Express News:
2025-06-02@07:38:11 GMT

حقیقتیں

اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT

پرورش
ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کیے لیکن آٹھ بچے مل کر ماں کو چار سال نہ پال سکے۔
بے چھت
زلزلہ آیا پورا شہر مر گیا‘ صرف میں بچا‘ کیوں؟ کیونکہ میرے سر پر چھت نہیں تھی اور زلزلے بے چھت لوگوں کو کچھ نہیں کہتے۔
علاج
میں ڈاکٹر بدلتا رہا‘ میں دوائیں بھی تبدیل کرتا رہا لیکن شفاء نصیب نہ ہوئی‘ مجھے آخر میں پتہ چلا‘ خرابی دوائوں اور ڈاکٹروں میں نہیں تھی‘ نقص مجھ میں تھا‘ میں بزدلی کے مرض میں مبتلا ہوں اور بزدل مریضوں کو کسی دواء کسی ڈاکٹر سے شفاء نہیں ہوتی۔
انصاف
جج نے چور سے کہا ’’تم پر چوری ثابت نہیں ہو سکی‘ تمہیں باعزت بری کیا جاتا ہے‘‘ چور نے ہاتھ جوڑ کر پوچھا ’’جناب کیا میں اب چوری کی سائیکل استعمال کر سکتا ہوں‘‘۔
باپ
انسان کو اس وقت تک بچہ پیدا نہیں کرنا چاہیے جب تک وہ باپ بننا نہ سیکھ لے۔
پکی چھت
جو شخص اپنا فرش پکا نہیں کر تا‘ اسے کبھی پکی چھت نصیب نہیں ہوتی۔
کام یابی
جو لوگ کام یاب نہیں ہونا چاہتے‘ کام یابی کبھی ان پر ترس نہیں کھاتی۔
میل
جو لوگ دولت کو ہاتھ کی میل سمجھتے ہیں‘ دولت بھی ان کے ساتھ وہ سلوک کرتی ہے جو صابن میل کے ساتھ کرتا ہے۔
ککھ پتی
وہ ایک ایک روپیہ جمع کرتا رہا‘ وہ لکھ پتی بن گیا‘ میں ایک ایک روپیہ خرچ کرتا رہا ‘ میں ککھ پتی ہو گیا۔
کان
میں نے اپنے پیٹ کو ہزاروں دلیلیں لیکن یہ نہ مانا‘ میں نے تنگ آ کر اس پر ہاتھ پھیرا تو مجھے پتہ چلا میرے پیٹ کے کان ہی نہیں ہیں‘ یہ بے چارہ کیسے سنتا!
اعلیٰ ظرف
وہ زندگی کے آخری حصے میں کثرت سے دعا کیا کرتے ہیں’’یا باری تعالیٰ! مجھے پھل دار درختوں جتنا ظرف عطا فرما دے‘‘ ہم پوچھتے تھے’’باباجی یہ خواہش کیوں؟‘‘ وہ جواب دیتے تھے’’میں نے آج تک کسی کو پھل دار درختوں سے زیادہ اعلیٰ ظرف نہیں پایا‘‘۔ ہم پوچھتے تھے ’’کیسے؟‘‘ وہ جواب دیتے تھے ’’ہم درختوں کو پتھر مارتے ہیں‘ یہ بے چارے زخمی ہو جاتے ہیں لیکن جواب میں اپنا میٹھا ترین پھل ہماری طرف اچھال دیتے ہیں‘ مجھے انسانوں میں کوئی اتنا اعلیٰ ظرف شخص دکھا دو‘‘۔
نصیب
میں جھونپڑی میں رہتا تھا تو روز بارش ہوتی تھی‘ میں نے چھت پکی کر لی تو بارشیں بھی بند ہو گئیں۔
انصاف
حضرت موسیٰ ؑ نے اﷲ سے پوچھا ’’یا باری تعالیٰ فرعون خدائی کا دعوے دار تھا لیکن تم نے اس کے باوجود اس کی رسی دراز رکھی‘‘ اﷲ تعالیٰ نے جواب دیا ’’موسیٰ! فرعون انصاف پسند تھا‘ میں اسے کیسے برباد کر دیتا‘‘۔
خسارہ
میں نے اس کی نئی قمیض گندی کرنے کے لیے کیچڑ اٹھایا لیکن اس کی قمیض گندی ہونے سے پہلے میرے ہاتھ گندے ہو گئے۔
ہڑتال
میرے شہر کی تمام گھڑیوں نے ہڑتال کر دی لیکن وقت کی دکان اس کے باوجود کھلی رہی۔
خوشی
مانگنے والے نے مہاتما بودھ سے کہا ’’مجھے خوشی چاہیے‘‘ بودھ نے مسکرا کر جواب دیا ’’میرے بچے تمہارے مطالبے میں دو چیزیں اضافی ہیں‘‘ مانگنے والے نے پوچھا ’’کیا‘‘ بودھ نے جواب دیا ’’مجھے اور چاہیے‘‘ ۔ مانگنے والا حیرت سے دیکھنے لگا‘ بودھ نے جواب دیا ’’تم مجھے اور چاہیے نکال دو‘ پیچھے خوشی رہ جائے گی‘‘۔
نظریہ ضرورت
سیدزادی کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے‘ شمر کا فوجی آگے بڑھا‘ بچی کا ہاتھ پکڑا اور کنگن اتارنے لگا‘ وہ کنگن اتارتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا‘ بچی نے پوچھا ’’ چچاتم کیوں رو رہے ہو؟‘‘ فوجی نے جواب دیا ’’مجھ سے آل ِ رسولؐ کا یہ دکھ دیکھا نہیں جاتا‘‘ بچی نے کہا ’’تم پھر میرے کنگن کیوں اتار رہے ہو‘‘ اس نے جواب دیا ’’بی بی کنگنوں کا اترنا لازم ہو چکا ہے‘ یہ میں نہیں اتاروں گا تو کوئی اور اتار لے گا‘‘۔
گدھا نہ ہو کہیں کا
کمہار کا باپ مر گیا‘ کمہار گدھے کو شہر لے گیا‘ ختم کے لیے راشن خریدااور گدھے بیچارے کو راشن ڈھونا پڑ گیا‘کمہار کی بیٹی کی شادی آئی‘ گدھا کئی دن تک جہیز ڈھوتا رہا‘ گدھے نے ایک دن سوچا ’’ہم بھی کیا مخلوق ہیں‘ انسانوں کی خوشی ہو یا غمی ‘بوجھ بہرحال ہمیں ہی اٹھانا پڑتا ہے‘‘۔
اشرف المخلوقات
جانوروں نے ایک دن اﷲ سے شکوہ کیا ’’بھینسیں اپنے بچھڑوں کے لیے دودھ دیتی ہیں لیکن انسان پی جاتا ہے‘ مرغیاں اپنی نسل بڑھانے کے لیے انڈے دیتی ہیں لیکن انسان کھا جاتا ہے اور بھیڑ بکریاں اپنی افزائش کے لیے میمنے جنتی ہیں لیکن انسان انھیں بھی چٹ کر جاتا ہے ’’اﷲ نے پوچھا ’’پھر‘‘ جانوروں نے کہا ’’یا باری تعالیٰ !انسان اس کے باوجود اشرف المخلوقات ہے اور ہم جانور‘ کیا یہ ظلم نہیں‘‘۔
انسان کی موت
کراچی میں گولی چل رہی تھی‘ کتے کے پلے نے کچرہ گھر سے باہر جھانکنے کی کوشش کی‘ کتیا نے اسے پنجہ مار کر کہا ’’بے وقوف‘ سر اندر رکھو! کیوں انسان کی موت مرنا چاہتے ہو‘‘ اور پلے نے گھبرا کر ماں کے پیچھے پناہ لے لی۔
اگنور
میں نے شکوہ کیا ’’لوگ آج کل مجھے بہت برا بھلا کہتے ہیں‘‘ وہ ہنسے اور کہا ’’یہ برا بھلا اس سے سو گنا اچھا ہے کہ لوگ تمہیں کچھ بھی نہ کہیں‘ تمہیں اگنور کرکے گزر جائیں‘‘۔
رزق
گورکن نے اپنی بیوی سے کہا ’’یہ ڈاکٹر جب سے آیا ہے‘ ہمارا رزق تنگ ہو گیا‘ آئو مل کر اس کے لیے بددعا کریں‘‘اور بیوی نے جھولی پھیلا کر دہائی دی ’’جا ڈاکٹر ‘ اﷲ تمہیں غارت کرے‘‘۔
فیڈ بیک
لڑکے نے فون پر پوچھا ’’سر کیا آپ کو اچھا ڈرائیور چاہیے‘‘ دوسری طرف سے جواب آیا ’’میرے پاس بہت اچھا ڈرائیور موجود ہے‘‘ لڑکے نے کہا ’’سر میں آدھی تنخواہ پر کام کرنے کے لیے تیار ہوں‘‘ جواب ملا ’’نہیں شکریہ! آپ اگر مفت بھی کام کریں تو بھی میں اپنا ڈرائیور نہیں چھوڑوں گا‘‘ فون بند ہو گیا‘ پی سی او کا مالک سن رہا تھا‘ اس نے افسوس سے کہا ’’بیٹا ہمت نہیں ہارنی‘ تمہیں نوکری ضرور ملے گی‘‘ لڑکے نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں ان کا ڈرائیور ہوں‘ میں صرف یہ دیکھنا چاہتا تھا‘ کیا یہ لوگ میرے کام سے مطمئن ہیں؟‘‘
اردو
میں نے رخصت ہونے سے پہلے میزبان سے کہا ’’خان صاحب ماشاء اﷲ آپ کی اردو بہت اچھی ہے‘‘ میزبان سادہ سا دیہاتی تھا‘ اس نے تھوڑی دیر سوچا اور پھر پوری سنجیدگی سے جواب دیا ’’نہیں سر!آپ ویسے ہی بکواس کر رہے ہیں‘‘۔
مسائل
میں نے عرض کیا ’’میںمسائل میں گھرا ہوا ہوں‘‘ انھوں نے مسکرا کر جواب دیا ’’مسائل زندگی کی علامت ہیں‘ آپ زندہ ہیں تو مسئلے رہیں گے‘‘ وہ رکے اور پھر آہستہ سے بولے ’’دنیا میں صرف ایک جگہ ہے جہاں کوئی مسئلہ نہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کون سی جگہ‘‘ وہ بولے ’’قبرستان‘‘۔
کاروبار
میں نے پوچھا’’کیا میں کاروبار کر سکتا ہوں‘‘ وہ بولے ’’ہاں اگر آپ 24 میں سے 16 گھنٹے مسکرا سکتے ہیں تو!‘‘
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نے جواب دیا ہیں لیکن نے پوچھا نہیں ہو جاتا ہے سے کہا کے لیے

پڑھیں:

پاکستان نے حالیہ بھارتی جارحیت کا صرف جواب نہیں دیا، بازی ہی پلٹ دی، وزیراعظم

اسلام آباد/کوئٹہ :وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان نے حالیہ بھارتی جارحیت کا صرف جواب نہیں دیا بلکہ بازی ہی پلٹ دی جب کہ بھارت کو میدان جنگ اور سفارتی محاذوں پر بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کوئٹہ میں کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج میں افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دوست ممالک سے آنے والے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہیں، آپ کی یہاں موجودگی ہمارے بہترین تعلقات کی عکاس ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آج عام محاذ کے بجائے مختلف جہتوں میں صلاحیتوں کا امتحان ہے، کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج نے ہمیشہ شاندار خدمات انجام دی ہیں، ادارے نے تمام امتحانوں کے لیے بہترین خدمات انجام دیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کی آر میں جارحیت کی کوشش کی، بھارت نے جارحیت میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا، تاہم مسلح افواج نے پہلگام واقعے کی آڑ میں بھارتی اقدامات کا بھرپور دفاع کیا۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ مسلح افواج ہماری خود مختاری اور سالمیت کی محافظ ہیں، پاک افواج نے بہترین خدمات انجام دیں اور پاک فضائیہ نے تاریخی کارنامہ انجام دیتے ہوئے 7 ہائی ویلیو ٹارگٹ کو نشانہ بنایا جب کہ آئندہ بھی کوئی بھی مہم جوئی ہوئی تو اس کا منہ توڑ جواب دیں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو درپیش خطرات روایتی میدان جنگ تک محدود نہیں، 6 مئی کو بھارت نے میزائل حملے کیے تو پاکستان نے زمین اور فضاؤں میں منہ توڑ جواب دیا، پاکستان نے بھارتی جارحیت کا صرف جواب نہیں دیا بلکہ پازی بھی پلٹ دی۔ان کا کہنا تھا کہ اللہ نے ہمیں شاندار فتح سے نوازا، حکومت اور عوام اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ ہیں، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے باعث تاریخی کامیابی ملی، آرمی چیف نے ثابت کیا وہ فیلڈ مارشل کے رینک کے حقدار ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کو میدان جنگ اور سفارتی محاذوں پر بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا جب کہ ایئرچیف مارشل ظہر بابر سندھو نے بھارتی طیارے گراکر اپنی پیشہ وارانہ مہارت کو ثابت کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، بھارت کو پانی بطور ہتھیار استعمال کرنے نہیں دیں گے۔انہوں نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ کامیاب معاہدے سے معیشت کا استحکام ملا، معاشی استحکام کے لیے بنیادی سطح پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ حکومت نے ہر محاذ پر عظیم کامیابیاں سمیٹیں، معاشی بہتری سے عام آدمی کی زندگی بہتر ہوئی، مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہوکرسنگل ڈیجٹ پر آگئی۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے اسمگلنگ پر قابو پاکر معیشت کو استحکام دیا، حکومت کی کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس ہے، محصولات گزشتہ سال کے مقابلے میں 28 فیصد زیادہ رہیں جب کہ اپنے دفتر میں ہر ہفتے ایف بی آر کا اجلاس بلاتا ہوں اور کراچی پورٹ پر فیس لیس کسٹم اسسمنٹ سسٹم کا آغاز کردیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسمگلنگ پاکستانی معیشت کے لیے کینسر جیسا مسئلہ بن چکی ہے تاہم فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وجہ سے گزشتہ ایک سال میں اسمگلنگ میں نمایاں کمی آئی ہے۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ حالیہ کشیدگی کے بعد پاک افواج اور عوام کا مورال بلند ہے، ہمیں بطور قوم حالیہ موقع سے فائدہ اٹھاکر آگے بڑھنا ہے، عظیم قوموں میں اپنا نام شامل کرنے کے لیے سخت محنت شرط ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی اس ملک کے لیے ایک بڑا چینلج ہے، 90 ہزار پاکستانی دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں، 2018 میں دہشت گردی نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کیا جسے شکست دی جاچکی ہے۔مزید کہا کہ چین پاکستان کا ہر آزمائش کی گھڑی میں کام آنے والا دوست ہے اور سعودی عرب بھی پاکستان کا بہت قابل اعتماد دوست ہے جب کہ ہمیں اپنے قدرستی وسائل کو اچھے طریقے سے استعمال کرنا ہوگا۔

Post Views: 4

متعلقہ مضامین

  • دانش تیمور کے ’فِی الحال‘ کی اصل حقیقت کیا؟ شیف نے پردہ اٹھادیا
  • کم سن بچیوں کی شادی کا قانون ؛ آئین اور اسلام سے متصادم قانون کو تسلیم نہیں کرتے؛ مولانا فضل الرحمان
  • پاکستان نے حالیہ بھارتی جارحیت کا صرف جواب نہیں دیا، بازی ہی پلٹ دی، وزیراعظم
  • پیار دوبارہ بھی ہو سکتا ہے لیکن ایک ساتھ دو نہیں، ماہرہ خان
  • قلنگی مرغ اور بازوئے شمشیر زن (حصہ اول)
  • پاکستان، بھارت کشیدگی کے بعد سرحدی افواج میں کمی پر آمادہ لیکن خطرہ برقرار
  • وفاقی حکومت کا وفد اب تک 4 بار افغانستان گیا لیکن کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے. بیرسٹر سیف
  • بلاول بھٹو نے دنیا بھر کے دورے کیے لیکن افغانستان کا دورہ نہیں کیا، بیرسٹر سیف
  • ’ معاہدے ہو جاتے ہیں، لیکن ہتھیار نہیں پہنچتے‘، بھارتی فضائیہ کے سربراہ کا شکوہ