بھارتی سازشوں کے خلاف قومی یکجہتی کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 26th, May 2025 GMT
معرکہ حق اور آپریشن بنیان مرصوص کے دوران ملک کی سیاسی قیادت، مسلح افواج کی لازوال قربانیوں اور پاکستانی قوم کے ناقابل تسخیر عزم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک پروقار عشایے کا اہتمام کیا گیا۔
اس موقعے پر چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اپنے خطاب میں معرکہ حق کے دوران سیاسی قیادت کی اسٹرٹیجک دور اندیشی پر گہرے تشکر کا اظہار کیا ۔ انھوں نے بھارتی پروپیگنڈے کے خلاف پاکستانی نوجوانوں اور میڈیا کے کردار کو بھی سراہا، جنھیں انھوں نے فولادی دیوار قرار دیا جو گمراہ کن مہم کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہے۔
بلاشبہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے صائب خیالات کا اظہار کیا، ان کا قوم کے لیے وژن اور فوجی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف ملکی اور عالمی سطح پر کیا جا رہا ہے ۔ ان کی ولولہ انگیز قیادت میں نہ صرف ملک کا دفاع ممکن ہوا بلکہ دشمن کو ایک ایسی کاری ضرب لگائی ہے کہ بھارت مدتوں یاد رکھے گا۔ملک اِس وقت حالت جنگ میں ہے، بھارت شکست کے بعد اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔
بھارت خطے میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے مسلسل پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جب کہ پاکستان مسلسل شفافیت، مالیاتی نظم و ضبط اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کر رہا ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان بھارت کے خلاف ڈوزیئر دنیا کے سامنے لا چکا ہے اس سب کے برعکس بھارت پاکستان کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کے کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا، اس کے اپنے بے بنیاد الزامات خود بھارت ہی کے لیے جگ ہنسائی کا ذریعہ بنتے رہتے ہیں جب کہ پاکستان پورے ثبوت کے ساتھ بھارتی دہشت گردی بے نقاب کر چکا ہے، بھارت نہ صرف بے بنیاد الزامات عائد کر رہا ہے بلکہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے سمیت دیگر اقدامات بھی اٹھا چکا ہے، بھارت اپنے سارے اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود اقوام متحدہ میں بھی پہلگام کے معاملے میں شرمندگی اٹھا چکا ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب بھی ہو رہا ہے جہاں ہیومن رائٹس کے حوالے سے بنائے گئے قوانین کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔
دہشت گردوں کے ساتھ جنگ کا معاملہ انتہائی اہم ہے، پاکستان کے سیکیورٹی ادارے ماضی میں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں اور آج بھی ملک کے طول ارض میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کر کے دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے میں مصروف ہیں۔ اب بھارتی پراکیس معصوم بچوں کو نشانہ بنایا ہے جس کا حساب ہماری سیکیورٹی فورسز جلد لیں گی۔ بھارت کی حالیہ شکست، جو پاکستان کے ہاتھوں دنیا کے سامنے ایک کھلی حقیقت کے طور پر اُبھری، محض ایک عسکری ناکامی نہیں بلکہ ایک تہذیبی اور نظریاتی جھٹکا ہے۔
یہ شکست بھارت کے اس طویل بیانیے کو چیلنج کرتی ہے جس کے تحت وہ خود کو خطے کی سب سے بڑی، طاقتور اور ناقابلِ تسخیر ریاست تصور کرتا آیا ہے۔ دہلی کے ایوانوں میں صرف عسکری نقصان کا ماتم نہیں ہو رہا، بلکہ ایک گہرا فکری بحران بھی جنم لے رہا ہے جو ریاست کے تصورِ طاقت، اس کی سیاسی حکمتِ عملی، اور داخلی توازن کو متزلزل کر رہا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری طاقت کا توازن کسی بھی کھلی جنگ کو محدود کرتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ بھارت اب خفیہ اور غیر روایتی طریقوں سے پاکستان کو نشانہ بنانے کی راہ اپنائے، جیسا کہ سائبر جنگ، خفیہ ایجنسیاں اور داخلی انتشار کو ہوا دینا۔ اس شکست کا دوسرا بڑا پہلو بھارت کی داخلی سیاست اور معاشرت پر اس کا اثر ہے۔ قوم پرستی کے جذبات پر پلنے والی حکومتیں جب شکست کھاتی ہیں تو وہ داخلی دشمن تراشتی ہیں۔
بھارت کی ہندو قوم پرست قیادت ممکنہ طور پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اس ناکامی کا ذمے دار ٹھہرا رہی ہے، اقتصادی طور پر، یہ شکست ایک خاموش زلزلہ ہے۔ اعتماد کی فضا متزلزل ہوگی، سرمایہ کاری میں ہچکچاہٹ پیدا ہوگی اور دفاعی اخراجات میں اضافے سے تعلیم، صحت اور فلاحی منصوبے متاثر ہوں گے۔ یہ وہی منظرنامہ ہے جو 1962 کے بعد بھارت میں دیکھنے کو ملا تھا جب معاشی ترجیحات عسکری ترجیحات کے تابع ہوگئی تھیں۔
اس شکست کا ایک بین الاقوامی پہلو بھی ہے جو کم اہم نہیں۔ امریکا اور فرانس جیسے اتحادیوں سے بھارت کو یقینی طور پر عسکری تعاون کی امید ہوگی، لیکن انھیں بھی اپنی ساکھ بچانی ہے۔ روس، جو بھارت کا دیرینہ دفاعی حلیف رہا ہے، اب اتنا غیر مشروط نہیں رہا۔ چین جو کہ پہلے ہی پاکستان کے ساتھ مصلحتی شراکت داری میں ہے اس شکست سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لداخ کے محاذ پر بھارت کو دباؤ میں لاسکتا ہے یا معاشی منصوبوں کے ذریعے پاکستان کے ہاتھ مضبوط کر سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور خلیجی ریاستیں بھی محتاط رویہ اپنائیں گی، کیونکہ ان کے لیے استحکام اولین ترجیح ہے اور وہ کسی ایسی طاقت کے ساتھ کھل کر نہیں کھڑی ہوں گی جو خود عدمِ استحکام کا شکار ہو۔
بھارت کی آبی دہشت گردی کی ایک اور خطرناک شکل یہ ہے کہ وہ دریاؤں کے بہاؤ کو جب چاہے روک لیتا ہے اور جب چاہے چھوڑ دیتا ہے۔ جب پانی کو روک کر خشک سالی پیدا کی جاتی ہے تو کسانوں کی محنت رائیگاں جاتی ہے، فصلیں تباہ ہوتی ہیں اور غذائی قلت پیدا ہوتی ہے۔ دوسری طرف، جب پانی اچانک چھوڑا جاتا ہے تو پاکستان کے کئی علاقے شدید سیلاب کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں، جس سے نہ صرف قیمتی جانیں ضایع ہوتی ہیں بلکہ اربوں روپے کا مالی نقصان ہوتا ہے۔ یوں بھارت ایک خاموش مگر مہلک جنگ لڑ رہا ہے، جس کا مقصد پاکستان کو اندر سے کمزور کرنا ہے۔ پاکستان نے کئی بار مختلف عالمی فورمز پر بھارت کی آبی دہشت گردی کا معاملہ اٹھایا ہے۔
عالمی بینک کے ذریعے ثالثی کی کوششیں بھی ہوئیں مگر خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ پاکستانی حکمرانوں نے احتجاج بھی ریکارڈ کرایا مگر پھر سفارتی دباؤ یا داخلی مسائل کے تحت اس معاملے کو پس پشت ڈال دیا۔ پاکستان میں آبی ذخائر کی قلت، ڈیموں کی عدم تعمیر اور پانی کے ضیاع جیسے اندرونی مسائل نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے، اگر پاکستان نے اپنی اندرونی اصلاح نہ کی اور بھارت کی آبی جارحیت کا بھرپور سفارتی، قانونی اور سائنسی مقابلہ نہ کیا تو مستقبل میں حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ بھارت کی یہ آبی جارحیت مستقبل میں ایک انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ پاکستان کی جانب سے برداشت، حقائق اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نے اسے عالمی سطح پر عزت و وقار عطا کیا ہے۔ چین، ترکیہ، آذربائیجان اور دیگر دوست ممالک نے پاکستان کے مؤقف کی بھرپور حمایت کی ہے۔
پاکستان کو چاہیے کہ ایک طویل المدتی قومی حکمت عملی ترتیب دے جس میں پانی کو قومی سلامتی کا مسئلہ قرار دے کر ہر سطح پر اس کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ڈیموں کی فوری تعمیر، پانی کے موجودہ وسائل کا بہتر انتظام اور جدید زرعی طریقوں کی اپنانا اشد ضروری ہے۔
عالمی سطح پر ممالک کے تعلقات اور ان کی پالیسیوں کا دار و مدار صرف عسکری طاقت پر نہیں بلکہ سفارتی حکمت عملی اور بین الاقوامی تعلقات میں مہارت پر بھی ہوتا ہے۔ پہلگام واقعہ کو بنیاد بنا کر بھارتی میڈیا اور حکومت نے پروپیگنڈے کی انتہا کر دی۔ بھارتی میڈیا نے اس واقعے کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کیا کہ نہ صرف اس کی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ خود بھارت کے اندر بھی کئی حلقوں نے اس پر سوالات اٹھائے۔ بھارت کی اس جھوٹ پر مبنی مہم کے جواب میں پاکستان نے نہایت تحمل، وقار اور سنجیدگی سے ردِعمل دیا، جس کی عالمی سطح پر پذیرائی کی گئی۔
بھارت کو سوائے اسرائیل کے کسی بڑی عالمی طاقت کی عملی حمایت حاصل نہیں ہو سکی، جو اس کی سفارتی تنہائی کا واضح ثبوت ہے۔ اسرائیل کی حمایت کا حصول بھی دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ بھارت کن عناصر کے ساتھ کھڑا ہے، اور اس کا مقصد کیا ہے۔
یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ سفارتی محاذ پر پاکستان کی حالیہ سرگرمیاں نہ صرف مؤثر ہیں بلکہ عالمی امن کے لیے ایک مثبت قدم بھی ہیں۔ مودی حکومت کو نہ صرف جنگی میدان میں بلکہ سفارتی سطح پر بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگرچہ جنگ کے امکانات موجود نہیں ہیں تاہم چوکنا رہنا ضروری ہے کیونکہ بھارت سے کچھ بعید نہیں ہے، بھارت ایک 3 ڈی اسٹرٹیجی پر عمل پیرا ہے جس میں پاکستان کو بدنام کرنا، پاکستان کو نقصان پہنچانا اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنا شامل ہے۔ اس بھارتی اسٹرٹیجی کا مقابلہ اُس قومی یکجہتی کو مضبوط بنا کر کیا جا سکتا ہے جو آج ملک میں نظر آ رہی ہے اور اس کے لیے سیاسی تقسیم کا خاتمہ کرتے ہوئے ملک میں اتحاد و یگانت کو فروغ دینا ہوگا اور دہشت گردی کے خلاف مؤثر حکمت عملی مرتب کرنی ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی عالمی سطح پر پاکستان کے پاکستان کو بھارت کی ا کر رہا ہے ہیں بلکہ کہ بھارت بھارت کے کے خلاف کے ساتھ چکا ہے کے لیے
پڑھیں:
موضوع: عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں تازہ ترین مسائل کے بارے میں نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کی جاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںہفتہ وار تجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
مہمان تجزیہ نگار: علامہ ڈاکٹر میثم رضا ہمدانی
میزبان: سید انجم رضا
پیش کش: آئی ٹائمز ٹی وی اسلام ٹائمز اردو
خلاصہ گفتگو و اہم نکات
عراق اپنے تاریخی پس منظر کے ساتھ دنیا بھر کےمسلمانوں کے لئے اپنے مقامامات مقدسہ کی وجہ سے عقیدت کا مظہر ہے
عراق خاص طور پہ مکتب اہل بیت تشیع کے لئے بہت محترم سرزمین ہے
داعش کے فتنہ کی سرکوبی میں بھی عراقی عوام نے بہت جرات اور دلیری کا مظاہرہ کیا
عراق کی اہمیت زمانہ میں حال میں مقاومت حوالے سے بھی نمایاں ہے
مقاومت کوئی علیحدہ سے چیز نہیں بلکہ خطے میں امریکی آلہ کاروں کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف مزاحمت بھی ہے
گزشتہ دو برس میں طوفان الاقصیٰ اور اس کے بعد خطے میں سیکورٹی صورت حال بہت اہم ہوچکی ہے
اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے عراقی عوام نے ہمیشہ اس کی مذمت کی
طوفان الاقصیٰ کے حوالے عراقی عوام اور حکومت نے غزہ کے فلسطینی عوام کی حمایت کو مقدم جانا
صیہونی حکومت کے اپنی جارحیت کو جمہوری سلامی ایران پہ مسلط کرنے کے دوران بھی عراقی کردار بہت مثبت رہا
موجودہ حالات میں عراق میں نومبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے
استعماری قوتیں ان انتخابات میں بیرونی اور اندرونی طور پہ اثر انداز ہونے کی مذموم کوششوں میں ہیں
ایک اہم فیکٹر غزہ میں جنگ بندی کی شرائط میں ح م ا س اور ح زب کو غیر مسلح کرنا ہے
عراق میں ح ش د ال ش ع ب ی کو بھی غیر مسلح کرنے کا منصوبہ بھی اسی پلان کا حصہ تھا
مگر عراقی پارلیمنٹ نے قانون سازی کرکے ان گروہوں کو اپنی فوج کا حصہ بنالیا
امریکہ آج بھی عراق کے بہت سے علاقوں میں موجود ہے، اور بہت سے سیکورٹی زونز پہ امریکہ قابض ہے
صدام ملعون جیسے آلہ کارکے سقوط کے بعدبھی امریکہ خود کو عراق پہ مسلط رکھنا چاہتا ہے
حاج سردار کو عراقی کمانڈر کے ہمراہ بغداد کے سویلین ایرپورٹ پہ حملہ کرکے شہید کردیا جانا امریکی مداخلت کا واضح ثبوت ہے
اتنی مداخلت کے باوجود عراقی قوم کو جب بھی ذرا سی مہلت ملتی ہے وہ امریکی تسلط کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں
عراقی قوم ابھی تک کسی استعماری طاقت خصوصا امریکہ کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوئے
ٖٹرمپ نے مارک ساوایا کو سازشی منصوبوں کے لئے عراق میں اپنا خصوصی ایلچی مقرر کیا ہے
عراقی، عیسائی تاجر کو ایلچی بنانے کا مقصد عراق کے سیاسی کھیل کو امریکہ کے حق میں موڑنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتا
ساوایا کو ایلچی بنانے سے عراق کی سیاست میں امریکی مداخلت کے نئے دور سے پردہ ہٹنا شروع بھی ہوگیا ہے
مارک ساوایا بھنگ کا تاجر ہے، اس کے ساتھ پراپرٹی کا کاروبار بھی کرتا ہے، سفارتی لحاظ سے کسی بھی قسم کی صلاحیت پائی نہیں جاتی
لگتا یہ ہے کہ کہ مارک ساوایا عراق کے حالات کو اسی طرح بگاڑیں گا جس طرح سے زلمئی خلیل زاد نے افغانستان میں خلفشار پیدا کیا تھا یا پھر جس طرح سے لبنان میں ٹرمپ کے ایلچی ٹام باراک نے بیروت میں کشیدگی میں اضافہ کیا۔
عراق میں 11 نومبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات محض داخلی مسئلہ نہیں، بلکہ اس میں کئی علاقائی اور بین الاقوامی طاقتیں اپنے مفادات کے تحت اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔
موجودہ انتخابات میں شیعہ اکثریتی علاقوں میں الیکشن فہرستوں اور اتحادوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ابھی تک کی صورت حال کے مطابق مقتدا صدر، جنہوں نے انتخابات میں حصہ لینے سے پرہیز کیا ہے۔
مرجع عالی قدر آیت اللہ سیستانی نے عوام کو الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کی تاکید کی ہے۔
عراق ایک تشیع کا اکثریتی ملک ہے، عراق میں فساد کے لئے منحرفین کا حربہ بہت استعمال کیا جانے کا خدشہ ہے'
عراقی قوم کا سماجی بیانیہ رواداری اور اتحاد بین المسلمین کا ہے، قبائل مسلکی اختلافات پہ زیادہ حساس نہیں ہوتے
الیکشن کے نتائج سے توقع ہے کی ایک ایسی حکومت بنے گی جو عراق کی سالمیت پہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی