موثر آبی انتظامی حل تلاش کیے جائیں
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کے ایک ایک قطرہ پر پاکستانی عوام کا حق ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کی استطاعت بڑھانے، زراعت کے لیے درکار پانی کی فراہمی اور سیلاب کی روک تھام کے لیے نئے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہے، اب ہم بھارت کی دھمکیوں کا توڑ نکالنے کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کے لیے اقدامات کریں گے اور اس حوالے سے جلد چاروں صوبوں کو پانی کے مسئلے پر بلایا جائے گا تاکہ پانی کے ذخیرے اور گنجائش کو بڑھا کر بھارتی عزائم کو خاک میں ملا سکیں۔
وزیراعظم شہباز شریف کے گرانقدر خیالات کی روشنی میں دیکھا جائے تو بھارتی حکومت تمام بین الاقوامی معاہدے اور سفارتی آداب بھلا کر جنونی انداز اختیار کیے ہوئے ہے۔ اس جنونی کیفیت میں نریندر مودی نے چند روز قبل یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے ساتھ دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے اس معاہدے کے سلسلے میں بھارت کوئی نہ کوئی کارروائی کرسکتا ہے۔
دراصل پانی کے منابع پر بھارت قابض ہے، جب کہ ہم نے حاصل مواقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گزشتہ چالیس پینتالیس برسوں میں کوئی نیا آبی ذخیرہ بنانے کی مناسب سعی نہیں کی۔ اب صورتِ حال یہ ہو چکی ہے کہ جب برسات کا موسم آتا ہے تو ہمارے دو بڑے ڈیم تو کسی حد تک بھرجاتے ہیں، لیکن یہ پانی اتنا نہیں ہوتا کہ ہماری سردیوں کی ضروریات پوری کرسکے۔
جب پانی کے سرچشموں، یعنی گلیشئرز کا پگھلنا بند ہو جاتا ہے تو پانی کی قلت زیادہ ہو جاتی ہے، ویسے بھی گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشئرزکا حجم کم ہوتا جا رہا ہے۔ پھر ہمارے اس پورے خطے میں زیر زمین پانی کی ایک خاصی دبیز تہہ موجود تھی۔ زراعت اور بڑھتی ہوئی آبادی کے دوسرے مقاصد کے لیے پانی کے استعمال میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے یہ تہہ بھی سکڑتی جا رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ہمارا ملک بہت سے دوسرے خطرات کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت کے اندیشوں میں بھی گھرا نظر آتا ہے۔
دنیا کے کئی ممالک فاصلے کو پانی کی منتقلی میں رکاوٹ نہیں سمجھتے۔ اسرائیل نے پانی کو صاف کر کے اور قطرہ قطرہ آبپاشی کے ذریعے اپنی زراعت کو انقلاب بخشا۔ چین ہر سال اربوں مکعب میٹر پانی جنوب سے شمال کی طرف منتقل کر رہا ہے۔ تو پاکستان پہاڑوں سے میدانوں تک پانی کی شاہراہ کیوں نہیں بنا سکتا ؟ کچھ ابتدائی تصورات پہلے سے موجود ہیں۔
دیامر بھاشا ڈیم جو دیامر ضلع میں زیر تعمیر ہے۔ ایک مثبت قدم ہے، جو چھ ملین ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے اور 4500 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن ہمیں بڑے ڈیمز کے ساتھ ساتھ اپ اسٹریم گلگت بلتستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے ذخائر کا جال بھی چاہیے، یقیناً، اس تبدیلی میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ گلگت بلتستان کی دورافتادگی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو مہنگا اور مشکل بناتی ہے۔ یہ علاقہ ماحولیاتی لحاظ سے بھی نازک ہے، جہاں منصوبہ بندی میں احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ گلیشیئر نظام کو نقصان نہ پہنچے۔
پاکستان کے شمالی سرحدی علاقوں میں نجات کا ایک خاموش ذخیرہ موجزن ہے۔ سات ہزار سے زائد گلیشیئرز کا مسکن گلگت بلتستان قطبی علاقوں کے علاوہ دنیا کا سب سے بڑا میٹھے پانی کا ذخیرہ رکھتا ہے۔ بالٹورو اور بتورا جیسے قدیم گلیشیئرز سے فیض یاب دریا ہنزہ، غذر، سکردو اور دیگر علاقوں سے گزر کر ہر گرمیوں میں لاکھوں گیلن پگھلا ہوا پانی لے کر بہتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے زیادہ تر پانی یا تو ضایع ہو جاتا ہے یا تباہ کن سیلابوں کی صورت میں خطرہ بن جاتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز (PCRWR) کے مطابق، ملک تیزی سے پانی کی شدید قلت کی طرف بڑھ رہا ہے۔
2025 تک فی کس پانی کی دستیابی 500 مکعب میٹر سے بھی کم ہونے کا خدشہ ہے، جو عالمی آبی دباؤ کی حد سے بہت نیچے ہے۔ مسئلہ دہرا ہے، طلب میں اضافہ ہو رہا ہے جب کہ ذخیرہ اور انتظامی نظام فرسودہ ہو چکا ہے۔ تربیلا اور منگلا ڈیم، جو 1960 اور 70 کی دہائی میں بنائے گئے تھے، اب گاد بھرنے کی وجہ سے اپنی 35 فیصد ذخیرہ گاہ کھو چکے ہیں۔ پچھلی کئی دہائیوں میں کوئی بڑا نیا ڈیم مکمل نہیں ہوا۔ پاکستان کی موجودہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 30 دن کی ہے۔ اس بڑھتے ہوئے بحران کے بیچ گلگت بلتستان صرف خوبصورتی نہیں، بلکہ ایک قدرتی ’’واٹر بینک‘ ہے جو ہر موسم گرما میں برفانی پانی سے لبریز ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں زراعت کے شعبے میں ستانوے فی صد تک سطح پر موجود اور زیرِ زمین پانی استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے پانی کے وسائل کی بدانتظامی کے علاوہ عالمی حِدت کی وجہ سے بارشوں کے انداز کی تبدیلی اور ذخائر میں سرمایہ کاری ناکافی ہونے کے باعث پاکستان میں شدید سیلاب، قحط سالی اور قدرتی آفات میں اضافے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔ آبی امور کے ماہرین کے بہ قول ہم اس وقت سطح کے دست یاب پانی میں سے آٹھ فی صد سے بھی کم ذخیرہ کر رہے ہیں۔ دریائی نظام کی ماحولیاتی بہاؤ کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد ہم اضافی پانی کو بغیر استعمال کیے سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔
زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے ملک میں آب پاشی بہت اہم شعبہ ہے۔ پاکستان دنیا میں سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والا ملک ہے۔ اس کے ساتھ ہی پانی ذخیرہ کرنے کا نظام بھی ہمارے پاس بڑے ڈیموں کی صورت میں موجود ہے جن میں قابل ذکر تربیلا ڈیم، منگلا ڈیم اور دیگر بڑے چھوٹے ڈیم ہیں۔ تاہم آج سے پچاس سال قبل یہ بات یقینا قابل فخر تھی مگر جوں جوں وقت گزرا تو دو عوامل نہایت تیزی سے کام کرگئے جنھیں سمجھنا ضروری ہے۔
پہلی بات جو سمجھنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ نہری نظام وقت کے ساتھ بوسیدہ ہوتا چلا گیا اور ایک مسئلہ خصوصاً یہ آیا کہ کچی نہروں سے جو پانی زمین میں رستا رہا وہ ایک طرف تو پانی کے زیاں کا موجب بنتا رہا اور دوسری طرف سیم اور تھور جیسے مسائل پیدا کرتا رہا۔ ساتھ ہی یہ بھی ہوا کہ ڈیموں میں مٹی بھرنے سے ایک طرف تو ان کا حجم کم ہوتا چلا گیا اور دوسری طرف راک سائیکل میں بھی مداخلت ہوتی رہی، وہ یوں کہ پہاڑوں کی مٹی جو میدانی علاقوں کو زرخیز کرتی ہوئی سمندر میں جاتی ہے اور سمندری حیات کے لیے ضروری ہے، وہ ڈیموں میں رکنے لگی۔
دوسری بات جو اور بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ کہ وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی جدید ہوتی گئی، لیکن ہم اب تک صدیوں پرانے نظام آب پاشی پرانحصارکیے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں آج کل کم پانی میں زیادہ زمین سیراب کرنے والے جدید ترین آب پاشی کے نظام آچکے ہیں۔ جن میں ڈرپ اری گیشن اوراسپرنکلر سسٹم وغیرہ شامل ہیں۔ یہ ٹیکنالوجیز استعمال کرکے 80 سے90 فی صد پانی بچایا جا سکتا ہے۔ چناں چہ اگر ہمیں اپنے ملک کے آبی وسائل سے بھرپور فائدہ اٹھانا اور ملک کو ترقی دینی ہے تو ہمیں اپنے آبی ذخائر میں اضافہ کرنا ہوگا یا پھرکھیتوں میں جو بے پناہ پانی ضایع کیا جا رہا ہے اس میں کمی لانا ہوگی یا پھر دونوں طریقوں پر غورکرنا ہوگا۔
ایک جانب یہ صورت حال ہے اور دوسری جانب ہمارے ہاں زیادہ پانی مانگنے والی فصلیں جیسے کہ گنا اور چاول وغیرہ کی کاشت بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح کپاس کی فصل جوکم پانی لیتی تھی اب اس کی کاشت میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور اس کی جگہ گنے کی کاشت بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر فصلیں جیسے کہ سورج مکھی وغیرہ جو کم پانی میں اگ جاتی ہیں اور زیادہ منافع دیتی ہیں، ان کی کاشت بڑھانے کی ضرورت ہے۔
پانی کے وسائل اور ذرایع میں اضافے کے بارے میں بھی سوچا جانا چاہیے۔ ہر سال ہزاروں، بلکہ لاکھوں ایکڑ فٹ پانی دریاؤں کے راستے سمندر میں بہا دیا جاتا ہے۔ اس پانی کو بچا کر استعمال میں لایا جا سکتا ہے اور اس پانی کو استعمال میں لانے کا سب سے بہتر طریقہ ایک بڑے ڈیم کی تعمیر ہے۔ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ قومی اہمیت کے حامل کالا باغ ڈیم کو علاقائی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے اور ہماری حالت یہ ہو چکی ہے کہ خریف اور ربیع کی فصلوں کی آب پاشی کے لیے مناسب مقدار میں پانی ہی دستیاب نہیں ہوتا۔ اب بھی اگر ہم نہ جاگے تو نہ صرف ہمیں، بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پانی ذخیرہ کرنے گلگت بلتستان ا ب پاشی کے ساتھ کی کاشت جاتا ہے پانی کی بڑے ڈیم پانی کو پانی کے سے بھی کے لیے رہا ہے رہی ہے ہے اور
پڑھیں:
قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس 5جون کو طلب ، بجٹ اہداف کی منظوری دی جائیگی
قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس 5جون کو طلب ، بجٹ اہداف کی منظوری دی جائیگی WhatsAppFacebookTwitter 0 3 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس 5جون کو طلب کر لیا گیا،وزیراعظم شہباز شریف قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کی صدارت کریں گے ،قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں بجٹ اہداف کی منظوری دی جائے گی
قومی ترقیاتی پلان، پی ایس ڈی پی، میکرو اکنامک اہداف کا جائزہ لیا جائے گا ۔ اجلاس میں نئے مالی سال کی معاشی شرح نمو، زراعت، صنعت، سروسز سیکٹر کے اہداف کی منظوری دی جائے گی ،اجلاس میں وفاق کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کے نمائندے شرکت کریں گے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسی بی اے یونین کے ساتھ مذاکرات کر کے فی الفورتمام مطالبات حل کیے جائیں،چوہدری محمد یسین سی بی اے یونین کے ساتھ مذاکرات کر کے فی الفورتمام مطالبات حل کیے جائیں،چوہدری محمد یسین افغانستان سے مذاکرات کے عمل میں خیبرپختونخوا کو شامل ،صوبے میں ڈرون حملے بند کیے جائیں، علی امین گنڈا پور کا مطالبہ رواں مالی سال تنخواہ دار طبقے کی طرف سے سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کا انکشاف کہتے ہیں 9مئی پر معافی مانگیں، دباو بڑھتا ہے تو میرے پاس ٹیمیں بھیجتے ہیں، عمران خان بھارت میں آر ایس ایس کی سکھوں کو دہشتگرد قرار دینے کی سازش بے نقاب سعودی عرب نے پاکستانیوں کے ویزے کم کردیے،قائمہ کمیٹی اوورسیز پاکستانیز کو بریفنگCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم