190ملین پاؤنڈ کیس؛منتوں، مرادوں اور دعاؤں کے بعد آج کی تاریخ ملی ہے،وکیل سلمان صفدر کا عدالت میں بیان
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)190ملین پاؤنڈ ریفرنس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی سزامعطلی کی درخواست پروکیل سلمان صفدر نے کہا کہ آج سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت ہے،منتوں، مرادوں اور دعاؤں کے بعد آج کی تاریخ ملی ہے،آج کی تاریخ ہمیں آسانی سے نہیں ملی۔
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں 190ملین پاؤنڈ ریفرنس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی،قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد آصف نے سماعت کی،علیمہ خان بھی دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔
قومی اقتصادی کونسل نے4 ہزار 224 ارب کے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دے دی
وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ آج سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت ہے،منتوں، مرادوں اور دعاؤں کے بعد آج کی تاریخ ملی ہے،آج کی تاریخ ہمیں آسانی سے نہیں ملی،بانی پی ٹی آئی کیخلاف سپیشل ٹیم لانا چاہتے ہیں، لائیں، ہم نہیں گھبراتے۔
وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ بنچ کے سامنے سزا معطلی کی 2اپیلیں زیرسماعت ہیں ،عدالت میں سائفر ، توشہ خانہ جیسے متنازع کیسز آئے، پہلے توشہ خانہ ون، پھر توشہ خانہ ٹو اور پھر 190ملین پاؤنڈ کیس آ گیا، بانی پی ٹی آئی کیخلاف 300 سے زائد مقدمات درج کئے گئے،یہ کیسے کیسز ہیں جن میں 6ماہ میں میاں بیوی کو جیل میں رکھا ہوا ہے،یہ بانی پی ٹی آئی کے خلاف متنازع ترین فیصلہ ہے،جن ججز نے اس کا فیصلہ سنایاان کیخلاف سپریم کورٹ کی آبزرویشنز ہیں۔
نوجوان پر تشدد کاکیس، عدالت نے ملزم سلمان فاروقی اور اویس ہاشمی کی درخواست ضمانت پر محفوظ فیصلہ سنا دیا
وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ بانی پی ٹی آئی بغیر کسی ثبوت کے جیل میں ہیں،بانی پی ٹی آئی نہ بیرون ملک جائیں گے نہ ہی ریکارڈ ٹمپر کرنے کا خطرہ ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ گزارش ہے کیس میں وفاقی حکومت نے سپیشل پراسیکیوٹر تعینات کیاتھا،ابھی وفاقی حکومت نے کوئی پراسیکیوٹر جنرل تعینات نہیں کیا، مجھے گزشتہ رات اس کیس کا پتہ چلا اور نوٹس ملا، نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے استدعا کی کہ ہمیں وقت دے دیں۔
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس میں کرپشن الزامات، حیران کن موڑ سامنے آ گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کی گمشدگی اور کرپشن الزامات کا کیس ایک نیا اور ڈرامائی موڑ اختیار کر گیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کے دوران ایسے انکشافات سامنے آئے جنہوں نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ عدالت میں پولیس، وکیلِ صفائی اور درخواست گزار کی جانب سے پیش کیے گئے دلائل نے اس کیس کے مختلف پہلوؤں پر کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سماعت کے دوران ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف باقاعدہ کرپشن کیس درج ہو چکا ہے، ان کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے اور ان کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عثمان نے خود اپنے تحریری بیان میں تسلیم کیا کہ وہ جاری انکوائری کے باعث روپوش تھے۔ پولیس کے مطابق عثمان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک مشہور ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی تھی۔
درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل رضوان عباسی نے اس مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ عثمان کو 15 دن تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں گرفتاری ظاہر کی گئی۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار سے عثمان کو اغوا کیا گیا اور ان کی گرفتاری بعد میں ظاہر کر کے قانونی کارروائی کا لبادہ اوڑھا گیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کے دستخط زبردستی لیے گئے اور ان کے تحریری بیان کی ہینڈ رائٹنگ بھی ان سے مطابقت نہیں رکھتی۔
وکیل نے الزام لگایا کہ اغوا کے شواہد موجود ہیں، جن میں ایک ویڈیو بھی شامل ہے جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ چار افراد نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔ یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ ایک عام طریقہ کار بنتا جا رہا ہے کہ پہلے کسی کو اٹھا لیا جاتا ہے اور بعد میں اس کی گرفتاری ظاہر کر دی جاتی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ چونکہ اب مقدمہ درج ہو چکا ہے اور عثمان جسمانی ریمانڈ پر ہے، اس لیے عدالت کے لیے اسے یہاں طلب کرنا ممکن نہیں، تاہم وکیل نے مؤقف اپنایا کہ چونکہ واقعہ اسلام آباد کے دائرہ اختیار میں پیش آیا، اس لیے ہائی کورٹ کو معاملے پر سماعت کا حق حاصل ہے۔
دوسری جانب پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ ملزم کے خلاف باقاعدہ انکوائری اور ایف آئی آر دونوں موجود ہیں، اس لیے بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔ وکیلِ صفائی نے مؤقف اختیار کیا کہ اگر عثمان نے واقعی رشوت لی ہے تو قانون کے مطابق کارروائی ضرور کی جائے، مگر کسی شہری کو اغوا کر کے یا غیر قانونی طور پر حراست میں رکھ کر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔