پاک بھارت کشیدگی؛ سرحد پار شادیاں کرنے والے جوڑے غیر یقینی مستقبل سے دوچار
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
لاہور:
پاک بھارت سرحد کے دونوں جانب زیادہ تر افراد کے لیے دو طرفہ کشیدگی معمول کی بات بن چکی ہے، جس پر وہ یا تو محض تجسس کا مظاہرہ کرتے ہیں یا پھر تفنن طبع سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ایک مخصوص طبقہ یعنی سرحد پار شادیوں میں بندھے جوڑے، ایسے حالات میں گہرے جذباتی صدمے سے دوچار ہو جاتے ہیں، کیونکہ سرحد کی بندش ان کے لیے اپنے پیاروں سے بچھڑنے کا سبب بن جاتی ہے۔
حال ہی میں، بھارتی غیر قانونی زیرِ قبضہ جموں و کشمیر میں سیاحوں پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد، بھارتی حکومت نے پاکستان کے خلاف شدید جوابی اقدامات کا اعلان کیا، جن میں سرحد کی بندش اور یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے کی معطلی شامل تھی۔
جہاں سوشل میڈیا پر بھارتی اقدامات کو طنز و مزاح کا نشانہ بنایا گیا، وہیں حقیقت یہ ہے کہ ان اقدامات کا سب سے زیادہ بوجھ ان ہزاروں جوڑوں پر پڑا جو سرحد پار شادیاں کر چکے ہیں۔
افشاں سیف، جو بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں مقیم ہیں اور اصل میں کراچی سے تعلق رکھتی ہیں، نے بتایا کہ ’’میرے نانا شدید بیمار ہیں اور اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ میں اپنے خاندان کے ہمراہ مئی میں کراچی جانے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن حالیہ صورتحال کے باعث یہ ممکن نظر نہیں آتا۔‘‘
اسی طرح، نصیب اختر بلال، جن کی شادی کراچی میں ہوئی مگر وہ نئی دہلی، بھارت سے تعلق رکھتی ہیں، نے کہا کہ حالیہ کشیدگی کے باعث ان کے اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے ملاقات کے خواب بھی ماند پڑ گئے ہیں۔
نصیب نے شکوہ کیا کہ ’’اب میں صرف ویڈیو کالز پر اپنے خاندان سے بات کر سکتی ہوں۔ برسوں ہوگئے ہیں کہ بہن بھائیوں سے ملاقات نہیں ہو سکی۔‘‘
نئی دہلی کے رہائشی محمد سیف نے بتایا کہ ان کی شادی کراچی کی ایک خاتون سے ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ سرحد پار شادیوں کی پیچیدگیاں انہیں اس وقت شدت سے محسوس ہوئیں جب کووڈ-19 کی وبا کے دوران ان کی بیوی کراچی میں اپنے والدین کے پاس تھیں اور سرحد کی بندش کے سبب دونوں کی ملاقات ممکن نہ رہی۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ’’میں ذاتی طور پر کم از کم 30 ایسے جوڑوں کو جانتا ہوں جن کی سرحد پار شادیاں ہوئی ہیں۔ پاکستانی خواتین کو ’نو آبجیکشن ریٹرن ٹو انڈیا‘ ویزا جاری کیا جاتا ہے، مگر جیسے ہی حالات کشیدہ ہوتے ہیں، ان کے لیے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔‘‘
بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر اور امور خارجہ کے ماہر عبدالباسط کے مطابق، سرحد پار رشتے برصغیر کی ایک حقیقت ہیں جسے نظر انداز کرنا دانشمندی نہیں۔
عبدالباسط نے وضاحت کی کہ ’’اگر ہم ان رشتوں کے وجود کو تسلیم نہ کریں تو ہم درحقیقت دونوں ممالک کے درمیان امن کے ایک قدرتی پل کو تباہ کر دیں گے۔ ایسے جوڑوں کو شہریت، بچوں کے قانونی حقوق اور جائیداد کے معاملات میں پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ علیحدگی کی صورت میں بین الاقوامی دائرہ اختیار کی وجہ سے عدالتی کارروائیاں بھی مزید الجھ جاتی ہیں۔‘‘
لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر شبنم گل نے کہا کہ سرحد پار خاندان رکھنے والے افراد کو اکثر شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، خصوصاً ان کی حب الوطنی کے حوالے سے۔
انہوںنے کہا کہ ’’ایسے افراد کو دشمن ملک سے تعلقات رکھنے کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ بھارت میں ایسے لوگوں کو ’پاکستانی ایجنٹ‘ کہا جانا عام ہو چکا ہے۔ نتیجتاً ان جوڑوں کو ذاتی تحفظ، بچوں کی سلامتی اور مستقل رہائش کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ جب دو طرفہ تعلقات مزید بگڑتے ہیں تو ان کا ایک ملک میں رہنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ موجودہ صورتحال نہ صرف ریاستی سطح پر بلکہ سماجی سطح پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے انتقامی اقدامات نے عوام کے درمیان نفرت کو بڑھاوا دیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر گل کے مطابق اس نفرت نے سرحد پار جڑے خاندانوں کو مزید تنہا کر دیا ہے۔ ایسی صورت میں ذاتی تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ایک طرف اپنے ملک سے محبت برقرار رکھنی ہوتی ہے اور دوسری طرف شریک حیات کے وطن کے لیے پیدا شدہ منفی تاثر کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس تناؤ میں امن و مصالحت کی کوششیں تقریباً ناممکن ہو جاتی ہیں، کیونکہ جب فضا میں بداعتمادی اور دشمنی چھا جائے تو امن کی آوازیں دب جاتی ہیں۔
موجودہ حالات کے پیش نظر سفارتی ماہرین نے تجویز دی ہے کہ سرحد پار خاندانوں کے لیے ایک خصوصی ’’فیملی ویزا کارڈ‘‘ متعارف کرایا جائے، جس کے تحت ہنگامی صورتحال جیسے والدین کی علالت یا کسی قریبی عزیز کے انتقال کی صورت میں ویزا آن ارائیول کی سہولت دی جائے۔ اس کے علاوہ واہگہ اٹاری بارڈر پر ایک خصوصی کراسنگ پوائنٹ قائم کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے، جہاں مخصوص شرائط کے تحت خاندانوں کو ملاقات کی اجازت دی جا سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ سرحد پار کہ سرحد کے لیے
پڑھیں:
غربت کے باعث پہلی 2 شادیاں ناکام ہوئیں، اداکار شمعون عباسی کا انکشاف
معروف اداکار شمعون عباسی نے انکشاف کیا ہے کہ ان کی پہلی 2 شادیاں مالی مسائل کے باعث ختم ہوئیں اور اس میں ان کی سابقہ بیویوں جویریہ عباسی اور حمائمہ ملک کا کوئی قصور نہیں تھا۔
ایک انٹرویو میں شمعون عباسی نے کہا کہ ان کے اب بھی دونوں سابقہ بیویوں سے اچھے اور دوستانہ تعلقات قائم ہیں اور وقت کے ساتھ سب نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی طور پر الزامات لگے لیکن بعد میں سب نے تحمل سے سوچا اور ایک دوسرے کو معاف کیا۔
یہ بھی پڑھیے: رجب بٹ کی فہد مصطفیٰ پر تنقید، شمعون عباسی بھی میدان میں کود پڑے
اداکار نے بتایا کہ ماضی میں ان کے مالی حالات بہت خراب تھے یہاں تک کہ وہ کئی دن بھوکے رہے اور انہیں ہوٹل سے ادھار پر کھانا کھانا پڑتا تھا، اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب ادھار بند کر دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بسوں کی چھتوں پر سفر کیا، سخت غربت دیکھی لیکن ان کا یقین تھا کہ محنت کا صلہ ضرور ملے گا۔
شمعون عباسی کے مطابق اس وقت وہ نہ صرف خوشحال زندگی گزار رہے ہیں بلکہ ان کی سابقہ بیویاں بھی بہتر زندگی گزار رہی ہیں۔ انہوں نے جویریہ اور حمائمہ کی محنت اور کامیابی کو سراہا۔
خیال رہے کہ شمعون عباسی نے 1997 میں جویریہ عباسی سے شادی کی تھی جن سے ان کی ایک بیٹی عنزیلہ عباسی ہے۔ دونوں 2007 میں علیحدہ ہوگئے تھے۔ بعد ازاں 2010 میں انہوں نے حمائمہ ملک سے شادی کی جو 2013 میں ختم ہوگئی۔ اپریل 2023 میں انہوں نے تیسری شادی اداکارہ شیری شاہ سے کی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اداکار شادی شمعون عباسی غربت