مالی سال 25-2024ء میں پی ایس ڈی پی 13 ارب اور اے ڈی پی 22 ارب روپے تھے۔ مالی سال 26-2025ء میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کا تھرو فارورڈ 1 کھرب 10 ارب روپے سے زائد اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کا تھرو فارورڈ 1 کھرب 9 ارب روپے تک ہونے کی توقع ہے۔ اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان مالی سال 26- 2025ء ترقیاتی بجٹ میں پی ایس ڈی پی 15 ارب روپے اور اے ڈی پی 22 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔ مالی سال 25-2024ء میں پی ایس ڈی پی 13 ارب اور اے ڈی پی 22 ارب روپے تھے۔ مالی سال 26-2025ء میں پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کا تھرو فارورڈ 1 کھرب 10 ارب روپے سے زائد اور سالانہ ترقیاتی پروگرام کا تھرو فارورڈ 1 کھرب 9 ارب روپے تک ہونے کی توقع ہے۔ پی ایس ڈی پی بجٹ کا تھرو فارورڈ تجویز کردہ بجٹ سے سات گنا زیادہ ہونے سے سکیموں کو مکمل ہونے میں سات سال سے زیادہ کا عرصہ درکار ہو گا، تھرو فارورڈ بڑھ جانے سے غواڑی ہائیڈرل پاور پروجیکٹ، استور ویلی روڈ، شاہراہ نگر، ہینزل ہائیڈرل پاور پروجیکٹ، داریل تانگیر ایکسپریس وے جیسے پروجیکٹس ریوائز ہو جائیں گے جس سے ان کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: پی ایس ڈی پی مالی سال

پڑھیں:

اعتراضات دور کیے بغیر لینڈ ریفارمز ایکٹ قبول نہیں، انجمن امامیہ گلگت بلتستان

اجلاس میں طے ہوا کہ جب تک یہ اعتراضات دور نہیں کئے جاتے تب تک اس ایکٹ کو کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ اعتراضات یہ ہیں کہ 1986ء سے تا ایں دم الائٹمنٹس پر پابندی کے باوجود وفاقی و صوبائی اداروں کے نام الاٹ شدہ ہزاروں کنال زمین کو منسوخ کئے بغیر قانونی تحفظ دینا عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سکردو میں مرکزی انجمن امامیہ بلتستان اور مرکزی انجمن امامیہ گلگت کا ایک مشترکہ اجلاس زیر صدارت صدر انجمن امامیہ بلتستان آغا سید باقر الحسینی منعقد ہوا جس میں علامہ سید راحت حسین الحسینی نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ اجلاس میں گلگت بلتستان کے مختلف سیاسی و سماجی ایشوز پر گفت و شنید ہوئی، بالخصوص لینڈ ریفارمز ایکٹ اور عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماوں کی گرفتاری پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں طے ہونے والے فیصلوں کی روشنی میں مرکزی انجمن امامیہ گلگت اور مرکزی انجمن امامیہ بلتستان کا یہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا کہ لینڈ ریفارمز ایکٹ میں گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے عوامی اعتراضات کو دور کیا جائے۔ گلگت بلتستان کے عوام کا موقف یہ ہے کہ دریا کے کنارے سے لے کر پہاڑ کی چوٹی تک کی زمین عوام کی ہے اور گلگت بلتستان کے عوام ہی ان زمینوں کے مالک ہیں۔ لہذا لینڈ ریفارمز ایکٹ کو عوامی حقوق کا محافظ ایکٹ بنانے کے لئے اس میں موجود اعتراضات کو دور کیا جائے۔

اجلاس میں طے ہوا کہ جب تک یہ اعتراضات دور نہیں کئے جاتے تب تک اس ایکٹ کو کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ اعتراضات یہ ہیں کہ 1986ء سے تا ایں دم الائٹمنٹس پر پابندی کے باوجود وفاقی و صوبائی اداروں کے نام الاٹ شدہ ہزاروں کنال زمین کو منسوخ کئے بغیر قانونی تحفظ دینا عوام کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ نیز الائٹس شدہ رقبہ جات کو تا حال مخفی رکھا گیا ہے۔ دس فیصد زمین کو سرکار کے نام مختص کرنے کے لئے جو شق رکھی گئی ہے وہ بھی عوامی حقوق کے تحفظ کی منافی ہے۔ زمینوں کے حوالے سے ضلعی سطح پر کمیٹی کے قیام کے لئے منتخب عوامی نمائندوں کی بے توقیری کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کو چئیرمین بنا کر مزید با اختیار بنانا نہ صرف عوامی حقوق سے روگردانی کا سبب ہوگا بلکہ منتخب عوامی نمائندوں کے وقار کو بھی مجروح کرنے کا باعث بنے گا۔ ایکٹ میں یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ گلگت بلتستان کے تمام پہاڑ عوامی ملکیت ہونگے مگر اس سے پہلے ہی حکومت نے ان تمام پہاڑوں کو آن لائن لیز کے ذریعے مختلف غیر مقامی لوگوں کے نام دے چکی ہے جس پر شدید تحفظات ہے۔

ایکٹ میں زمینوں کے حوالے سے ڈسڑکٹ بورڈ کے فیصلے کو حتمی قرار دے کر سول عدالتوں میں جانے سے روکنے کے لئے جو قانون وضع کیا گیا ہے وہ بھی پاکستانی آئین، قانون اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ گورنر گلگت بلتستان سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس بل کو واپس اسمبلی میں بھیج دیں اور ان تمام اعتراضات کو دور کرنے کے بعد ایکٹ کو حتمی شکل دیا جائے بصورت دیگر عوام اس ایکٹ کے خلاف تحریک چلانے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ اجلاس میں مزید کہا گیا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے بعض اراکین کو عوامی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے کی پاداش میں بلاجرم و خطا گرفتار کیا گیا ہے لہذا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ان گرفتار شدہ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ان کے خلاف مقدمات کو ختم کیا جائے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ درج بالا مطالبات پر غور نہ ہونے اور عملی اقدامات نہ کرنے کی صورت میں ہم یہ حق محفوظ رکھتے ہیں کہ وہ احتجاجی اقدامات کرنے پر مجبور ہو جائیں، لہذا درج بالا مطالبات کو حکومتی ارباب فوری طور پر حل کریں بصورت دیگر حکومت کو سخت عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

متعلقہ مضامین

  • فہد ہارون کی وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے ملاقات، ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے علاقائی ترقی پر زور
  • نئے مالی سال کابجٹ، وزیراعظم آفس کی سجاوٹ کیلئے6 کروڑ 50 لاکھ روپے رکھنے کی تجویز
  • وفاقی حکومت کا بجٹ میں کراچی کے منصوبوں کیلئے فنڈز رکھنےکافیصلہ
  • گلگت بلتستان کے تمام سرکاری دفاتر میں بائیو میٹرک حاضری نظام نافذ
  • گلگت بلتستان، بچوں کی ابتدائی نشودنما کی پالیسی محکمہ تعلیم کے ذریعے نافذ کرنے کا فیصلہ
  • اسلام آباد، دیامر ڈیم متاثرین کے مسائل کے حل کیلئے اعلیٰ سطح کا اجلاس
  • اعتراضات دور کیے بغیر لینڈ ریفارمز ایکٹ قبول نہیں، انجمن امامیہ گلگت بلتستان
  • گلگت بلتستان کے تمام اساتذہ کی سکروٹنی اور سروس ریکارڈ کی جانچ پڑتال کا حکم
  • آئندہ مالی سال کیلئے ترقیاتی بجٹ تقریباً 4 ہزار ارب روپے رکھےجانے کا امکان