عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نوٹس لے، سلیم بٹ کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, May 2025 GMT
عالمی برادری مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نوٹس لے، سلیم بٹ کا مطالبہ WhatsAppFacebookTwitter 0 15 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:امریکہ نے مسئلہ کشمیر کو عالمی مسلہ قرار دیتے ہوئے بھارت اور پاکستان کو آمادہ کر لیا کہ وہ دنیا میں امن کی عالمی کوششوں میں امریکہ سے تعاون کریں گے ۔
ان خیالات کا اظہار جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سینئر رہنما سلیم بٹ نے اپنے ایک بیان میں کیا ۔
انہوں نے کہا جموں کشمیر میں بڑے پیمانے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اقدام پاک بھارت جنگ بندی مسئلہ کشمیر کے مسقل حل بھارت پاکستان اور کشمیریوں کو عالمی سطح پر امریکہ کی جانب سے کرائی گئی یقین دہانی جو دنیا کے امن کے لیے ایک تاریخی اقدام ہے جس پر جموں کشمیر میں امریکی صدر کے اعلان کا نہ صرف خیرمقدم کیا گیا بلکہ آزادی کی جدوجہد میں مصروف عمل کشمیری قوم کو ایک بڑا حوصلہ ملا۔
فرنٹ کے رہنما نے کہا اس بار اگر مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا تو پھر دو ایٹمی ملکوں بھارت اور پاکستان کے مابین ایٹمی تصادم کے خطرے کو دنیا نہیں روک سکے گی جو ایک بڑی انسانی تباہی کا سبب بن سکتا ہے ۔
سلیم بٹ نے کہا دونوں ملکوں کی جنگ بندی اور سیز فائر کے بعد جموں کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسزنے بڑے پیمانے پر ایک چھاپہ مار مہم شروع کر رکھی ہے اور نوجوانوں کو گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے عالمی برادری اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نوٹس لیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسرمایہ کاروں کا اعتماد بحال، اسٹاک مارکیٹ میں 600 پوائنٹس کا اضافہ ہمارے شاہینوں نے بھارت کو اس کی دہلیز کے اندر گھس کر مارا ہے،وزیراعظم آزاد کشمیر کوٹلی میں پیپلز پارٹی کی پاک فوج سے اظہارِ یکجہتی کے لیے تاریخی ریلی پاک فوج نے بھارت کومنہ توڑ جواب دے کرمودی کے خواب چکناچورکردیے،سردارکامران ایوب مسئلہ کشمیر کا پرامن حل پاک بھارت امن کی ضمانت ہے، سلیم بٹ وزیراعظم آزاد کشمیر کی ایمرجنسی ہیلتھ رسپانس سینٹر قائم کرنے کی ہدایت آزاد کشمیر: بڑھتی ہوئی کشیدگی، بھارتی جارحیت کے امکانات کے باعث ہنگامی اقدامات کا جائزہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: سلیم بٹ
پڑھیں:
پاکستان سفارتی محاذ پر سرخرو، بھارت کو ہزیمت
چین کے شہر چنگ ڈاؤ میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون ( ایس سی او) کے دس رکنی وزرائے دفاع نے بلوچستان میں بھارت کی بالواسطہ دہشت گردی کی مذمت کردی جب کہ پہلگام واقعے پر بھارتی موقف کو مسترد کردیا۔ بھارتی وفد پہلگام واقعہ پر پاکستان کی مذمت کو اعلامیے میں شامل کرانے کے لیے منتیں کرتا رہا لیکن رکن ممالک نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔
خوش آیند بات یہ ہے کہ اب عالمی برادری کی مکمل حمایت پاکستان کو حاصل ہورہی ہے، دنیا کے بیشتر ممالک اب بھارت کے مکروہ چہرے کو پہچاننے لگے ہیں۔ پاکستان ایک پُر امن ملک ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والی ریاستوں کے خلاف بھی آواز اٹھاتا ہے اور اپنے عوام کی حفاظت کے لیے ہر ممکن اقدام کرتا ہے۔ بھارت کی یہ علت پرانی ہے کہ جب میدانِ جنگ میں شکست کھا جاتا ہے تو محاذ بدل دیتا ہے۔
کبھی میڈیا کا ہتھیار استعمال کرتا ہے،کبھی سفارت کاری کی آڑ میں زہر گھولتا ہے۔ پچھلے دنوں جب پاکستان نے عسکری سطح پر واضح برتری دکھائی اور بھارت کی بلند بانگ دھمکیاں زمین بوس ہوئیں، تو دہلی کے ایوانوں میں جیسے زلزلہ آ گیا۔ بھارتی حکمران شکست تسلیم کرنے اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے، دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف زہریلا بیانیہ پھیلانے نکل پڑے۔
بھارت کی ہٹ دھرمی، دہشت گردانہ ذہنیت، جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کے باعث جنوبی ایشیا اس وقت ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان پر بے بنیاد الزامات، شہری علاقوں کو نشانہ بنانا اور سندھ طاس معاہدے کی معطلی جیسے اقدامات خطے میں امن و استحکام کے لیے خطرناک پیغام دے رہے ہیں۔
ان حالات میں پاکستان نے عالمی سطح پر سفارتی حکمتِ عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے اقوام متحدہ میں اپنا موقف مضبوطی سے پیش کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منتخب ارکان سے پاکستانی وفد کی ملاقاتیں اس تناظر میں انتہائی اہمیت کی حامل تھیں۔ پاکستانی پارلیمانی وفد کی قیادت چیئرمین پیپلز پارٹی و سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کی، جنھوں نے اقوام متحدہ کے دفتر میں سلامتی کونسل کے منتخب غیر مستقل ارکان سے ملاقاتیں کیں۔
ان میں ڈنمارک، یونان، پاناما، صومالیہ، الجزائر،گیانا، جاپان، جنوبی کوریا، سیرا لیون، اور سلووینیا شامل تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی پروپیگنڈے کو بے نقاب کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ بھارت کی جانب سے لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور بلا ثبوت ہیں، جنھیں دلائل و شواہد کے ساتھ اقوام متحدہ کے نمایندوں کے سامنے رد کیا گیا۔
پاکستان کا ردعمل ان تمام بھارتی اشتعال انگیزیوں کے خلاف نہایت نپا تلا، ذمے دارانہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے عین مطابق رہا ہے۔ عالمی برادری کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ محض تنازعہ کے بعد ’’کرائسس مینجمنٹ‘‘ کے بجائے، پیشگی حل پر توجہ دے اور جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کی بنیاد رکھے۔
حالیہ بھارتی جارحیت کے بعد مسئلہ کشمیر ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر ہوا ہے، جس پر امریکی صدر ٹرمپ نے بھی بھارت اور پاکستان کے مابین مذاکرات پر زور دیا ہے۔ جب تک یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہیں ہوتا، خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ موجودہ عالمی توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سفارتی سطح پر بھارت پر دباؤ بڑھائے۔ بھارت نے ہمیشہ خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان نے پوری تیاری، ثبوتوں اور اعتماد کے ساتھ عالمی فورمز پر، بھارت کی ایک ایک سازش کو بے نقاب کیا ہے۔
دنیا کو بتایا ہے کہ دہشت گردی کا سب سے بڑا سہولت کار بھارت ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ مالدیپ تک میں مداخلت کر چکا ہے۔ کلبھوشن یادیو کا اعترافی بیان دنیا کے سامنے موجود ہے، جس میں اس نے تسلیم کیا کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ایما پر بلوچستان میں دہشت گردی، علیحدگی پسندی کو ہوا دینے اور پاکستان کے استحکام کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم رہا۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک پورا نیٹ ورک ہے جس کا مقصد پاکستان کو اندرونی طور پرکمزورکرنا ہے۔
پنجاب، جو پاکستان کا آبادی کے لحاظ سب سے بڑا صوبہ ہے، اسے عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے بھی بھارت مختلف طریقوں سے مداخلت کرتا رہا ہے۔ دہشت گردوں کو فنڈنگ، اسلحہ، تربیت اور میڈیا پر پراپیگنڈا کے ذریعے عوام کو ریاست سے بدظن کرنے کی منظم کوشش کی جاتی رہی ہے۔ 1971 میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے پسِ پردہ بھی بھارت کا کردار بہت واضح تھا۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی خود ایک عوامی جلسے میں اعتراف کر چکے ہیں کہ بنگلہ دیش بنانے میں بھارت نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
بھارتی فوج نے نہ صرف مشرقی پاکستان میں مداخلت کی بلکہ مکتی باہنی جیسے علیحدگی پسند گروہوں کو تربیت اور اسلحہ بھی فراہم کیا۔ یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین اور خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی تھی، مگر بھارت اسے اپنی ’’ فتح‘‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ بھارت ہمیشہ اس کوشش میں رہا کہ دنیا کے سامنے پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کیا جائے تاکہ سفارتی طور پر وہ باقی دنیا سے کٹ جائے۔ بھارتی ریاست اپنے ملک میں خود ہی دہشت گردی کے واقعات کروا کے اس کا ملبہ پاکستان پر ڈال دیتی۔ دوسری طرف شدت پسندوں کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشت پھیلانے اور معصوم بچوں، عورتوں کے قتل میں ملوث رہا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان میں دہشت گردی کے کئی بڑے واقعات پیش آئے ہیں، جنھوں نے ملک کو گہرے صدمے سے دوچار کیا۔
ان کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا، ریاستی اداروں کو کمزور کرنا اور مخصوص نظریات کو مسلط کرنا تھا۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی بھارت کے ان اقدامات پر تنقید کرچکی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان الزامات کو سنگین قرار دیا اور کہا ہے کہ بھارت بیرون ملک مقیم ناقدین کو دھمکانے، ان کی نگرانی کرنے اور بعض اوقات انھیں قتل کرنے جیسے اقدامات میں ملوث ہے۔
ایک جمہوری ریاست کا یہ طرزِ عمل بین الاقوامی قوانین، ریاستی خود مختاری اور قانون کی حکمرانی جیسے عالمی اصولوں پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے، اگرکوئی ریاست جمہوری ممالک میں اپنے مخالفین یا شہریوں کو قتل کرتی ہے تو یہ ایک خطرناک مثال قائم کرتی ہے۔جنوبی ایشیا کے تناظر میں بھی یہ اقدامات عدم استحکام کو جنم دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی کا موضوع نیا نہیں۔ 2014 کے آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے میں 149 افراد، جن میں 132 بچے شامل تھے، شہید کیے گئے۔ پاکستانی حکام نے اس حملے کو ان گروہوں سے جوڑا جو مبینہ طور پر بھارت کی افغان سرزمین سے حمایت حاصل کرتے تھے۔
پاکستان نے ان الزامات پر بین الاقوامی تحقیقات اور اقوام متحدہ و او آئی سی میں شواہد پیش کرنے کی بارہا کوشش کی۔ مختلف ممالک سے سامنے آنے والے ان شواہد، انٹیلیجنس شیئرنگ اور قانونی اقدامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بھارت پر لگنے والے الزامات محض مفروضے نہیں، اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو بھارت کو دیگر ریاستوں کی طرح بین الاقوامی قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
عالمی امن و انصاف کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی ریاست کو استثنیٰ نہیں دیا جا سکتا۔ بھارت کی انتہا پسند حکومت نے آبی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کر رکھا ہے۔ نریندر مودی عوامی جلسوں میں بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں کہ بھارت پاکستان کا پانی روک دے گا۔ پاکستان نے پانی کے مسئلے کو ریڈ لائن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اگر بھارت نے پاکستان کے حصے کا پانی روکا تو اسے اعلان جنگ تصورکیا جائے گا۔
بھارت کی خفیہ ایجنسیاں میڈیا، سوشل میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ذریعے پاکستان میں نوجوانوں کو ریاست مخالف بنانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ انھیں ایسے بیانیے دیے جاتے ہیں جن سے ملک میں انتشار پھیلے۔ یہ ’’ففتھ جنریشن وار‘‘ کا حصہ ہے، جس میں دشمن ہتھیار کے بجائے نظریاتی زہر استعمال کرتا ہے۔ بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس، جعلی ویب سائٹس اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے پاکستان میں افراتفری پیدا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ بھارت کی ففتھ جنریشن وار کا سب سے بڑا ہدف ہماری نوجوان نسل ہے۔
بھارت کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں اپنے اندرونی اختلافات کو کم کرکے قومی اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ ریاستی ادارے، عوام، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کو ایک بیانیے پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ صرف حکومتی نمایندے ہی نہیں بلکہ دنیا بھرمیں، خاص طور پر امریکا،کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا، فرانس اور دوسرے مغربی ملکوں میں آباد پاکستانی تارکین وطن، دانشور، طلبہ اورکاروباری شخصیات کو بھی اپنی اپنی سطح پر بھارت کی انتہا پسندی،کشمیر میں ظلم اور پاکستان مخالف مداخلت پر آواز بلند کرنی ہوگی۔بھارت کے خلاف ہمیں مقامی، عالمی اور سفارتی سطح پر ہر ممکن اقدام اٹھانا ہوگا۔ پاکستان کا کشمیر اور بلوچستان پر ٹھوس بیانیہ سامنے آیا، سفارت کاری کامیابی سے ہم کنار ہو رہی ہے۔ ان دونوں مسائل کے حل کے لیے ہمیں مضبوط بنیادوں پر استوار اپنا بیانیہ جاری رکھنا چاہیے۔