خاک سے اٹھتے خواب: ایران و پاکستان کا اتحاد
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
کبھی کبھی تاریخ آہیں بھرتی ہے اوراس آہ میں، وقت کے ساحلوں پرلمبااورگہراایک دکھ رہتاہے جس میں اتناوسیع،اتناسب استعمال ہوتا ہےکہ سب سے زیادہ فصیح زبان والے بھی خاموش ہوجاتے ہیں۔یہ وہ آہ تھی جوایران کے جنوبی ساحل سے اٹھی تھی،جہاں شہید رجائی بندرگاہ ،جوکبھی تجارت اورقومیت کاقابل فخرسپاہی تھا،شعلے اوردھوئیں کے ستون کے نیچے گرگیا۔اس کا آغازسائرن سےنہیں ہوا،بلکہ غفلت کی خاموش آواز سے ہواایک چنگاری،نظرنہ آنے والی ،بےخوف، ذخیرہ شدہ آگ کےدل میں بسی ہوئی ہے۔ سوڈیم پرکلوریٹ،ایک نام جو شاید صرف جنگ میں تجارت کرنے والوں کیلئے جانا جاتا ہے،انتظارمیں بیٹھے تھے۔ جب بیدار ہواتواس نے سرگوشی نہیں کی بلکہ یہ گرجا۔
اس کے بعدآسمان تاریک ہوگیا۔ زمین، ایک بارسمندرکی ہواکواس نے چوما،پھرآگ تھوکنے لگی اوراس غیظ وغضب کے درمیان،ایک قوم کھڑی رہی،اس کی سانسیں غم اورکفرکے درمیان پھنس گئی،اس کی روح اپنے ہاتھ کی حماقت سے جھلس گئی۔ایک لمحے میں چالیس سے زیادہ جانیں لےلی گئیں ایک ہزارسےزائدزخمی ہوگئےجن میں درجنوں عمربھرکیلئے معذور ہوگئے، وہ مردجو مرنےکیلئےنہیں بلکہ اپنے خاندانوں کاپیٹ پالنے کیلئے کام کررہے تھے۔ وہ عورتیں جو آسمان کو خوف سے دیکھتی تھیں،اب ان کے بچوں کے خواب دھواں بن گئے ہیں۔ پھربھی،حقیقی تباہی تعداد میں نہیں ہے،بلکہ اس کے بعدہونے والی خاموشی میں ہے۔باپ کی خالی کرسی پر،ایک غم زدہ بندرگاہ کے اوپرسیاہ آسمان میں ان کا سب کچھ لٹ گیا۔ اس علم میں کہ یہ درد ٹالنے کے قابل تھاکہ حکمت کوپناہ دی گئی،وہ فرض ٹل گیا۔
ہم جانتے ہیں کہ دنیاکے افق پرکبھی کبھارایسے واقعات ظہورپذیرہوتے ہیں جونہ صرف انسانی جانوں کی ارزانی کانوحہ بن جاتے ہیں، بلکہ تہذیبوں کے جگرچاک کرتے ہوئے بین الاقوامی منظرنامے پرگہرے ارتعاشات بھی پیداکرتے ہیں۔ایران کی شہیدرجائی بندرگاہ پر حالیہ ہولناک دھماکہ بھی انہی سیاہ ابواب میں رقم ہوا، جس نے سوالات کے نئے بھنورمیں قوم کو ڈال دیاہے۔
فضاؤں میں دھواں بکھرتاہے،زمین پر تپتی چنگاریاں برس رہی ہیں،اورایک قوم اپنے زخمی خوابوں کے ساتھ حیرت و استعجاب اورحسرت میں گم ہے۔ایران کی عظیم تجارتی بندرگاہ شہید رجائی پرہونے والادھماکہ صرف ایک معمولی حادثہ نہیں،بلکہ ایک تہذیبی نقیب ہے،جوتدبرسے محروم حکمرانی کے نقائص کوعیاں کرتاہے۔بندرعباس کے ساحلوں پرگونجتی یہ قیامت،جس میں چالیس سے زائدجانیں نذرہوئیں اورہزاروں زخمیوں کاخون رائیگاں بہا،اس امرکی غمازی کرتی ہے کہ سائنس،طاقت اورترقی کی دوڑمیں انسانیت کوکس بے دردی سے قربان کردیاگیاہے۔
ایران کی سب سے بڑی تجارتی بندرگاہ، شہیدرجائی،ایک خوفناک دھماکے کی لپیٹ میں آگئی،جس میں چالیس سے زائدافراد جاں بحق اورایک ہزارسے زیادہ زخمی ہوئے۔ابتدائی تحقیق کے مطابق،یہ سانحہ بندرگاہ پرذخیرہ شدہ بیلسٹک میزائلوں کے ٹھوس ایندھن،خاص طورپرسوڈیم پرکلوریٹ،کی نامناسب سنبھال کے نتیجے میں پیش آیا۔یہ واقعہ نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہے بلکہ ایران کی معیشت اوربین الاقوامی وقار کیلئے ایک کاری ضرب بھی ہے۔عالمی برادری نے تعزیتی پیغامات بھیجے اورامدادفراہم کی،لیکن سوال اب بھی برقرارہے کہ اس حساس موادکوعوامی مقام پر ذخیرہ کرنے کی جسارت کیسے ہوئی۔اس حادثے نے ایران کے جوہری مذاکرات پربھی گہرے سائے ڈال دیئے ہیں اور معیشت کی نازک ڈور کو مزید کمزورکردیاہے۔
ایران کی سب سے بڑی تجارتی شہیدرجائی بندرگاہ،جوخلیج فارس کے ساحل پرواقع ہے۔یہ ملک کی80فیصد درآمدات اور برآمدات کامرکز ہے،جس میں تیل،خوراک،اورصنعتی سامان شامل ہیں۔اس کی جغرافیائی پوزیشن اسےبین الاقوامی تجارت کیلئےاہم بناتی ہے۔ شہید رجائی بندرگاہ، بندرعباس کے پہلومیں،ہمیشہ سے ایران کے تجارتی بیڑے کامرکزی ستون رہی ہے۔تاریخی طورپریہ خطہ،قدیم زمانے میں بندر سیران کے نام سے معروف،تجارتی قافلوں اور سمندری راستوں کاسنگم رہاہے۔ جدید دور میں، 1980ء کی دہائی میں، ایران-عراق جنگ کے دوران بھی یہ بندرگاہ ایرانی معیشت کی شہ رگ بنی رہی،جب دیگر راستے جنگ کی لپیٹ میں تھے۔ایران نے شہیدرجائی بندرگاہ کوجدیدخطوط پراستوار کرکے اسے عالمی تجارت کامرکز بنانے کاخواب دیکھامگرحالیہ دھماکہ اس خواب کی بنیادوں میں دراڑڈال گیاہے۔
دھماکاخطرناک کیمیائی موادکے ذخیرہ گاہ میں آگ لگنے کے بعدہوا،جس نے پورے علاقے کو تباہ کردیا۔ابتدائی رپورٹس میں اسے ’’حادثاتی‘‘قراردیاگیا،مگرتحقیقات جاری ہیں ۔ انتہائی المناک واقعہ میں ہلاکتیں زیادہ تربندرگاہ کے ملازمین،فائر فائٹرزاورقریبی رہائشیوں میں ہوئیں۔ زخمیوں میں سے کئی کی حالت تشویشناک ہے،جس سے طبی سہولیات پر دباؤبڑھ گیا ہے۔ یہ سانحہ ہمیں یاددلاتاہےکہ اقوام کی عظمت صرف عسکری قوت یااقتصادی ترقی سے نہیں بلکہ تہذیبی بلوغت،احتیاط اور دانشمندانہ حکمرانی سے مشروط ہوتی ہے۔شہیدرجائی کاحادثہ اس تلخ تاریخی حقیقت کوایک بار پھر آشکار کرتاہےکہ جب طاقت کے زعم میں حکمت اور تدبر قربان ہوجائیں توعظیم ترین تعمیرات بھی لمحوں میں مٹی کاڈھیربن سکتی ہیں۔
بین الاقوامی برادری نے تعزیتی بیانات بھیجے، فائرفائٹنگ جہازروانہ کیے گئے،مگرسوال اپنی جگہ قائم ہے کیاصرف تعزیت کافی ہےجب عقل، دانش اوراحتیاط خودکشی پرآمادہ ہوں ؟ یہ سانحہ ہمیں یہ سبق دیتاہےکہ تہذیبیں صرف قوت کے بل پرزندہ نہیں رہتیں انہیں شعور، تدبراوراصولوں کے خمیرسے سینچا جاتا ہے۔ شہید رجائی کے زخمی ساحل آج تاریخ سے یہی صدائیں دے رہے ہیں۔ ایرانی حکومت کاکہناہےکہ کیمیائی موادکی غلط ذخیرہ کاری سے آگ پھیلی، جودھماکے کاباعث بنی۔یہ موادصنعتی یافوجی مقاصد کیلئے استعمال ہوتاہے۔ سوشل میڈیاپردعوے ہیں کہ چین سے درآمد شدہ راکٹ ایندھن بندرگاہ پرذخیرہ کیاگیاتھا،جو ایران کے فوجی اتحادوں کی طرف اشارہ کرتاہے۔ایرانی شہریوں نے سوشل میڈیاپر سوال اٹھائے ہیں کہ اتناخطرناک مواد آبادی کے قریب کیوں رکھا گیا؟ ایرانی عوام حکومت کی شفافیت اورانتظامی کوتاہیوں کونشانہ بنارہے ہیں۔ اقتصادی بحران کاخطرہ پیداہوگیا ہے کیونکہ اس حادثے کے بعدبندرگاہ کی عارضی بندش سے خوراک اورادویات کی سپلائی متاثر ہوسکتی ہے،خاص طورپرچونکہ ایران پہلے ہی معاشی پابندیوں کے زیرِاثرہے۔تاہم ہنگامی اقدامات کا اعلان کرتے ہوئے فائرفائٹرز اور ریسکیوٹیموں کو فوری طورپرتعینات کیاگیاہے، مگر آگ کے پھیلائو کی رفتارنےصورتحال کو کنٹرول سے باہر کردیاہے۔
بین الاقوامی انٹیلی جنس اداروں،بالخصوص ایمبری انٹیلی جنس کے انکشافات نے اس حادثے کومحض ایک تکنیکی غفلت کا نتیجہ ماننے سے انکارکیاہے۔ان کے مطابق،حادثے سے قبل وہاں وہ مخصوص کنٹینرزموجودتھےجن میں بیلسٹک میزائلوں کیلئے استعمال ہونے والا ٹھوس راکٹ ایندھن ذخیرہ کیاگیاتھا۔یہ’’سوڈیم پر کلوریٹ‘‘ پر مبنی مواد،جوکہ انتہائی آتش گیر ہے، دراصل مارچ2025ء میں ایران کےپرچم بردارایک جہاز کے ذریعے اتاراگیاتھا۔یہ انکشاف اس سانحے کو محض مقامی غفلت کانہیں بلکہ بین الاقوامی سیاست اوراسلحہ کی دوڑ کے خطرناک باب کاحصہ بناتاہے۔وہ مثل بیساختہ ذہن میں آتی ہے کہ:
جوآگ لگائے گا اپنے آشیانے کو
اسی کی دہکتی چتا ہوگی سامان عبرت
ایمبری انٹیلی جنس کی رپورٹ کے مطابق بندرگاہ پربیلسٹک میزائلوں کیلئے مخصوص ٹھوس راکٹ ایندھن کاذخیرہ تھا،جسے نہایت غیرمحتاط اندازمیں رکھاگیا۔سوڈیم پر کلوریٹ ،جوآتش کاایساناچ دکھاسکتاہے کہ آسمان کے چراغ بھی جھرجھری لے لیں،وہاں پڑا سلگتا رہااورآخر کاراپنی ہلاکت خیزطبعیت کامظاہرہ کرگیا۔یوں محسوس ہوتاہے جیسے وقت کے صفحے پر ایک بار پھروہی کہانی لکھی جارہی ہے جس میں غرورِ طاقت کاانجام عبرت کا سامان بن جاتاہے۔ محاورہ ہے:جنہیں چاہے ہوائے دہر، بنادے خاک کاذرہ۔
جنوبی ایران کے ساحلوں پرواقع شہر بندر عباس کی یہ بندرگاہ،جوایرانی معیشت کا دھڑکتا ہوادل تصورکی جاتی ہے،وہاں یہ ہنگامہ خیزلمحے میں،آتش وآہن کی لپیٹ میں آگئی۔ دھماکہ، جیساکہ ابتدائی تحقیقات سے مترشح ہوتا ہے، بندرگاہ کے اس گوشے میں برپاہواجہاں خطرناک کیمیائی موادکاذخیرہ موجودتھا۔المیہ یہ ہےکہ اس موادکی حفاظت میں وہ احتیاطی تدابیر روانہیں رکھی گئیں جوایک باشعوراورسائنسی ترقی یافتہ قوم سے متوقع تھیں۔
کیاایران بندرگاہ کوفوجی مقاصدکیلئے استعمال کررہاتھا؟اگرہاں،تویہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہوسکتی ہے۔ خطرناک مواد کو محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرنے کیلئے بین الاقوامی معیارات موجودہیں۔ایران نے ان پرعمل کیوں نہیں کیا؟انتظامی کوتاہیوں کاجواب بھی دینا ہوگا۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیاحادثے کوایران کی داخلی سیاست یابیرونی دباؤ کیلئے استعمال کیاجاسکتاہے؟ مثال کے طورپر،اصلاح پسندوں اورقدامت پسندوں کے درمیان تنائوکی خلیج بھی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بقول شاعر:
یہی اندازہیں قیصروں کے،یہی اطوارچلے آتے ہیں۔(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رجائی بندرگاہ کیلئے استعمال بین الاقوامی شہید رجائی بندرگاہ پر نہیں بلکہ ایران کے ہیں بلکہ ایران کی
پڑھیں:
اسرائیل کا ایران پر حملہ عالم اسلام کے منہ پر طمانچہ ہے،اتحا د ناگزیر ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) اسرائیل کا ایران پر حملہ عالم اسلام کے منہ پر طمانچہ ہے، اتحاد ناگزیر ہے‘ اسرائیل کا ایران حملہ امریکا، فرانس، برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک کی مشترکہ کارروائی ہے،ایران کے بعد اگلا نمبر پاکستان، ترکیہ کا ہے‘ استعماری طاقتیں وسائل پر قبضے کے لیے مختلف سازشوں سے امت مسلمہ کے اتحاد کو سبوتاژ کرتی ہیں۔ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر صابر ابو مریم سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان،سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری اور پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا ایران پر اسرائیل حملے کو روکنے کے لیے عالم اسلام کو متحد ہونے کی ضرورت ہے؟‘‘ڈاکٹر صابر ابو مریم نے کہا کہ اسرائیل کا ایران حملہ امریکا، فرانس، برطانیہ اور یورپی یونین کے
ممالک کی مشترکہ کارروائی ہے اور اس کا جواب بھی عالم اسلام اور خاص طور سے پاکستان، ترکیہ اور ملائیشیا کو دینا ہو گا‘ اگر ایسا نہ ہوا تو ایران کے بعد پاکستان اور ترکیہ اسرائیل کا اگلا ہدف ہوگا‘ اتحاد اور وحدت کا موضوع ایک ایسا حساس اور اہم ترین موضوع ہے کہ موجودہ دور میں اس پر جتنی زیادہ لب کشائی اور مضامین تحریر کیے جائیں وہ کم ہیں‘ اتحاد حقیقت میں کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے۔ بنی نوع انسانیت کی تاریخ میں ہمیشہ سے اتحاد کا عنصر موجود رہا ہے لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اتحاد اور وحدت ایک حقیقت ہے‘ یہ حقیقت کسی نہ کسی صورت میں ہر دور میں موجود رہی ہے۔ جب بھی عالم اسلام یا مسلمانوں کے مابین اتحاد کی بات کی جاتی ہے توکچھ مقامات سے ایسی آوازیں بلند کی جاتی ہیں کہ جن کا مقصد اس اتحاد کی ضرورت کو کمزور یا غیر ضروری شمار کرنا ہوتا ہے۔ یعنی بعض مخالف قوتیں جن میں امریکا، اسرائیل اور دیگر مغربی حکومتیں شامل ہیں، ہمیشہ سے مسلمانوں کے باہمی اتحاد کو سبوتاژ کرنے اور اس امر میں مانع ہونے کے لیے اپنے ذرائع ابلاغ سے اس موضوع پر مختلف حیلے بہانوں سے حملہ آور ہو جاتی ہیں۔ یعنی مغربی حکومتوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اتحاد کی کیا ضرورت ہے؟ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو مغربی دنیا کی تمام ظالم و سفاک حکومتیں جو کفر کے نظام پر قابض ہیں، سب کی سب آپس میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد ہیں۔ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ اسرائیل کا حملہ صرف ایران نہیں پورے عالم اسلام کے منہ پر طمانچے کی مانند ہے ‘ان حالات میں جی ہاں، عالم اسلام کے اتحاد کا وقت آگیا ہے‘ موجودہ حالات میں امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز اور مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد اور یکجہتی بہت ضروری ہے‘ مسائل کا حل باہمی تعاون اور اتحاد میں ہی مضمر ہے‘ عالم اسلام اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، جن میں سیاسی عدم استحکام، معاشی مسائل، دہشت گردی اور اسلاموفوبیا شامل ہیں‘ ان مسائل کا حل صرف اور صرف اتحاد اور باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے‘ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مسلمان متحد ہوئے ہیں، انہوں نے کامیابی حاصل کی ہے اور جب بھی وہ منتشر ہوئے ہیں، انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عبدالباسط نے کہا کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کر کے بتایا ہے کہ وہ اس بات کی اجازت کسی مسلم ملک کو نہیں دے گا کہ وہ اسر ائیل کے سامنے کھڑا ہو اور اسی لیے موجودہ دور میں عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا اور مشترکہ مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا‘ اس تناظر میں ایران کو بھی دیکھنا ہو گا کہ جنوبی ایشیا میں بھارت نہیں پاکستان ایران کا دوست ہے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسلامی ممالک اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر باہمی تعاون اور ہم آہنگی کو فروغ دیں‘ اس کے علاوہ نوجوان نسل کو بھی اتحاد کی اہمیت سے آگاہ کرنا چاہیے اور انہیں ایک متحد امت کے تصور کو آگے بڑھانے کی ترغیب دینی چاہیے۔عالم اسلام کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ اتحاد سے ہو کر گزرتا ہے لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ امت مسلمہ متحد ہو کر اپنے مسائل کا حل تلاش کرے اور ایک روشن مستقبل کی جانب گامزن ہو۔