پاک بھارت جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتے، جنگ ہوئی تو کنٹرول سے باہر ہو جائیگی، امریکی کانگریس مین
اشاعت کی تاریخ: 4th, May 2025 GMT
پاک بھارت جنگ کا سوچ بھی نہیں سکتے، جنگ ہوئی تو کنٹرول سے باہر ہو جائیگی، امریکی کانگریس مین WhatsAppFacebookTwitter 0 4 May, 2025 سب نیوز
نیویارک: امریکی کانگریس کے دو ریپبلکن اراکین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور امریکا کو ایسی کسی بھی صورتحال کو روکنے میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیویارک کے ایک ہوٹل میں پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تقریب میں امریکی رکنِ کانگریس لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) جیک برگمین اور لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) کیتھ سیلف مہمانِ خصوصی تھے جبکہ پاکستانی امریکن تنویر احمد سمیت متعدد نمایاں شخصیات شریک ہوئیں۔ شرکاء نے مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ واقعے کے بعد بھارت کی جانب سے پیدا کی گئی کشیدگی، جنگی جنون اور پاکستان پر عائد کیے گئے بے بنیاد الزامات کی طرف کانگریس اراکین کی توجہ دلائی۔
کیتھ سیلف، جو امریکا کی اسپیشل فورسز کے نیوکلیئر یونٹ میں کمانڈر رہ چکے ہیں، نے کہا کہ وہ جنگ کے اسٹریٹیجک پہلوؤں کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایک بار ایٹمی جنگ شروع ہو جائے تو اسے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، یہ ایک ایسا راستہ اختیار کرلیتی ہے جس کا اندازہ کوئی بھی نہیں لگا سکتا۔‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اور ان کے درمیان جنگ کا تصور بھی خوفناک ہے۔
جیک برگمین نے کہا کہ دنیا میں موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے امریکا کو اپنے ہم خیال آزاد ممالک کے ساتھ مل کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ دنیا کو ناکامیوں سے بچایا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں انسان بستے ہیں، جو اپنی غلطیوں سے اسے تباہی کے دہانے پر لے آتے ہیں، لہٰذا ایسے وقت میں قیادت اور ہوش مندی کی ضرورت ہے۔
تقریب میں پاکستانی امریکن تنویر احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت قیام پاکستان سے اب تک کئی فالس فلیگ آپریشنز میں ملوث رہا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پہلگام واقعہ کے محض 10 منٹ بعد ایف آئی آر درج کر لی گئی، حالانکہ جائے وقوعہ سے قریبی پولیس اسٹیشن ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے حسبِ روایت بغیر کسی ثبوت کے الزام پاکستان پر دھر دیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایسے ماحول میں امریکا کیا کردار ادا کرے گا؟
شرکاء نے توقع ظاہر کی کہ امریکا بھارتی جنگی ماحول کو ختم کرنے کے لیے مداخلت کرے گا تاکہ جنوبی ایشیا میں امن قائم رکھا جا سکے۔ کانگریس اراکین نے یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور اسے متعلقہ فورمز پر اجاگر کیا جائے گا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرخلیج تعاون کونسل کا پاکستان اور بھارت سے فوری مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ خلیج تعاون کونسل کا پاکستان اور بھارت سے فوری مذاکرات شروع کرنے کا مطالبہ پاک بھارت کشیدگی؛ وزیر داخلہ آج خلیجی ممالک کے دورے پر روانہ ہوں گے پہلگام فالس فلیگ؛ انتہا پسند ہندوؤں کی جنونیت کیخلاف نہتی لڑکی ڈٹ گئی پہلگام فالس فلیگ: عوام کا پاک فوج سے اظہارِ یکجہتی پہلگام فالس فلیگ: مودی اور بھارتی میڈیا کا لاشوں پر ووٹ لینے کا کھیل بے نقاب پاک بھارت کشیدگی: وزیر اطلاعات اور فوجی ترجمان آج سیاسی رہنماؤں کو اہم بریفنگ دیں گےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پاک بھارت بھی نہیں جنگ کا
پڑھیں:
اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے: خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں سب کچھ امریکا کی مرضی سے ہو رہا ہے اور کسی کو بھی اس بارے میں غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ انہوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اپنی غلط فہمیاں دور کرلیں تاکہ صورتحال کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔خواجہ آصف نے واضح کیا کہ اسرائیل امریکا کا نہیں بلکہ امریکا اسرائیل کا پراڈکٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے قطر پر امریکا کی مرضی سے حملہ کیا ہے اور اب دوست اور دشمن میں تمیز کرنے کا وقت آ چکا ہے۔وزیر دفاع نے خبردار کیا کہ قطر پر دوبارہ حملہ ہوگا اور جو بھی تل ابیب سے حکم آئے گا، اسی کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا ورنہ ایک کے بعد ایک وکٹ گرتی جائے گی۔خواجہ آصف نے مزید کہا کہ مغرب کے اندر سے جو ردعمل سامنے آ رہا ہے، وہ اسرائیل کے لیے زیادہ خطرناک ہے اور یہ صورتحال اسرائیل کی سیکیورٹی کے لیے چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے تمام مسلمانوں کو متحد رہنے کی تاکید کی۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمیں سمجھداری سے کام لینا ہوگا اور صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اپنے فیصلے کرنے ہوں گے تاکہ خطے میں استحکام برقرار رکھا جا سکے۔