معدے کے امراض سے بچاؤ کی تدابیر
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
صحت مند زندگی کا حصول اتنا مشکل نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔ جدید دور نے ہمیں فطری زندگی، طرز عمل اور سادہ خوراک سے دور کر دیا ہے، جو بیماریوں کی بنیادی وجہ ہے۔ عصر حاضر میں تن آسانی بھی مختلف امراض کا سبب بن رہی ہے۔
انسانی صحت اور تن درستی کا انحصار معدہ کی درستی پر ہوتا ہے۔ معدے کو باورچی کا درجہ حاصل ہے۔ جس طرح گھر بھر کے افراد کو انواع اقسام کے کھانے باورچی مہیا کرتا ہے با لکل اسی طرح پورے بدنِ انسانی کی تمام تر غذائی ضروریات کا اہتمام اور خیال بھی معدہ رکھتا ہے۔ ہم جو کچھ بھی کھاتے یا پیتے ہیں اسے معدہ ہی دیگر جسمانی اعضاء تک پہنچاتا ہے۔ کھائی جانے والی غذا پیغامِ شفا بھی ہوتی ہے اور باعثِ امراض بھی۔ یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین غذا کے متوازن اور متناسب ہونے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر معدہ درست ہوگا تو تمام جسم بھی درست رہے گا۔ سمجھ دار معالجین بھی معدے کی درست کارکردگی پر زور دیتے ہیں۔
معدے کے امراض میں گیس، تبخیر، بد ہضمی، تیزابیت، السر (معدے کی سوزش) معدے کادرد اور بھوک نہ لگنا وغیرہ شامل ہیں۔ گیس اور تیزابیت کی علامات میں کھٹی ڈکاریں، معدے اور خوراک کی نالی میں جلن کا احساس، ہر وقت معدہ بھرا بھرا رہنا اور بھوک میں کمی واقع ہونا ہے۔ بسا اوقات معدے کی خرابی درد کی صورت میں بھی ظاہر ہونے لگتی ہے۔ معدے میں ہلکا ہلکا سا درد اور چبھن ورمِ معدہ کی جانب اشار ہ کرتے ہیںجو کہ بے توجہی اور لاپرواہی برتنے پر بعد ازاں معدے کا زخم بن کر شدید السر کا روپ دھار لیتے ہیں۔ جب معدہ خراب ہوتا ہے تو انتڑیاں،پتہ، تلی،گردے دل،جگر،دماغ اور اعصاب وغیر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
معدہ کھائی جانے والی خوراک کو ہضم کر کے غذائی اجزا تمام اعضا تک پہنجانے کا پابند ہے اور پورے انسانی جسم کی خوراک اور دیکھ بھال کی ذمہ داری معدہ کی ہے۔ معدہ کے تمام تر امراض کی وجہ اور سبب صرف اور صرف غیر متوازن خوراک اور بے اعتدالی ہے۔ بدنِ انسانی میں رونما ہونے والے تمام امراض بھی معدہ ہی سے پیدا ہوکر دیگر اعضا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔متواتر ناقص اور غیر متوازن و غیر معیاری غذا کے استعمال سے بیماریوں کے خلاف انسانی جسم کی حفاظت کرنے والا ہتھیار’’قوتِ مدافعت‘‘ کمزور ہو جاتا ہے۔ جب کسی بدن کی دفاعی لائن(قوتِ مدافعت) کمزور پڑتی ہے تو دشمن(امراض) حملہ آور ہوکر اس کے اثاثے(صحت ) تباہ کرنا شروع کر دیتا ہے۔
معدہ کے السر میں مبتلا افراد کے لیے یہ گھریلو نسخہ بہت مفید ثابت ہوا ہے: ہلدی50 گرام،سونف50گرام اور ملٹھی50گرام کا سفوف بنا کر صبح و شام چائے والا چمچ نہار منہ پانی کے ساتھ کھا لیا کریں۔ چند ایام کے استعمال سے ہی افاقہ ہونے لگے گا۔ اگر آپ گیس، بد ہضمی اور اپھارہ کے مرض میں مبتلا ہیں تو زیرہ سفید50 گرام، زنجبیل50 گرام، ہلدی50 گرام، سونف50 گرام اور ملٹھی 50 گرام کا سفوف بنا کر نصف چمچ بعد از غذا پانی کے ساتھ استعمال کریں۔چند روزہ استعمال سے ہی مرض سے چھٹکارا حاصل ہوگا۔
ایسے افراد جو قبض کی وجہ سے پریشان رہتے ہوں وہ سنا مکی50 گرام،سونف50 گرام اور مصری100 گرام کو پیس کر رات کو سو تے وقت ایک چمچ چائے والا پانی کے ساتھ کھا لیا کریں۔ قبض کی وجہ سے بڑھا ہوا پیٹ بھی کم ہوگا اور انتڑیوں کے امراض سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔علاوہ ازیں چو عرقہ، عرقِ سونف، عرقِ اجوائن، عرقِ پودینہ، حب کبد نوشادری، جواشِ کمونی، جوارشِ جالینوس،حبِ تنکار وغیرہ جیسی امراضِ معدہ کی مرکب ادویات بہ سہولت مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ دھیان رہے کہ بازار میں موجود بعض ادویات میں خوردنی نمک شامل ہوتا ہے۔لہٰذا بہتر یہی ہے کہ کسی بھی دوا کے استعمال سے پہلے کسی مستند معالج سے مشورہ ضرور کیا جائے، کیونکہ نمک بلڈ پریشر میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
ہمیشہ فطری غذاؤں کا استعمال کریں، طرزِ بود باش اور رہن سہن بھی فطری ہی اپنائیںاور خدانخواستہ جب کبھی بیمار ہو ں تو طریقہ علاج بھی فطری ہی آزمائیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار و فرار ممکن نہیں کہ جب تک انسان نے فطری اصولوں کو اپنائے رکھا وہ ہر دو طرح کی روحانی وجسمانی بیماریوں سے کافی حد تک محفوظ رہا لیکن جب سے انسان کا رہن سہن، خوراک، علاج اور ماحول مصنوعی پن اورغیر فطری انداز کا شکار ہوا ہے، انسان روحانی اور جسمانی بیماریوں کی لپیٹ میں آگیا ہے۔
علاوہ ازیں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ دوا اور غذا میں بنیادی اور واضح فرق یہ ہے کہ غذا بدنِ انسانی کی مستقل ضرورت ہے جبکہ دوا کا کام بیماری کو ختم کرکے جسم کو تن درستی فراہم کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں دوا کو ہم مکینک اور غذا کو پٹرول بھی کہہ سکتے ہیں۔ انسانی جسم کی گاڑی کا ایندھن غذا ہے جس سے بدنِ انسانی مسلسل کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے جبکہ انسانی ڈھانچے کی کارکردگی میں کسی بھی قسم کی خرابی (مرض) پیداہونے کی صورت میں (دوا) مکینک اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے۔
لہٰذا دانش مندی کا تقاضا ہے کہ اپنا ایندھن (غذا)صاف ستھرا (متوازن) رکھیں تاکہ ہمارا جسمانی نظام بہتر اور عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتا رہے۔ جس طرح ہم اپنی گاڑی کو ٹھیک کروانے کے بعد توقع کرتے ہیں کہ وہ بغیر تنگ کیے رواں دواں رہے اور ہم مکینک کو مستقل بنیادوں پر اپنے ساتھ گاڑی پر سوار کرنا پسند نہیں کرتے بالکل اسی طرح ہمیں چاہیے کہ بحالتِ مرض دوا کا استعمال کریں اور تن درستی کے بعد ہم اپنی معمول کی غذا کو متوازن رکھیں تاکہ ہم معالجین اور دواؤں کے محتاج نہ رہیں۔
مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ ہم اپنی خوراک میں ردو بدل کر کے خاطر خواہ حد تک بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ چائے،سگریٹ،شراب اور کولا مشروبات سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کریں۔ایسے افراد جو عادی ہوچکے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ بتدریج ان کے استعمال میں کمی کرتے جائیں۔ بالخصوص خالی پیٹ ان کا استعمال بہت نقصان دہ ہے۔ ورزش کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا لیں بلکہ جس طرح کھانا ،پینا اور سوناہماری بنیادی ضروریات ہیں اسی طرح ورزش کو بھی اہم سمجھتے ہوئے اپنے معمولات میں شامل کریں۔
رات کو جلدی سونے اور صبح جلد اٹھنے کی عادت بنائیں۔ ایسے افراد جو رات کو کام کاج کرنے پر مجبور ہیں انہیں چاہیے کہ وہ دن کے وقت مسلسل چھ سے آٹھ گھنٹے سوکر اپنی نیند پوری کریں۔کھانا دن میں دو بار کھانے کی عادت بنا ئیں، تھوڑے تھوڑے وقفوں سے کھانا معدہ کی خرابی کا باعث بنتا ہے۔ تیز مصالحہ جات، تلی اور بھنی ہوئی غذاؤں کے استعمال سے بھی احتراز برتا جائے۔کبھی کبھار استعمال میں حرج نہیں۔ سبزیاں،دودھ، دہی، پھل،گوشت،دالیں اور اناج کو حدِ اعتدال میں رہ کر استعمال کریں۔ کچی سبزیاں یا پھر سبزیوں کو ابال کھانے سے بھرپور غذائیت حاصل ہوتی ہے۔اسی طرح پھلوں کو چھلکے سمیت دھو کر استعمال کریں۔
چکنائی کی مخصوص مقدار جسم کے لیے ضروری ہے چکنائی کو مکمل طور پر ترک کر دینا اچھا نہیں ہوتا۔ لہٰذا چکنائیوں میں دیسی گھی بہترین غذا ہے لیکن دھیان رہے کہ یہ سیر شدہ چکنائی ہے اس کی زیادتی مضرت رساں ہو سکتی ہے۔ تاہم گھی کی نسبت مکھن کا استعمال قدرے مفید ہوتا ہے۔
سفید چینی کی جگہ شکر سرخ کئی گنا فوائد کی حامل ہوتی ہے۔ ماہرین کی ایک جماعت تو سفید کھانڈ کو سفید زہر سے تعبیر کرتی ہے لہٰذا جس قدر ممکن ہو سکے اس سے بچا جائے۔ فریز شدہ غذاؤں میںبھی سمی اثرات پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ ممکنہ حد تک فریز ہوئی اشیاء کے استعمال سے بھی پرہیز کیا جانا چاہیے۔اسی طرح یخ ٹھنڈا پانی ،ٹھنڈے مشروبات پینے کا رجحان بھی غیر صحت مندانہ اقدام ہے۔ با لخصوص گرما گرم کھانے کے ساتھ ٹھنڈے کاربو نیٹیٹد مشروبات کا استعمال معدہ میں گیس،تبخیر، تیزابیت، جلن ،قبض اور اپھارہ(پیٹ پھولنا ) جیسے عوارض کا باعث بنتا ہے۔
ضرورت کے مطابق سادہ پانی پینے کی عادت اپنائیں، ٹھنڈے مشروبات سے پرہیز کریں۔ رات کو کھانا کھانے کے فوراََ بعد سونے کی روش بھی بے شمار امراض پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ رات کا کھانا عشا کی نماز سے قبل ہی کھا لیا جائے اور نماز پڑھنے کے بعد سویا جائے۔
ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ سے بھی بچنا چاہیے۔ تکبر، غرور،حسد، ہوس،لالچ خود غرضی،انتقام اور بے رحمی کو دل میں کبھی بھی جگہ نہ دیں۔ بالخصوص حسد اور انتقام انسان کو ذہنی طور پر ماؤف کر کے رکھ دیتے ہیں لہٰذا ان سے ممکنہ طور پر بچا جائے۔ اچھے اخلاق تواضع، ایثار، عاجزی اختیار کریں۔ ہم غذاؤں کے انتخاب میں احتیاط کرکے ،روز مرہ معمولات میں اعتدال اپنا کر، اپنے طور و اطوار میں تبدیلی لا کر اور فطری طرزِ زندگی اختیار کر کے 80 فیصد تک امراض کے حملوں اور خطرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے استعمال سے استعمال کریں کا استعمال ہوتا ہے معدہ کی کے ساتھ غذاو ں سے بھی رات کو
پڑھیں:
مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 02 اکتوبر2025ء ) سپریم کورٹ آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا پہے کہ مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا ، آرٹیکل 187 کا استعمال اس کیس میں نہیں ہوسکتا تھا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جو کہ 47 صفحات پر مشتمل ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر نے وجوہات تحریر کی ہیں، تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں، جسٹس صلاح الدین پنہور کی سماعت سے الگ ہونے کی وجوہات پر الگ نوٹ بھی شامل ہے۔ سپریم کورٹ نے نظر ثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے 27 جون کو فیصلہ سنایا تھا تاہم تفصیلی فیصلہ آج آیا ہے۔(جاری ہے)
حریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریویو پٹیشنز صرف آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، 13 رکنی آئینی بینچ کے سامنے نظر ثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں، آئینی بینچ کے 11 ججوں نے فریقین اور اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا، بینچ کے دو ارکان نے مختلف رائے دی اور ریویو پٹیشنز مسترد کر دیں، دو ججز نے حتمی فیصلہ سنا کر مزید کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں سات غیر متنازع حقائق ہیں، سنی اتحاد کونسل کی حد تک مرکزی فیصلے میں اپیلیں متفقہ طور پر خارج ہوئیں کہ وہ مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں، مرکزی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ریلیف دے دیا گیا جبکہ وہ فریق ہی نہیں تھی، پی ٹی آئی اگر چاہتی تو بطور فریق شامل ہو سکتی تھی مگر جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا گیا، پی ٹی آئی کیس میں کسی بھی فورم پر فریق نہیں تھی، جو ریلیف مرکزی فیصلے میں ملا برقرار نہیں رہ سکتا۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 80 آزاد امیدواروں میں سے کسی نے بھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں یا مخصوص نشستیں انہیں ملنی چاہئیں، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دیں، مرکزی فیصلے میں ان جماعتوں کو بغیر سنے ڈی سیٹ کر دیا گیا، جو قانون اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا، مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا، آرٹیکل 187 کا استعمال اس کیس میں نہیں ہوسکتا تھا۔ یصلے میں کہا گیا ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے سنی اتحاد کونسل اور اس کے چیئرمین کا کنڈکٹ قابل ستائش نہیں تھا، سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے دو دن ابتدائی دلائل دیے اور کیس میں تاخیر پیدا کرنے کیلئے دو درخواستیں دیں، مخصوص نشستوں کے کیس کو پریس نے بہت توجہ دی حالانکہ قانون بالکل واضح ہے اور کیس آسان تھا، سنی اتحاد کونسل نے نظرثانی دائر ہی نہیں کی، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی تو یہ کہتے رہے اس ہار میں بھی میری جیت ہے۔ فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نہ سپریم کورٹ میں فریق تھی، نہ پشاور ہائی کورٹ اور نہ ہی الیکشن کمیشن میں فریق تھی، پی ٹی آئی کے جن امیدواروں کو ریٹرنگ افسران نے آزاد قرار دیا اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ سے رجوع نہیں کیا گیا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہیں نہیں کہا پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑسکتی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر سمیت کچھ پی ٹی آئی امیدواروں نے پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑا، 2024ء کے عام انتخابات میں بڑے بڑے نامور وکلاء نے پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن لڑا، تعجب ہے ان نامور وکلاء میں سے کسی وکیل نے بھی آزاد قرار دینے کے ریٹرننگ افسر کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے امیدواران نے غلط سمجھا کہ انھیں آزاد قرار دے دیا گیا ہے، پی ٹی آئی کے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواران سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط سمجھنے کے برابر کے ذمہ دار ہیں، سپریم کورٹ مکمل انصاف 184 کے تحت کرسکتی ہے، مکمل انصاف کے نام پر اس فریق کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا جو مقدمے میں فریق ہی نہ ہو، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے مرکزی کیس فیصلے میں پی ٹی آئی کو وہ ریلیف دیا جس کا اسے اختیار ہی نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی ججز کا اقلیتی ججوں کو نکال کر اپنے طور پر خصوصی بنچ تشکیل دینا غیر قانونی ہے، ایسی کوئی مثال بھی نہیں ملتی، آئین میں دی ہوئی ٹائم لائن تو پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے ذریعے ہی تبدیل کر سکتا ہے، آئین میں دی گئی واضح ٹائم لائنز کو تبدیل کرنا اختیارات کی تقسیم کی تکون کے نظریہ کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا حدود سے تجاوز بھی ہے۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار کسی نے نہیں دیا کہ وہ آئینی کی تشریح کرتے کرتے آئین کو ہی دوبارہ تحریر کر ڈالے، سپریم کورٹ یا اس کے کسی جج کو قطعی یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر آئین کی تشریح کرے۔