چین دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں میں آذربائیجان کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے، چینی صدر
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
بیجنگ :چینی صدر شی جن پھنگ نے چین کے سرکاری دورے پر آئے ہوئے آذربائیجان کے صدر الہام علیئوف سے بیجنگ میں گریٹ ہال آف دی پیپل میں ملاقات کی۔ دونوں سربراہان مملکت نے چین اور آذربائیجان کے درمیان جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے قیام کا اعلان کیا۔بد ھ کے روزشی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ چین قومی خودمختاری، آزادی اور علاقائی سالمیت کے تحفظ اور اپنے قومی حالات کے مطابق ترقی کے راستے پر گامزن رہنے میں آذربائیجان کی حمایت کرتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ چین انتہا پسندی،دہشتگردی اورعلیحدگی پسندی کے خلاف کارروائیوں میں آذربائیجان کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہے۔ چینی صدر نے کہا کہ چین اور آذربائیجان کو ترقیاتی حکمت عملیوں کی ہم آہنگی کو مضبوط بنانے ، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی گہری اور عملی تعمیر کو فروغ دینے اور اعلی معیار کی ترقی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ ٹیرف اور تجارتی جنگیں تمام ممالک کے جائز حقوق اور مفادات کو کمزور کرتی ہیں اور کثیر الجہتی تجارتی نظام اور عالمی معاشی نظام کو متاثر کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ چین آذربائیجان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ اقوام متحدہ کی مرکزیت پر مبنی بین الاقوامی نظام اور بین الاقوامی قانون پر مبنی بین الاقوامی نظم و نسق کو برقرار رکھا جا سکے، اپنے جائز حقوق اور مفادات اور بین الاقوامی عدل و انصاف کا تحفظ کیا جا سکے۔الہام علیئوف نے کہا کہ آذربائیجان ایک چین کے اصول پر سختی سے عمل پیرا ہے، تائیوان کو چین کا اٹوٹ حصہ سمجھتا ہے اور قومی وحدت کے حصول کے لئے چینی حکومت کی تمام کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ان کا ماننا تھا کہ صدر شی جن پھنگ کا انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کا تصور اور تین گلوبل انیشی ایٹوز عالمی امن، استحکام اور خوشحالی کے لئے سازگار ہیں اور آذربائیجان فعال طور پر ان کی حمایت کرتا ہے۔ملاقات کے بعد دونوں سربراہان مملکت نے جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے قیام پر عوامی جمہوریہ چین اور جمہوریہ آذربائیجان کے مشترکہ اعلامیے پر دستخط کیے اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ، انصاف، سبز ترقی، ڈیجیٹل معیشت، انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس اور ایرو اسپیس کے شعبوں میں تعاون کی 20 دستاویزات پر دستخط کیے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ا ذربائیجان کے بین الاقوامی نے کہا کہ جن پھنگ کہ چین کے لئے
پڑھیں:
چینی قوم کی وحدت کا تصور ثقافت اور اخلاق سے ہم آہنگ ہے، چینی میڈیا
بیجنگ : دنیا کی تاریخ کے طویل سفر میں، بہت سی قدیم تہذیبیں وقت کے ساتھ ختم ہو گئیں یا چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئیں، لیکن چین ایک ایسے جہاز کی مانند ہے جو طوفانوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی ایک ہی سمت میں سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ چینی قوم کی قومی وحدت پر اسرار ہزاروں سال کی تاریخ اور منفرد ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتا ہے۔ چینی قوم کے قومی تصور کو سمجھنا ایک ضخیم تاریخی کتاب کے صفحات پلٹنے کے مترادف ہے، جس کے ہر صفحے پر “گھر” اور “ملک” کا گہرا رشتہ درج ہے۔
1046 قبل مسیح میں، چو خاندان نے متحد چینی ریاست قائم کی، جس نے “تیئن شیاء” (لفظی معنی ہے آسمان کے نیچے سب کچھ یعنی ملک و قوم) کا تصور متعارف کرایا۔ یہی چینی قوم کے قومی تصور کی بنیاد بنا۔ چو خاندان نے جاگیردارانہ نظام کے ذریعے مختلف قبائل اور علاقوں کو ایک ہی ثقافتی نظام میں شامل کیا، جس نے ” آسمان کے نیچے ساری زمین بادشاہ کی ہے” کے تصور کو جنم دیا۔ بعد میں، اگرچہ چو خاندان انتشار کا شکار ہوا، لیکن طاقتور ریاست چِھین نے دوبارہ اتحاد قائم کیا اور “ایک ہی رسم الخط، ایک ہی پیمائش کا نظام” نافذ کرکے مرکزی حکومت کو مضبوط بنایا جس نے ثقافتی ورثے اور قومی اتحاد کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد، ہان، تھانگ، منگ اور چھنگ جیسے شاہی خاندانوں کے ادوار سے گزرتے ہوئے بھی “چین” ایک ثقافتی و سیاسی اکائی کے طور پر قائم رہا۔ جیسا کہ معروف مورخ چیئن مو نے کہا: “چین کا سیاسی نظام ‘ وحدت ‘ کے تصور پر مبنی ہے، جبکہ مغرب کا نظام ‘کثیرالاطراف’ کے تصور پر قائم ہوا ۔ چینی قوم کی وحدت کا تصور ثقافت اور اخلاق سے ہم آہنگ ہے ، اسی لیے ملک متحد ہے، جبکہ مغرب میں قومی تصور حقوق اور مفادات پر مبنی ہے، جس کی وجہ سے تقسیم پیدا ہوتی ہے۔ چینی تاریخ میں سب سے اہم اور بڑا مقصد قومی یکجہتی اور ایک مضبوط متحد ریاست کی تشکیل ہے۔”
چینی قوم کی قومی وحدت پر اسرار اس کے علاقائی خودمختاری کے موقف میں بھی واضح ہے۔ دنیا کی مشہور دیوارِ چین نہ صرف تعمیراتی شاہکار ہے، بلکہ چینی کاشتکاری یا کھیتی باڑی کی تہذیب کی “دفاعی ڈھال” بھی ہے۔ یہ دیوار توسیع پسندی کے لیے نہیں، بلکہ خانہ بدوش حملوں سے دفاع اور اپنے گھر کی حفاظت کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہ چینی تہذیب کی فطرت کو ظاہر کرتی ہے: دوسری توسیع پسند تہذیبوں کے برعکس، چینی تہذیب اپنی سرحدوں کے اندر کاشتکاری کے ذریعے بقا کو ترجیح دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ چینی قوم اپنی زمین سے گہرا جذباتی لگاؤ رکھتی ہے۔ یہ جذبہ “زمین کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری” کے قومی شعور میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ گھاس کے میدان میں رہتے ہوئے دنیا کو اپنا گھر سمجھنے والے خانہ بدوش لوگوں سے مختلف ، جب بیرونی حملہ آوروں نے چین کی سرحدوں کو خطرے میں ڈالا، تو چینی قوم “ملک تباہ، گھر برباد” کے شدید درد کو محسوس کرتی ہے اور “ملک کی سلامتی ہر فرد کی ذمہ داری” کے نعرے کے ساتھ یک جان ہو کر مقابلہ کرتی رہتی ہے ۔ ہزاروں سال سے، چینی تہذیب نے “اگر کوئی ہمیں نہ چھیڑے، تو ہم کسی کو نہیں چھیڑیں گے؛ لیکن اگر کوئی ہمیں چھیڑے گا، تو ہم ضرور جواب دیں گے” کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اپنی خودمختاری کا دفاع کیا ہے۔
قومی وحدت کی بات ہو، تو تائیوان کا معاملہ ہر چینی کے دل کا اہم معاملہ ہے۔
تائیوان تاریخی طور پر چین کا اٹوٹ حصہ رہا ہے، لیکن تاریخی وجوہات کی بنا پر ابھی تک تائیوان کی وجہ سے چین کی مکمل وحدت حاصل نہیں ہو سکی ۔ جیسا کہ کچھ چینی انٹرنیٹ صارفین کہتے ہیں: “عوامی جمہوریہ چین کی فوج کا نام ‘پیپلز لبریشن آرمی’ اس لیے برقرار ہے، کیونکہ تائیوان کی مکمل آزادی اور وحدت کا خواب ابھی پورا نہیں ہوا۔” یہ عوامی تاثر اگرچہ سرکاری تعریف نہیں، لیکن چینی قوم کی وحدت کے جذبے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ جذبہ کسی توسیع پسندانہ خواہش کا نتیجہ نہیں، بلکہ چینی تہذیب کی “اپنی زمین اور گھر کی حفاظت” کی ثقافتی اساس سے جڑا ہوا ہے۔ ہم کسی بالادستی کے لیے نہیں، بلکہ اپنے ہزاروں سالہ ثقافتی ورثے، اپنے گھر اور قومی بقا کے لیے کوشاں ہیں۔
یہ ہزاروں سال پرانا قومی تصور چینی قوم کے خون میں رچا بسا ہے۔ چینی قوم کی وحدت کے جذبے کو سمجھ کر ہی چینی تہذیب کے تسلسل کی منطق کو سمجھا جا سکتا ہے۔ عالمگیریت کے اس دور میں بھی یہ ثقافتی جینز چینی قوم کی عظیم نشاۃ ثانیہ کی راہنمائی کر رہا ہے۔
Post Views: 5