جے یو پی کے رہنمائوں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ اب جاگنے کا وقت ہے اور وقت آن پہنچاں کہ امریکہ کی ناچائز اولاد اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹادیا جائے، جب امریکہ سمیت یورپی ممالک اور بھارت دہشتگرد اسرائیل کے ساتھ کھل کر کھڑے ہیں تو پاکستان، سعودیہ عرب، قطر، ترکی، افعانستان، بنگلہ دیش، عمان سمیت مسلم دنیا کو ایران کے ساتھ کھل کر کھڑا ہونا چاہیے۔  اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی نائب صدر مولانا حاجی عاشق علی قادری دیگر رہنما میاں عبدالسلام قریشی، علامہ صادق سیرانی، علامہ عرفان قادری نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا اسرائیل مسلمانوں کے خون کا پیاسہ اور پوری امت کا بلاتفریق مشترکہ دشمن ہے، جس کے ہاتھ لبنان، یمن، فلسطین، غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور اب ایران پر بھی حملہ آور ہے، اسرائیلی جارحیت اقوام عالم کے امن کے لئے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ عاشق علی قادری نے کہا یہ وقت امت کے اختلافات کا نہیں بلکہ آپس میں متحد ہوکر یہودیوں کے خلاف کھڑا ہونے کا ہے، دشمن یہ نہیں دیکھ رہا ہے مسلمان کا تعلق کس فقہ سے ہے وہ بس مسلمانوں کو نشانہ بنارہا ہے، اسماعیل ہانیہ اور ابراہیم رئیسی کو اسرائیلی میزائل لگے، وقت آگیا ہے کہ امت ایک ہوکر اسرائیل کو سبق سکھائے۔

 انہوں نے مزید کہا اسلامی دنیا ہوش کے ناخن لے دو سال سے فلسطین میں زبانی مذمت سے کچھ نہیں ہوا، پاکستان کو ہوشیار رہنے کے ساتھ ایران کا بھرپور دفاعی طور پر عملی ساتھ دینا ہوگا، آج اسرائیل پاکستان کے بارڈر پر آگیا اس سے پہلے اس کے ناپاک قدم پاک وطن کی طرف بڑھنے کا سوچیں ان کو کاٹ دینا چاہیے، ایران کا دفاع پاکستان کا دفاع ہے، غزہ میں جاری ظلم و بربریت پر مسلم دنیا سمیت عالمی برادری سوتی رہی اب جاگنے کا وقت ہے، وقت آن پہنچا کہ امریکہ کی ناچائز اولاد اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹادیا جائے، جب امریکہ سمیت یورپی ممالک اور بھارت دہشتگرد اسرائیل کے ساتھ کھل کر کھڑے ہیں تو پاکستان، سعودیہ عرب، قطر، ترکی، افعانستان، بنگلہ دیش، عمان سمیت مسلم دنیا کو ایران کے ساتھ کھل کر کھڑا ہونا چاہیے۔ 

 

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے ساتھ کھل کر کا دفاع

پڑھیں:

امریکہ اور یورپ جانے کے منتظر افغان، غیر یقینی کی وجہ سے پریشان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اگست 2025ء) ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد اور پشاورمیں گزشتہ تین برس سے زائد عرصے سے یورپ اور امریکہ جانے کے منتظرہیں۔ امریکہ نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ افغانستان میں امریکی فورسز کے لیے کام کرنے والوں کو امریکہ میں آباد کیا جائے گا لیکن امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اس وعدے پرعمل درآمد روک دیاگیا۔

امریکی پالیسی تبدیل ہونے کے ساتھ ہی پاکستان نے بھیافغان باشندوں کے خلاف کریک ڈاون شروع کر دیا گیا۔ اب یہ افغان گرفتاری اورڈی پورٹ ہونے کے خوف سے گھروں تک محدود رہتے ہیں۔

امریکی پالیسی میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ دیگر مغربی ممالک کا بھی افغان مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ دینے کا عمل انتہائیسست روی کا شکار ہے۔

(جاری ہے)

اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین ان افراد کومختلف ممالک میں آباد کرنے کی کوشیش کر رہا ہے۔

جنوری 2025 میں افغان مہاجرین کی امریکہ میں آبادکاری کا سلسلہ روکا گیا، تواسی ماہ پاکستان نے افغان مہاجرین کو بے دخل کرنے کا مہم کا آغاز کر دیا، جس کی وجہ سے ماضی میں افغانستان میں امریکہ، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کے لیےکام کرنے والوں سمیت سابقہ افغان حکومت کے ساتھ کام کرنے والوں کی مایوسی میں اضافہ ہوا۔

افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد لاکھوں کی تعداد میں افغان کسی اور ملک میں پناہ لینے کے لیے پاکستان پہنچ گئے تھے تاہم اب ان کی مشکلات میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔

امریکہ جانے کے منتظر ایک افغان شہری رحیمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''2021میں امریکہ، جرمنی اور یورپی ممالک نے ان افغانوں سے وعدہ کیا کہ ہم انہیں اپنے ملک میں پناہ دیں گے لیکن چارسال ہوچکے ہیں اور اب بھیہزاروں افراد کسی تیسرے ملک میں آباد کاری کے منتظر ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ طویل انتظارنے لوگوں کو مایوس کر دیا ہے اورکئی افراد نے اسی تناظر میں خودکشی تک کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ڈیڑہ سال سے کئی افراد کے انٹرویوز بھی ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک وہ فیصلے کے منتظر ہیں۔ رحیمی کی قیادت میں دو سو ستر ایسے افراد اب اپنے مسئلے کے حل کی اجتماعی کوشش کر رہے ہیں۔

رحیمی نے بتایا کہ پاکستان بھر میں 24 ہزار افغان موجود ہیں جو کسی تیسرے ملک جانا چاہتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر افغانوں نےامریکہ، جرمنی اورکینیڈاکے لیے درخواستیں دے رکھیہیں۔

ان لوگوں کا افغانستان لوٹنا موت کودعوت دینے کے برابر ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے دو دن قبل کچھ لوگوں کوجرمنی بھیجا ہے۔ '' طالبان کی آمد کے بعد چار لاکھ سے زیادہ افغان پاکستان پہنچے تھے۔ ان میں غیرملکی اداروں کے لیے کام کرنے والوں کے ساتھ ساتھ افغان حکومت کے ساتھ کام کرنے والے بھی شامل تھے۔

یواین ایچ سی آر ان میں زیادہ تر کے کیسز پراسسس کر رہا ہے لیکن یہ عمل سست روی کا شکار ہے۔

کسی تیسرے ملک پہنچنے کے منتظر افغانوں میں ایک بڑی تعداد خواتین کی بھی ہے۔ کچھ ایسی خواتین بھی ہیں، جن کے شوہر افغانستان میں مارے جا چکے ہیں۔ یہ خواتین خود کو اور اپنے بچوں کو افغانستان میں غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔

ایسی ہی ایک افغان خاتون ظریفہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم اپنے خاندان کے چار افراد ہیں، جوجرمنی جانے کے لیے درخواست دیے ہوئے ہیں لیکن چارسال گزر جانے کے باوجود یہ عمل سست روی کا شکار ہے اور ہماری مشکلات میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔

‘‘ ویزہ ختم ہونے پر مشکل کا سامنا

پاکستان میں مقیم افغان باشدوں کی ایک بڑی تعداد اس وقتہنگامی بنیادوں پرافغانستان چھوڑنا پڑا، جب طالبان نے سن دو ہزار اکیس میں کابل پر قبضہ کر لیا۔‍ ایسے میں ان میں کئی افراد بغیرکسی ضروری دستاویز یا ویزےکے پاکستان پہنچ گئے تھے لیکن کسی تیسرے ملک میں پناہ لینے کا وقت آیا توانہیں ان سے مطلوبہ دستاویزات طلب کیں گئیں جو اکثر کے پاس نہیں تھیں۔

انہیں افغانستان جانے اور وہاں سے پاکستان کاویزہ لینے میں بہت بڑے خطرے کا سامنا تھا۔ طالبان کےخوف سے پاکستان آنے والوں میں زیادہ ترامریکی،جرمن اوردیگر مغربی ممالک کی افواج اور غیرسرکاری تنظیموں سمیت سابقہ افغان حکومت کے ساتھ کام کرنے والے افراد شامل ہیں اور انہیں افغانستان واپسی پر گرفتاری اورطالبان کے ہاتھوں تشدد کا خوف لاحق ہے۔

پاکستانی ویزہ لینے میں مشکلات

اگرچہ عموماﹰ خیبر پختونخوا میں مقیم زیادہ تر افغان باشندوں کے پاس کسی قسم کی قانونی دستاویزات نہیں ہوتیں لیکن کچھ عرصے سے بغیردستاویزات کے پاکستان آمد پرپابندی کی وجہ سے افغان باقاعدہ ویزہ لیکرپاکستان آتے ہیں لیکن ویزہ کے حصول کے لیے انہیں بھاری فیس ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کئی دن تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں روزمرہ اخراجات کیسے نمٹائے جاتے ہیں

امریکہ،جرمنی اوردیگرممالک میں آباد کاری کےمنتظر افغان باشندوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ انہیں پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں جبکہ ان کے بچے تعلیمی اداروں میں داخل نہیں ہوسکتے۔ پاکستان کے دیگر شہروں کے مقابلے میں اسلام آباد ایک انتہائی مہنگا شہر ہے لیکن کسی اور ملک میں آبادکاری کےمنتظر افغانوں کومتعلقہ سفارتخانوں کے ساتھ رابطوں کے لیے مجبوراﹰ اسلام آباد میں رہنا پڑتا ہے۔

ان میں کئی افغان ایسے ہیں جن کے مغربی ممالک میں رہائش پذیر قریبی رشتہ دار انہیں ماہانہ اخراجات کے لیے رقم ارسال کرتے ہیں۔ سال رواں کے آغاز میں حکومت پاکستان نے افغان باشندوں کے حوالے سے سخت ترین پالیسیویوں پر عمل درآمد شروع کیا تھا۔ تازہ پالیسی کے تحت اسلام آباد سمیت دیگرصوبوں اورپاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مقیم افغان باشندوں کوگرفتارکرکے افغانستان ڈی پورٹ کیا جاتا ہے۔

خیبر پختونخوا کی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی کے وسط تک 5 لاکھ 71ہزارافغانوں کوخیبرپختونخوا کےسرحدی راستوں سے افغانستان ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔ قانونی تقاضے کیا ہیں

جب اس سلسلے میں ڈی ڈبلیو نے معروف قانون دان نعمان محب کاکا خیل بتا سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''اگر انسانی حقوق کے حوالے سے بات کی جائے تو جو لوگ یہاں پیدا ہوئے ہیں، انہیں یہاں کی نیشنلٹی دی جانا چاہیے لیکن اس کے لیے انہیں افغانستان کی شہریت ختم کرنا پڑے گی۔

اگر حکومت انہیں زبردستی واپس افغانستان بیجھتی ہے تو انہیں وہاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ افغانستان ایک جنگ زدہ ملک ہے۔ وہاں روزگار نہیں ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ''پاکستان جنیوا ریفیوجی کنوینشن کا دستخط کنندہ ملک نہیں اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے ساتھ موجودہ معاہدے کی معیاد 31جولائی کو پوری ہو رہی ہے۔

یکم اگست کے بعد یو این ایچ سی آر اسلسلے میں باقاعدہ تعاون نہیں کر پائے گا۔ لیکن افغان مہاجرین پاکستانی معیشت پر ایک طرح سے بوجھ بھی ہیں اور پاکستان نے انہیں اپنے ملک جانے کے لیے ڈیڈلائن دے رکھی ہے۔‘‘

امریکہ نے پاکستان کوان امریکہ جانےوالے درخواست کنندگان کےخلاف کاروائی نہ کرنے کا کہا ہے پشاور میں امریکہ جانے کے درخواست کنندگان کے ایک نمائندے کا کہنا تھا کہ ایسے افغانوں کی تعداد 24ہزار سے زیادہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کیا غزہ میں جاری جرائم کی مذمت کافی ہے؟
  • پاک ایران وزرائے دفاع کی ملاقات، دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ
  • امریکہ اور یورپ جانے کے منتظر افغان، غیر یقینی کی وجہ سے پریشان
  • ٹرمپ کی آذربائیجان سمیت وسطی ایشیائی ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے قائل کرنے کی کوششیں
  • امریکہ کے ساتھ ٹیرف معاہدہ پاکستانی برآمدات کے لیے نئے مواقع کا ضامن: وزارت خزانہ
  • وزارت داخلہ کا عمران خان کے بیٹوں کی پاکستان آمد سے متعلق بیان سامنے آگیا
  • امریکہ کا ٹیرف اور پابندیاں لگانے کا اصل ہدف دنیا سے اسرائیل کو منوانا ہے، علامہ جواد نقوی
  • نظام المدارس پاکستان کے زیراہتمام دفاع وطن قومی یکجہتی کانفرنس کا انعقاد
  • چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا دورہ مصر، صدر سمیت اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات
  • ٹرمپ کا پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ اور تیل کی شراکت داری کا اعلان