Express News:
2025-07-26@07:21:18 GMT

پاک افغان تعلقات کا نیا دور

اشاعت کی تاریخ: 25th, April 2025 GMT

پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ چند برسوں میں پیدا ہونے والی کشیدگی کی بنیادی وجہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ہیں جو افغان سرزمین سے آنے والے خوارج کی فتنہ گری کا نتیجہ ہیں۔

پاکستان کی جانب سے اعلیٰ ترین حکومتی سطح پر افغانستان میں برسر اقتدار طالبان قیادت کو بارہا یاد دہانی کرائی جاتی رہی کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ اس کے جواب میں طالبان حکومت وعدوں اور زبانی کلامی یقین دہانیوں سے آگے عملی طور پر دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہی۔ ادھر پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو، جو روسی مداخلت کے بعد کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں واپس بھیجنا شروع کر دیا تو طالبان قیادت نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ کو کابل دورے کی دعوت دی تاکہ دو طرفہ بات چیت کے ذریعے کشیدگی کو کم کرتے ہوئے خوشگوار تعلقات کے قیام کی راہیں تلاش کی جا سکیں۔

 اس پس منظر میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار پہلے ایک روزہ سرکاری دورے پرکابل گئے جہاں انھوں نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی سے تفصیلی مذاکرات کیے۔ اسحاق ڈار نے پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث شرپسندوں کے افغانستان سے تعلق کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو افغان حکومت کے سامنے رکھا۔ باہمی گفت و شنید کے بعد اس بات پر دونوں جانب سے اتفاق کیا گیا کہ ہر دو جانب سے اعلیٰ سطح پر روابط برقرار رکھے جائیں گے۔

علاوہ ازیں مختلف شعبوں سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون اور عوامی سطح پر رابطوں کو بڑھانے کے حوالے سے متعدد فیصلے کیے گئے۔ سب سے اہم بات یہ طے ہوئی کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اگر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو دونوں ممالک مشترکہ طور پر فوری کارروائی کریں گے۔ افغان حکومت اس سے قبل بھی وعدہ وعید سے کام لیتی رہی ہے۔ حکومتی سطح پر باقاعدہ معاہدے کے بعد یہ توقع کی جانی چاہیے کہ طالبان حکومت اس پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرے گی۔

پاکستان اور افغانستان دونوں برادر اسلامی ملک ہیں جو اپنے جغرافیائی محل وقوع کے باعث خطے کے اہم ملک شمار ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان گہرے اور دیرینہ تاریخی، تہذیبی اور مذہبی روابط بھی قائم ہیں۔ محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی اور ظہیرالدین بابر دونوں کے مشترکہ ہیروز ہیں۔ اس قدر طویل اور مضبوط تاریخی و تہذیبی مشترکہ اقدار کے باوجود گزشتہ چند دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان دوستی و تعاون کے جذبوں کے فروغ پانے کی بجائے تعلقات میں سردمہری، عدم تعاون،کشیدگی، نفرت، عداوت اور دشمنی جیسے رویوں کا پروان چڑھنا نہ صرف افسوس ناک بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی خطرناک ہے۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف افغانستان کی دشمنی کا پہلا اظہار اقوام متحدہ میں 30 ستمبر 1947 کے اجلاس میں کیا گیا۔ جب افغان مندوب حسین عزیز نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت کے ضمن میں واحد مخالف ووٹ ڈالا۔ تاہم پاکستان تلخیوں کو پس پشت ڈال کر افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی اپنی پالیسی پر اخلاص نیت کے ساتھ کاربند رہا۔ اسی باعث جب دسمبر 1979 میں اس وقت کی سوویت یونین (روس) نے افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو وہاں برسر اقتدار حفیظ اللہ امین حکومت کا خاتمہ کر کے کابل کے تخت پر ماسکو کی پسند کا آدمی حکمران بنا دیا گیا۔ روسی ہوائی حملوں کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔

برادر اسلامی ملک اور دیرینہ رشتوں کے احترام میں پاکستان نے کشادہ دلی کے ساتھ افغان مہاجرین کی میزبانی کو صدق دل سے قبول کیا۔ آج بھی جو افغان باشندے قانونی طریقے سے پاکستان میں رہائش پذیر ہیں انھیں حکومت تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کے طول و عرض میں سماجی، معاشرتی اور معاشی سطح پر جو نقصانات ہو رہے ہیں، حکومت انھیں خوش دلی سے برداشت کر رہی ہے۔ تاہم دہشت گردی کے حوالے سے افغان سرزمین کا استعمال کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان کی سلامتی و بقا ہر شے پر مقدم ہے۔

افغانستان کی طالبان حکومت سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ پاک افغان تازہ معاہدے پر اخلاص نیت اور سنجیدگی کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بناتے ہوئے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے ہر صورت روکے گی، تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ماضی جیسے خوشگوار و برادرانہ تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہو سکے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دہشت گردی کے پاکستان میں پاکستان کے سے پاکستان کے درمیان کے ساتھ کے خلاف

پڑھیں:

افغانستان میں جیل میں قید برطانوی والدین کی موت کا خدشہ ہے، بچوں کی درخواست

کابل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 جولائی2025ء)افغانستان میں جیل میں قید بزرگ برطانوی جوڑے کے بچوں نے والدین کی رہائی کے لیے طالبان حکومت سے درخواست کردی۔غیرملکی میڈیا کے مطابق 80 سالہ پیٹر اور ان کی 76 سالہ اہلیہ باربی رینالڈز کو یکم فروری کو افغانستان کے صوبہ بامیان میں اپنے گھر واپس جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ دونوں افراد ساڑھے پانچ ماہ سے زائد بغیر کسی الزام کے حراست میں ہیں اور ان دونوں کو سخت سیکیورٹی والی جیل میں الگ الگ رکھنے کی اطلاعات ہیں۔

س برطانوی جوڑے کے امریکا اور برطانیہ میں رہنے والے چاروں بچوں نے اپنے والدین کی صحت کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، یہ دونوں افراد متعدد بیماریوں میں بھی مبتلا ہیں۔

(جاری ہے)

بچوں کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ طالبان سے ایک مرتبہ اور فوری درخواست ہے کہ ہمارے والدین کو رہا کر دیا جائے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور کہیں وہ ان کی تحویل میں ہی نہ مر جائیں۔

والدین نے گزشتہ 18 سالوں سے اپنی زندگیاں افغانستان کے لوگوں کے لیے وقف کر رکھی ہیں۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے اپنے بیان میں ان دونوں افراد کے لیے مناسب طبی دیکھ بھال تک رسائی کے بغیر ناقابل تلافی نقصان پہنچنے یا موت کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔غیرملکی میڈیا کے مطابق یہ برطانوی جوڑا گزشتہ 18 سال سے افغانستان میں رہ رہا تھا جو وہاں تعلیم اور تربیت کے منصوبے چلا رہا تھا۔ اس جوڑے نے 2021 میں طالبان کے واپس آنے کے بعد بھی افغانستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • افغان گلوکاروں کے لیے پاکستان امن، محبت اور موسیقی کی پناہ گاہ
  • افغانستان میں جیل میں قید برطانوی والدین کی موت کا خدشہ ہے، بچوں کی درخواست
  • پاکستان نے افغان طالبان کو تسلیم کرنے کی خبروں کو قیاس آرائی قرار دے کر مسترد کر دیا
  • طالبان حکومت تسلیم کرنے کی خبریں قیاس آرائی پر مبنی ہیں( ترجمان دفتر خارجہ)
  • دہشت گرد پناہ گاہوں پر تشویش، طالبان حکومت تسلیم کرنے کی خبریں قیاس آرائی: دفتر خارجہ
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی معاہدہ طے
  • پاک افغان معاہدہ طے، کن سبزی و پھلوں کی تجارت ہوگی، ٹیرف کتنا؟
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی معاہدہ، دستخط بھی ہوگئے
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی معاہدہ
  • پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات مزید مضبوط بنانے پر اتفاق