اپنی جان چھڑا لیتے ہیں، لیکن حکومت اور محکمہ صحت کی جانب سے عملی طور پر اس حوالے سے کوئی اقدامات دکھائی نہیں دیتے۔
محکمہ موسمیات نے ہیٹ ویو چلنے کے بارے میں متنبہ کیا تھا کہ عوام کو چاہیے کہ گرمی کے موسم میں ٹھنڈے پانی اور گھر کے تیار کردہ مشروبات کا زیادہ استعمال کریں، لوگ بلا وجہ دھوپ میں باہر نہ نکلیں اور اگر کسی ضروری کام سے باہر جانا پڑے تو سر کو بڑے رومال یا کیپ سے ڈھانپیں۔
گرمی سے گھریلو خواتین بھی زیادہ متاثر ہوتی ہیں کیونکہ باورچی خانے میں کام کرتی ہیں، چولہے کی تپش اور گرمی کی وجہ سے انکے جسم سے پسینہ خارج ہوتا ہے جس کے باعث جسم سے نمکیات اور دیگر vital ضائع ہوتے ہیں، اس صورتحال میں خواتین میں چکر آتے ہیں اور وہ نقاہت اور گھبراہٹ محسوس کرتی ہیں۔
ان حالات میں خواتین کو پانی کا زیادہ استعمال کرنا چاہیے اور گھر میں تیار کردہ لیموں پانی یا دیگر مشروبات استعمال کرنے چاہیے، بچوں کو بھی دھوپ میں نکلنے سے روکنا چاہیے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ شدید گرمی کے دوران سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیرات میں کام کرنے والے مزدوروں اور ریڑھی بانوں کو بھی اپنے سروں کو گیلے کپڑے یا تولیے سے ڈھانپنا چاہیے تاکہ وہ ہیٹ اسٹروک سے بچیں۔
گزشتہ پانچ برسوں سے کراچی میں گرمی کی لہریں مسلسل شدت اختیار کر رہی ہیں اور ہر سال درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 2019 میں کراچی میں درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا جس کے دوران سرکاری طور پر تقریباً 60 اموات اور نجی تخمینوں کے مطابق تقریباً 200 اموات ہوئیں۔ سال 2020 میں درجہ حرارت 43 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا، جس کے دوران سرکاری طور پر تقریباً 30 اموات اور نجی تخمینوں کے مطابق تقریباً 150 اموات ہوئیں۔
سال 2021 میں درجہ حرارت 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا، جس کے دوران سرکاری طور پر تقریباً 45 اموات اور نجی تخمینوں کے مطابق تقریباً 180 اموات ہوئیں۔ سال 2022 میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا، جس کے دوران سرکاری طور پر تقریباً 50 اموات اور نجی تخمینوں کے مطابق تقریباً 220 اموات ہوئیں۔ سال 2023 میں درجہ حرارت 43.
حکومت اور نجی اموات کے اعداد و شمار کے درمیان یہ بڑا فرق سنگین سوالات اٹھاتا ہے کہ گرمی سے ہونے والی اموات کی حکومتی سطح پر درست اطلاعات کیوں نہیں دی جا رہی۔
کراچی کے ہر سال کی طرح امسال بھی ہیٹ ویو یا گرمی کی لہر سے متاثرہ افراد کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے جاتے، ہیٹ اسٹروک سے متاثرہ مریضوں کو سرکاری اسپتالوں میں لایا جاتا ہے جہاں پر ڈرپ لگا کر اور او آر ایس تجویز کرکے روانہ کر دیا جاتا ہے، سرکاری اسپتال میں ہیٹ اسٹروک کے مریضوں کو داخل نہیں کیا جاتا۔
دیکھا گیا ہے کہ ہر سال ہیٹ اسٹروک سے ہزاروں افراد مختلف اوقات میں اسپتالوں میں لائے جاتے ہیں لیکن کسی بھی اسپتال میں مریضوں کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات دیکھنے میں نہیں آتے، صوبائی محکمہ صحت ہر سال ہیٹ اسٹروک کے حوالے سے تمام اسپتالوں کے سربراہوں کو ایمرجنسی الرٹ جاری کر دیتے ہیں، کوئی علیحدہ سے یونٹ نہیں بنایا جاتا۔
موسمیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے ماہر مجتبیٰ بیگ نے بتایا کہ شہر کے صرف 5 فیصد سے بھی کم حصے پر درخت ہیں، سڑکیں اور محلے کنکریٹ پر مشتمل ہیں جو دن میں حرارت جذب کرکے شام کو خارج کرتے ہیں جس کی وجہ سے گھروں میں رات دیر تک تپش برقرار رہتی ہے۔ پانی کے غیر منصفانہ انتظام کے باعث پانی کی قلت شہر میں بدستور موجود ہے، کراچی میں بیشتر علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ کئی کئی ہفتے پانی کی بوند کو ترستے ہیں، جس کی وجہ سے جسم کو ہائیڈریٹ رکھنا ایک روزمرہ جدوجہد بن گیا ہے۔
شہر کا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم تقریباً ناکارہ ہوگیا ہے، بسوں اور ویگنوں میں لوگ کھچا کھچ بھر ہوتے ہیں۔ ان خستہ حال گاڑیوں میں وینٹیلیشن نہیں ہوتی جس کی وجہ سے سفر کرنے والے مسافر انتہائی بدحال ہو جاتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ اور خواتین و بچوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گرمی سے سب سے زیادہ خطرے میں دیہاڑی دار مزدور ہوتے ہیں جن میں سے بہت سوں کو ٹھنڈک یا ایمرجنسی کیئر تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
حکومت کی جانب سے کراچی ہیٹ مینجمنٹ پلان میں اسپتالوں کو ایمرجنسی الرٹ جاری کرنا اور نجی کمپنیوں کی جانب سے عارضی کولنگ سینٹرز قائم کرنا تو شامل ہے۔ لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ صرف عارضی حل ہے، طویل مدتی اقدامات جیسے درخت لگانا، پانی کی فراہمی کو بہتر بنانا، یا پبلک ٹرانسپورٹ کو ٹھیک کرنا کہاں ہے؟
سرکاری ریکارڈ نجی اسپتالوں اور قبرستانوں کے مقابلے میں گرمی کی لہر سے ہونے والی بہت کم اموات ظاہر کرتے ہیں۔ اس تضاد سے پتہ چلتا ہے کہ حکام یا تو کم رپورٹنگ کر رہے ہیں یا ہلاکتوں کو مناسب طریقے سے دستاویزی شکل دینے میں ناکام ہیں۔
موسمیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ دیگر شہروں کے برعکس کراچی ٹپنگ پوائنٹ جیسے ایک خطرناک چکر میں پھنسا ہوا ہے یعنی گرمی میں شہر کا درجہ حرارت بڑھتا ہے تو بجلی کی طلب بڑھ جاتی ہے کیونکہ لوگ زیادہ اے سی استعمال کرتے ہیں جس سے باہر کا ماحول اور زیادہ گرم ہواؤں کی زد میں آجاتا ہے جو درجہ حرارت میں مزید اضافے کا باعث بنتا ہے۔ عمارتوں میں لگا کنکریٹ اور اسفالٹ حرارت کو جذب کرتے ہیں (اربن ہیٹ آئی لینڈ افیکٹ) اور ٹھنڈک کے لیے بہت زیادہ تعداد میں درخت یا کھلی جگہیں نہیں ہیں، جس کی وجہ سے شہر ایک تندور کی طرح بن جاتا ہے۔
ماہرین نے مزید کہا کہ ہیٹ ویو اس وقت ہوتی ہے جب گرمی صرف ناقابل برداشت محسوس نہیں ہوتی بلکہ جان لیوا بن جاتی ہے۔ تکنیکی طور پر شدید گرمی کا ایک طویل دورانیہ ہوتا ہے جو اکثر نمی کی وجہ سے مزید خراب ہو جاتا ہے، جس سے جسم کے لیے خود کو ٹھنڈا رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
کراچی میں درختوں اور ہریالی کی کمی اور بلند و بالا عمارتوں کی تعمیرات بھی درجہ حرارت میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔ دوسری جانب سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بڑھ رہا ہے، شہر میں سڑکوں کی حالت انتہائی خراب ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کی روانی متاثر ہو رہی ہے اور گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے، اس دوران گاڑیاں اسٹارٹ رہتی ہیں جن سے خارج ہونے والی کاربن موسم کو مزید گرم کرتی ہیں اور آلودگی پھیلاتی ہے۔
اس شہر کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کراچی کی دعویدار جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں ان کے مقامی رہنما موسمیاتی تبدیلی کی الف ب سے بھی واقف نہیں جبکہ دو سال تک صوبائی وزیر موسمیاتی تبدیلی رہنے والے مرتضیٰ وہاب جو اب مئیر کراچی ہیں، نے موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کا لمبا چوڑا منصوبہ تو بنوا کر رکھ لیا ہے مگر اس پر عمل درآمد کے لیے بلدیہ کراچی کے پاس نہ تو اختیارات ہیں اور نہ ہی عملہ اور فنڈز ہیں۔ اسی لیے مذکورہ منصوبے کو موسمیاتی تبدیلی کے ماہرین شیخ چلی کا منصوبہ کہتے ہیں جو ایک غیر ملکی امدادی ادارے کے فرائض منصبی میں شامل ہونے کے باعث مفت میں بنوا تو لیا گیا ہے مگر اس پر عمل درآمد کے لیے نہ ارادے کے پاس طاقت ہے اور نہ ہی بنیادی موسمیاتی تعلیم اور وسائل ہیں۔
ڈاکٹر آفتاب حسین نے بتایا کہ عوام دن کے گرم ترین اوقات (صبح 11 بجے سے شام 4 بجے تک) گھر کے اندر رہیں، خوب پانی پئیں اور میٹھے یا کیفین والے مشروبات سے پرہیز کریں۔ انہوں نے کہا دوپہر کے وقت ہلکی غذاء کا استعمال کریں اور گھر کے تیار کردہ ٹھنڈے مشروبات استعمال کریں۔
انہوں نے کہا کہ بازاروں میں رنگ برنگے مشروبات فروخت ہونے والے مشروبات سے اجتناب کریں کیونکہ دھوپ میں رکھے مشروبات کی بوتلوں میں مختلف اقسام کے بیکڑیا کی نشوونما ہوتی رہتی ہے، والدین اپنے بچوں کو سختی سے منع کریں کہ اسکولوں کے اطراف لگائے جانے والے ٹھیلوں سے شربت نہ پیئیں۔
ڈاکٹر آفتاب حسین نے کہا کہ اسی طرح فریج میں رکھے جانے والے باسی کھانوں کو استعمال نہ کیا جائے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کھانوں میں مختلف اقسام کے بیکٹریا جنم لیتے ہیں جس سے ہیضہ اور ڈائریا کا مرض جنم لیتا ہے، گرمی کے موسم میں ڈائریا کا مرض شروع ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بزرگوں اور بچوں کا خیال رکھیں۔ شہری اپنے حکام سے جنگلات، قابل اعتماد پانی کی فراہمی اور مناسب پبلک ٹرانسپورٹ جیسی بہتر پالیسیوں کا مطالبہ کریں۔ کراچی میں گرمی کی لہریں نہ صرف بدتر ہوتی جا رہی ہیں بلکہ یہ اس بات کو بھی بے نقاب کر رہی ہیں کہ ان کا کم سے کم نقصانات کے ساتھ سامنا کرنے کے لیے شہر بالکل تیار نہیں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فوری کارروائی کے بغیر ہر موسم گرما پچھلے سے زیادہ جان لیوا ہوگا۔
محکمہ صحت کا موقف
ڈپٹی ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کراچی اور ماہر صحت عامہ ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی نے کراچی میں حالیہ ہیٹ ویو کے حوالے سے بتایا کہ وزیر صحت اور سیکریٹری صحت و ڈائریکٹر کراچی محکمہ صحت حکومت سندھ کی جانب سے کراچی کے تمام سرکاری و غیر سرکاری اسپتالوں و دیگر مراکز صحت کے میڈیکل سپریٹنڈنٹس اور تمام ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کو تحریری صورت میں ہنگامی بنیادوں پر ہدایت جاری کر دی گئی ہیں کہ وہ اپنے اپنے مراکز صحت میں 24/7 اپنے تمام ڈاکٹر اور طبی عملے کی حاضری کو یقینی بنائیں اور تمام چھٹیاں منسوع کر دی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تمام اسپتالوں میں ہیٹ اسٹروک اسٹینیلازشن سینٹر کا قیام کیا جائے جس میں زندگی بچانے والی ادویات سمیت ٹھنڈے فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
نوٹیفیکشن میں کہا گیا کہ ان مراکز میں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اور عملے کی ڈیوٹی کو یقینی بنایا جائے، عوام کو ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی آگاہی کے لیے شعور اجاگر کیا جائے۔ تمام اسپتال اور صحت کے مراکز تمام صحت کی سہولت کے ساتھ ایمبولینس کی سروسز کو یقینی بنائے۔
اس سلسلے میں محکمہ صحت نے ڈائریکٹر آفس میں ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر شیر خان جونیجو کو فوکل پرسن مقرر کیا ہے۔
دریں اثنا، ڈاکٹر پیر غلام نبی شاہ جیلانی نے عوام سے اپیل کی کہ غیر ضروری طور پر دھوپ میں نہ نکلیں، چکر، متلی آنے کی صورت ٹھنڈی جگہ پر بیٹھیں، سر میں پانی ڈالیں، ہلکے رنگ کے کپڑے پہنیں۔ انہوں نے گھریلوں خواتین سے کہا کہ گھر میں باورچی خانے میں کھانا پکانے کے دوران جو پسینے آتے ہیں، اس سے جسم کی نمکیات ضائع ہوتے ہیں لہٰذا خواتین بھی دوران کام کاج پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں یا گھر کے مشروبات (نمکول یا اوآر ایس)، فروٹ بھی استعمال کر سکتی ہیں۔ سخت گرمی کے موسم میں ہلکے کھانے استعمال کیے جائیں، اس کے علاوہ صبح 11 بجے سے شام 5 بجے تک گھر سے غیر ضروری باہر نہ نکلیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اموات اور نجی تخمینوں کے مطابق تقریبا جس کے دوران سرکاری طور پر تقریبا موسمیاتی تبدیلی ہیٹ اسٹروک سے کا کہنا ہے کہ استعمال کریں سے ہونے والی جس کی وجہ سے اموات ہوئیں استعمال کر کی جانب سے کراچی میں حکومت اور سے زیادہ بتایا کہ کرتے ہیں کو یقینی ہوتے ہیں انہوں نے ہیٹ ویو جاتا ہے گرمی کے پانی کی ہیں اور گرمی کی کے لیے ہیں جس ہر سال گھر کے گیا ہے
پڑھیں:
حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250918-03-5
مجاہد چنا
جب آپ فطرتی ماحول ، قدرت کے فیصلوں اور پانی کے قدرتی راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے تو اس کا خمیازہ بھی آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ موجودہ دریائی سیلاب جو کے پی اور پنجاب میں تباہی مچا رہے ہیں وہ بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ بادل پھٹنے کے نتیجے میں پہاڑوں سے آنے والے پنجاب میں راوی سمیت دریا ئی پانی کی گذرگاہوں پر زبردستی قبضے اور سوسائٹیز، مکانات، بنگلے، فارم ہاؤسز وغیرہ سمیت بڑی بڑی آبادیاں قائم کردینے کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ لاکھوں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں اور جان و مال کے لحاظ سے بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کے پی میں پیر بابا بونیر میں تباہی کی وجہ پانی کو روکنے والے درختوں کی کٹائی اور دوسری وجہ اس پانی کے راستے پر بستیوں کا قیام بھی بتایا جاتا ہے۔ یہی صورتحال ملک کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی ہوئی ہے۔ شاہراہ فیصل سے سعدی ٹاؤن تک پانی میں ڈوبنے اور شاہراہ بھٹو کے کچھ حصوں کے کٹاؤ کی بھی یہی وجہ بتائی جا رہی ہے۔ ملیر ندی کے پیٹ میں شاہراہ بھٹو بنانے اور پھر دھیرے دھیرے پوری زمین پر قبضہ کرنے کی سازش کئی دہائیوں کے بعد تیز بہنے والے پانی نے بالآخر ناکام بنا دی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سانپ گذرنے کے بعد لکیر پیٹے رہتے ہیں۔ چند سالوں کے وقفے کے بعد ہمارے ملک میں سیلاب، زلزلے اور قدرتی آفات آتی ہیں، لیکن ہر بار یہ صرف وقتی طور پر متحرک ہوتی ہیں اور حکومت اور ادارے سو جاتے ہیں۔ پنجاب میں آنے والے سیلاب کی وجہ بھارت کی آبی دہشت گردی کہی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ پوری دنیا، میڈیا اور ہمارا محکمہ موسمیات دریائی اور شہری سیلابوں کی پیش گوئیاں کرتے رہے لیکن جو تباہی اور افراتفری ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ ہماری حکومت صرف اشتہارات اور کرپشن کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی۔ جب سرسے پانی چڑھا تو ہنگامی سرگرمیاں شروع کیں ، وہ بھی محض نمائشی! پنجاب حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب لوگ ڈوب رہے تھے تو وزیراعلیٰ محترمہ مریم بی بی سرکاری خرچ پر بڑی وفدکے ساتھ چین کے دورے پر گئی تھیں۔ پنجاب میں حکومتی امدادی سرگرمیوں کی متعدد ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں جس سے اس کی اصلیت کھل کر سامنے آئی ہے۔ ایک ویڈیو میں پولیس اہلکار صرف تھیلے پر ہاتھ رکھ کر متاثرین کو خالی ہاتھ بھیج رہے ہیں، دوسری میں ایک خاندان کو راشن کا تھیلا دیا جا رہا ہے جس میں آٹے میں نمک کے برابر سامان ہے، جب کہ متاثرین نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والے معروف ٹی وی اینکر حامد میر کو بتایا کہ سرکاری ادارے 1122 کی امدادی کشتیاں لوگوں کو محفوظ مقام پر لے جانے کے لیے تیس سے پینتیس ہزار روپے فی شخص کرایہ وصول کر رہی ہیں۔ یہ افسوسناک مناظر میڈیا میں آئے اور حامد میر نے بھی اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں دکھائے، کہاں ہے حکومت اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے؟
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے نارووال میں متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سیلاب نے ہمیں 30 سال پیچھے کر دیا ہے اور 500 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سیلاب نے ہماری تیس سال کی محنت برباد کر دی ہے۔ سیلاب نے سڑکیں، پل اور گاؤں تباہ کر دیے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ 2010 اور 2022 کے سیلاب میں سندھ کے عوام کس تکلیف دہ صورتحال سے گزرے ہوں گے۔ اور ان دو سیلابوں نے سندھ کی ترقی کو کتنے سال پیچھے کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ سیلاب نے پنجاب میں خریف کی فصل کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب کے 24 اضلاع میں ہزاروں مربع کلومیٹر اراضی زیر آب آچکی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی بڑھ رہا ہے۔ بالخصوص جنوبی پنجاب میں دہان کی 60 فیصد اورکپاس کی 35 فیصد فصل تباہ ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اس میں باسمتی چاول کی فصل کا 20 فیصد بھی شامل ہے۔کسان بورڈ پاکستان کے اختر فاروق میو نے دعویٰ کیا ہے کہ کسانوں کو کپاس، چاول، تل، مکئی اور چارہ جات کی تباہی کی وجہ سے 536 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کئی شہروں میں سبزیوں اور دیگر جلد خراب ہونے والی اجناس کی قلت پیدا ہوگئی ہے جو آئندہ خوراک کے بحران میں بدل سکتی ہے۔
پنجاب کے بعد سندھ میں آنے والے سیلابی پانی نے سکھر، کشمور، خیرپور، دادو اور دیگر اضلاع میں تباہی مچانا شروع کر دی ہے۔ کچی آبادیوں کے سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے ہیں اور لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس بات پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے اب تک بین الاقوامی امداد کی اپیل کیوں نہیں کی! اگر سندھ حکومت بندوں کی مرمت سمیت بروقت حفاظتی اقدامات کرتی تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ پیپلز پارٹی کا سیلاب متاثرین کے لیے 21 لاکھ گھر بنانے کے دعوے کو بھی تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ کراچی سے کشمور تک سندھ کا حال بھی آپ کے سامنے ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن پہلے قومی رہنما ہیں جنہوں نے سیالکوٹ، گجرات، لاہور اور دیگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے الخدمت فاؤنڈیشن کی امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور متاثرین کی تسلی کی۔ میڈیا اورمتاثرین سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں کو قدرتی آفت قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی۔ یہ تباہی ظالموں کے ظلم کا نتیجہ ہے۔ سیلاب کی تباہی ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کے ساتھ ساتھ بھارت کی آبی دہشت گردی کا نتیجہ ہے۔ 40 سال تک پنجاب پر حکومت کرنے کے بعد مریم بی بی حیران ہیں کہ گجرات میں سیوریج کا نظام نہیں ہے۔ اسی طرح 40 سال سے سندھ پر حکومت کرنے والی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پانی میرے گھر تک ٹینکرز کے ذریعے آتا ہے! یہ لوگ عوام کے مسائل کیسے حل کر یں گے؟؟ انہوںنے سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر شدید مہنگائی، غذائی قلت اور زرعی بحران پیدا ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ اشیائے خورونوش ، کھاد، بیج اور زرعی ادویات پر سبسڈی کا اعلان کیا جائے۔
گزشتہ 78 سالوں سے ملک میں اقتدار کے مزے لینے والا حکمران ٹولہ چاہے وہ سول ہو یا فوجی یا بیوروکریسی، اپنے کاروبار یا اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے توطویل المدتی منصوبے بناتا ہے، لیکن جس ملک نے انھیں عزت، شہرت اور دولت دی، اس ملک اور قوم کی بہتری کے لیے سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر حکومت کرپشن سے پاک منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیلاب سے پہلے چوکس رہتی، بندوں کی صحیح مرمت اور تجاوزات کا خاتمہ ہوتا تو عوام کو یہ مشکل دن نہ دیکھنا پڑتے۔حقیقت یہ ہے کہ ملک اس وقت بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمران طبقے کی نااہلی اور نااہلی کی وجہ سے ڈوبا ہوا ہے جس سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو سیلاب وبارش سے ہونے والی جانی ومالی تباہی سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہیئے۔ متاثرین کی دوبارہ آبادکاری ، زرعی اور ماحولیاتی ہنگامی حالات کے کھوکھلے اعلانات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس کے لیے روڈ میپ اور فریم ورک کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے 2010-2022 کے سیلاب متاثرین اب بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کے اعلان کے باوجود 80 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ کچھ سکول عمارتوں سے محروم ہیں جبکہ کچھ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس لیے بار بار کے اعلانات سے ہٹ کر متاثرین کی امداد وبحالی اور سندھ کی تعمیر وترقی کے لیے کچھ عملی کام کرنا ہوں گے۔
ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ سب سے پہلے تو اس مشکل وقت میں تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے مسائل کے حل کے بارے میں مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے۔ سیاسی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر شہروں میں سیوریج کے نالوں پر تجاوزات، دریا کے قدرتی راستوں پر بنائے گئے طاقتور لوگوں کے بنگلوں، فارم ہاؤسز اور سوسائٹیز کو ختم کیا جائے۔ جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں فوری طور پر متبادل حل تیار کیا جائے۔ دریائی پشتوں کی مرمت اور سیم نالوں کی صفائی کے لیے جاری کی گئی رقم اور کام کا جائزہ لیا جائے۔ دریا اور بارشوں کے سیلاب سمیت قدرتی آفات کی صورت میں خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو فعال اور مضبوط کیا جائے۔ حکومت الخدمت فاؤنڈیشن سمیت فلاحی خدمات کے اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے اور انہیں متاثرہ علاقوں میں تقسیم کرے تاکہ تمام متاثرین کو ریلیف اور بحالی کی سہولت فراہم کی جاسکے۔