Daily Ausaf:
2025-05-13@18:24:48 GMT

پیشاوری کی عزیمت سے مُودی کی ہزیمت تک!

اشاعت کی تاریخ: 13th, May 2025 GMT

عبدالرحمٰن پیشاوری تو عقل وخرد سے ماوریٰ دیارِ عشق وجنوں کا باشندہ تھا۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں مال ودولتِ دُنیا اور رشتہ وپیوند کے بُتانِ وہم وگماں کو توڑ کر ملّت میں گُم ہوگیا۔ پشاور سے علی گڑھ اور علی گڑھ سے قسطنطنیہ تک، عشق کی ایک ہی جست نے سارا قصّہ تمام کردیا۔ بھرپور جوانی کے تیرہ برس ترک بھائیوں کی نذر کرنے کے بعد، قسطنطنیہ کی ایک گلی کو اپنے لہو سے سیراب کرتا ہوا، اُسی کی خاک اوڑھ کر ہمیشہ کی نیند سوگیا۔ شاید اُس کی ایک مجبوری بھی تھی۔ اُس کا کوئی وطن تھا نہ آزاد سرزمین جہاں وہ آزادی کے احساس سے سرشار، بھرپور سانس لے سکتا۔ سو اُس نے ہند کو خیرباد کہا اور بلقان کے معرکہ زاروں کو نکل آیا۔ میں پیشاوری کا آتشناک جذب وجنوں کہاں سے لائوں؟ اور پیشاوری کے بَرعکس میرے پاس تو اپنا پاکستان بھی ہے۔ وہ پاکستان جس کے لئے میں عبدالرحمٰن ہی کی سرمستی کے ساتھ لڑ سکتا ہوں۔ مَرسکتا ہوں۔ اور اس کی خاکِ پاک اوڑھ کر سکون کی نیند سوسکتا ہوں۔
پروگرام کے مطابق مجھے 7 مئی کو استنبول سے پاکستان روانہ ہونا تھا۔ ترک ائیر لائنز کی پرواز میں سیٹ بُک تھی کہ یکایک نریندر مودی بیچ میں آ ٹپکا۔ سارا پروگرام اُتھل پُتھل ہوگیا۔ پاکستان جانے والی پروازوں کے پَرکٹ گئے۔ اُدھر مُودی کسی احمقانہ خواب کی تعبیر تراشنے پاکستان پر چڑھ دوڑا۔ میرا اضطراب بڑھنے لگا۔ بے کلی میں اضافہ ہونے لگا۔ راتیں بے خواب اور دِن بے چین رہنے لگے۔ اس سب کچھ کے درمیان میرے دل ودماغ میں اِس یقین کی شمع ضیا پاش رہی کہ اللہ کے فضل وکرم سے ہماری مسلح افواج کسی بھی مہم جُوئی کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔
ایک شام یکایک گھنے بادل چھا گئے۔ پھر بارش برسنے لگی۔ ٹھنڈی ہوا نے سردی میں اضافہ کردیا۔ میں اپنے ہوٹل کی لابی میں، بڑی سی کھڑکی کے قریب آ بیٹھا اور استنبول کی بارش دیکھنے لگا۔ اچانک میرے اندر بھی رم جھم ہونے لگی۔ ایک عجیب سے خیال نے انگڑائی لی۔میں اُس شخص کی سوسالہ برسی کی تقریب میں شرکت کے لئے یہاں آیا، جو ترک سرزمین کے تحفظ اور ترکوں کی آزادی کی جنگ لڑنے، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں آ گیا تھا۔ اور آج میری سرزمین ایک اوباشِ کوچہ وبازار کی بدمَست رعونت سے جنگ آزما ہے اور میں پاکستان سے کوئی چار ہزار کلومیٹر دُور، آبنائے باسفورس کے ساحلوں پہ پھیلے استنبول میں پڑا ہوں۔ چاہے میں بھلے نہ لڑتا، بھلے توپ وتفنگ نہ چلاتا، بھلے فائٹر جیٹ نہ اڑاتا، بھلے میزائل نہ برساتا، لیکن میں پاکستان میں تو ہوتا۔ ایک بار منفرد خطاط اور معروف نقاش، اسلم کمال (اللہ اُسے جنت الفردوس میں راحتیں عطا فرمائے) نے اپنا ایک خوبصورت شعر مجھے سنایا تھا ۔
راستہ دیتی نہ تھی ٹھنڈی ہوا اُس شہر کی
توڑ کر نکلا ہوں زنجیرِ وفا اُس شہر کی
استنبول کی ٹھنڈی ہوا مجھے یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں دے رہی تھی۔ وفا کے اُس بندھن کو توڑتے ہوئے بھی حیا آتی تھی جس کے ہر حلقۂِ زنجیر میں عبدالرحمٰن پیشاوری کا نشیمن تھا۔ بارش تیز اور اُداسی گہری ہونے لگی تو میں اپنے کمرے میں آ بیٹھا۔ اپنی بہادر مسلح افواج کی پیشہ ورانہ سبقت اور ضرب ہائے کاری کی خبریں، میری اداسی کے اندھیروں میں ماہ وانجم کی طرح چمکتی دمکتی رہیں۔
وہ لمحہ مسرت آمیز سکون اور فتح مند آسودگی کا تھا جب استنبول میں پاکستان کے قونصل جنرل، نعمان اسلم کے ساتھ لنچ کرتے ہوئے خبر آئی کہ ’سیز فائر‘ کا اعلان ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ وطنِ عزیز کو ہر آزمائش سے محفوظ رکھے اور آپڑے تو اِسی طرح فائز وکامران ٹھہرائے۔
کیا رُسوائی اور ہزیمت میں لَت پَت اِس یورشِ لاحاصل کے بعد بھارت میں خوداحتسابی کی کوئی سنجیدہ مشق ہوگی؟ بھارت، نفع نقصان پر گہری نظر رکھنے والے کھاتہ داروں کا ملک ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ فریب اور جھوٹ کی بنیاد پر جنگی جنون بھڑکانے، ماحول میں بارودپاشی کرنے اور اپنی جنتا کے سطحی جذبات کو ہوا دینے کے بعد پاکستان کو ترنوالہ سمجھتے ہوئے رات کی تاریکی میں حملہ آور ہونے کے فوائد اور نقصانات کا ٹھنڈے دل ودماغ سے جائزہ لیا جائے گا۔ بہی کھاتہ کھول کر حساب لگایا جائے گا کہ کیا کھویا اور کیا پایا؟ پاکستان سے پانچ گنا زیادہ جنگی بجٹ اور اسی نسبت سے بھاری بھرکم اسلحہ خانہ رکھنے کے باوجود کیا بھارت کسی بھی مقصد میں کامیاب رہا؟ کسی بھی بحری، فضائی اور زمینی محاذ پر اُسے سبقت ملی؟ پہل کرنے کے باوجود کوئی ایک بھی ایسا کارنامہ کر دکھایا جسے وہ تحفے کے طور پر اپنی جنتا کے ’حضور‘ پیش کرسکے؟
اِس کے برعکس اُسے جنگی ہی نہیں، سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر نریندر مودی نامی شخص، اپنی سفاکانہ سرشت کو ایک طرف رکھ کر، گیان دھیان کے کسی خاص لمحے میں، آسن جما کر کسی بھگوان کی مورتی کے سامنے بیٹھ جائے، ترازو کے ایک پلڑے میں ’’آپریشن سَندور‘‘ اور دوسرے میں ’’بُنیان المرصوص‘‘ رکھ کر، ڈنڈی مارے بغیر، خود تراشیدہ جنگ کے اثرات و نتائج کا بے لاگ جائزہ لے تو اُسے لگی لپٹی رکھے بغیر، اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ واضح، دوٹوک اور غیرمبہم پیغام دینا چاہیے کہ ’’کچھ بھی کرلینا، آئیندہ پاکستان سے پنجہ آزمائی کا خواب بھی نہ دیکھنا۔‘‘
مُودی کے لئے ایک لمحۂِ فکریہ یہ بھی ہے کہ وہ اس بے سروپا مہم میں تنہا دکھائی دیا۔ کسی بھی ملک نے اُس کے پہلگام جھوٹ پر یقین کیا نہ اس کے جنگی جنون کو سراہا۔ آج جب وہ اپنے گلے میں اپنی ہی بانہیں ڈالے سیاپا کر رہا ہے تو کوئی پُرسا دینے والا بھی نہیں۔ پاکستان کے دوست ڈٹ کر اُس کے ساتھ کھڑے رہے اور تو اور، مُودی کے اپنے دوست ٹرمپ کے دیس سے بھی ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا نہیں آیا۔ جس کشمیر کو مودی نے قصّہ پارینہ سمجھ لیا تھا، اُسے ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ نے حیات نو دے دی ہے۔ ’’کوئی رسوائی سی رسوائی ہے۔‘‘
پاک بحریہ کو اپنا ہُنرآزمانے کا موقع ہی نہ ملا۔ ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے فضائیہ کی درخشندہ تاریخ میں ایک ایسے نئے تابناک باب کا اضافہ کیا ہے جو برسوں پاکستانیوں کا لہو گرماتا رہے گا۔ حافظ سید عاصم منیر نے ایمان ویقین کی جس پختگی اور جذبۂِ جہاد کی جس روحانی حرارت کے ساتھ دفاعِ وطن کے مقدس مشن کی قیادت کی اور جس درجۂِ کمال کی پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ دشمن کو دھول چاٹنے پر مجبور کردیا، اُسے برسوں یاد رکھا جائے گا۔دفاعی معرکے کو ’’بنیان المرصوص‘‘ کی قرآنی اصطلاح کا نام بھی سیّد عاصم منیر نے دیا جس نے اپنے معنی ومفہوم کی کامل صداقت کے ساتھ واقعی پوری قوم کو سیسہ پلائی دیوار بنادیا۔
وزیراعظم شہبازشریف کو بھی خراجِ تحسین کہ اُن کی سیاسی فراست نے عسکری حکمت کاری سے ہم آہنگ رہتے ہوئے نہایت دانش کے ساتھ اس امتحان کا سامنا کیا۔ دوست بنانے کے فن میں اُن کی مہارت نے، پاکستان کو تنہا نہیں ہونے دیا۔ اُن کے گہرے رابطوں اور مضبوط رشتوں نے ہماری دفاعی صلاحیت کو نئے حوصلہ افزا پہلوئوں سے آشنا کیا ہے۔ کیڑا کار کہتے ہیں کہ نوازشریف کیوں نہیں بولا؟ کوئی بُغض کے مارے اِن کیڑا کاروں کو بتائے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خوف سے لے کر جے ایف 17 تھنڈر کی گھن گھرج تک کون بول رہا تھا؟ اور پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے والے دوست راہنمائوں کے ساتھ تدبر، فراست اور گہری یگانگت والی سفارت کاری میںکس کا طویل تجربہ کلام کر رہا تھا؟

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ٹھنڈی ہوا کے ساتھ کسی بھی

پڑھیں:

کوئی بھارتی پائلٹ پاکستان کی حراست میں نہیں ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ کوئی بھارتی پائلٹ پاکستان کی حراست میں نہیں ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے وائس ایڈمرل بحریہ رب نواز اور ایئروائس مارشل  اورنگزیب احمد کے ہمراہ مشرکہ پریس کانفرنس کی۔

صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ کوئی بھارتی پائلٹ پاکستان کی حراست میں نہیں ہے، سوشل میڈیا پر پھیلنے والی ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے جنگ بندی کی درخواست نہیں کی بلکہ بھارت نے امریکا سے درخواست کی تھی اور یہ خواہش بھی بھارت ہی کی تھی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ مسلح افواج چوکس اور تیار ہیں اور دوبارہ کسی بھی جارحیت یا مہم جوئی کی صورت میں اس سے زیادہ بھرپور جواب دیں گی۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کا پاکستان پر کوئی بڑا مالی اثر نہیں پڑے گا،وزیرخزانہ
  • انڈیا کے ساتھ حالیہ لڑائی کا پاکستان پر کوئی بڑا مالی اثر نہیں پڑے گا.وزیرخزانہ
  • لاہور: پلاسٹک بیگ مہم جاری
  • مودی کی تقریر ہارے ہوئے شخص کی تھی، کامیابی کا کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے، عرفان صدیقی
  • پاک بھارت کشیدگی سے معیشت پر کوئی اثر نہیں پڑا: وزیر خزانہ
  • کوئی بھارتی پائلٹ پاکستان کی حراست میں نہیں ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • بھارت کو ہزیمت اٹھانا پڑی، پانی کے معاملےپربھی ایساہی جواب دیاجائےگا : رانا ثناءاللہ
  • ہزیمت آمیز شکست کے بعد مذاکرات پر آمادہ بھارت جنگ بندی شرائط سے پیچھے ہٹنے لگا
  • ڈپلومیٹک فرنٹ پر اس بار دنیا بھارت کے ساتھ نہیں تھی، شہباز رانا