اتنا بڑا حملہ مگر ایران میں الرٹ، پیشگی تیاری اور نہ مزاحمت
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آخری قسط
ایران نے شام میں اپنے قیام اور جنگی طاقت کے باوجود شام اور لبنان کے علاقوں پر اسرائیل کی طرف سے بار بار حملوں کے سامنے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ایران اس وقت بھی خاموش رہا جب اسرائیل نے ماضی قریب میں ایران کی پراکسی حزب اللہ پر انتہائی جارحانہ حملے کیے اور اس کی طاقت کو مکمل طور پر برباد کرکے رکھ دیا۔ ستمبر 2024 میں اسرائیل نے بیروت میں حزب اللہ کے مرکزی ہیڈکواٹر پر لڑاکا طیاروں کی مدد سے 80 سے زائد بم گرائے، ہیڈکواٹر اس کے اردگرد کی عمارتوں کو تباہ، سیکڑوں افراد کو ہلاک اور زخمی، حزب اللہ کے سینئر کمانڈروں بشمول حسن نصراللہ کو مار دیا لیکن ایران سخت بیانات تک محدود رہا اور اسرائیل سے براہ راست جنگ سے گریز کیا۔
پچھلی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اسرائیل ایران کے اندر اور باہر متعدد بار ایرانی رہنمائوں اور سائنسدانوں کو نشانہ بنارہا تھا۔ خاص طور پر ان افراد کو جو ایران کے ایٹمی پروگرام یا عسکری ساخت میں شامل تھے۔ ماسود علی محمدی جیسے معروف نیو کلیئر فزکس کے پروفیسر کو ایک موٹر بائیک بم کے ذریعے، مجید شہریاری کو کار بم حملے میں، داریوش رضائی نژاد کو اس کے گھر سے باہر گولی مارکر، مصطفی احمدی روشن کو کار بم دھماکے اور محسن فخری زادہ جیسے سائنس دان اور عسکری ماہرین کو خود کار ہتھیاروں کے ذریعے قتل کردیا لیکن ایران نے بیش تر صورتوں میں رسمی اور جارحانہ پروپیگنڈے کے سوا کوئی عملی کارروائی نہیں کی جس سے اس کی جنگی صلاحیت اور سیکورٹی ایجنسیوں کی طاقت کمزور ہوتی چلی گئی۔ جس کا خمیازہ وہ آج بھگت رہا ہے۔
ایران کو اسرائیل سے برسر پیکار دوسری قوتوں اور اردن، لبنان یا مصر پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ ایران 22 ستمبر 1980 سے لے کر 20 اگست 1988 تک تقریباً 8 سال عراق سے برسر جنگ رہا۔ یہ بیسویں صدی کی طویل ترین روایتی جنگوں میں شمار ہوتی ہے۔ وہ فوجی اسلحہ بنانے اور شام میں جنگ کا طویل تجربہ رکھتا ہے لیکن اسرائیل کے خلاف ہمیشہ اس کا ردعمل خالی بیان بازی سے آگے نہ بڑھا جس نے اسرائیل کو اس کے خلاف سخت سے سخت تر، جارحانہ اور زیادہ نقصان دہ حملوں کی تیاری کی ترغیب دی۔
اسرائیل آج ایران کو ختم کرنے کے درپے ہے لیکن ایران کبھی کسی بھی مرحلے پر اس حد تک نہیں گیا کہ اسرائیل کو ختم کرنا تو درکنار اس پر کاری ضرب ہی لگا سکے۔ اس طرز عمل میں ایران بتدریج خطے میں اپنی طاقت سے محروم اور اندرونی طور پر کمزور ہوتا چلا گیا۔ یہ ایک رکی ہوئی جنگ تھی جس کا ایران کو آج سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور کوئی ایسی معاون قوت موجود نہیں شام سے اردن اور لبنان تک جو اسرائیل کے خلاف اس کی مددکو آسکے۔ اسرائیل ایک ایک کرکے سب کو ختم کرتا رہا لیکن ایران نے اپنی قوتوں کو بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ حتیٰ کہ درمیانی رکاوٹوں عراق، لیبیا، شام، حماس اور حزب اللہ کے خاتمے کے بعد اسرائیل کا ایران پر حملہ کرنا آسان ہوگیا۔
جہاں تک حملے کے جواز کے لیے ایران کے نیو کلیئر پروگرام کا تعلق ہے وہ محض بہانہ ہے اس کی حقیقت صدام حسین کے ’’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں‘‘ سے زیادہ نہیں ہے۔ بیش تر امریکی اہلکار یہ بیان دے چکے ہیں حتیٰ کہ کانگریس کے سامنے بھی اور امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں نے تسلیم کیا ہے کہ ایران کی نیو کلیئر صلاحیت ایٹم بم بنائے جانے کے قابل تو درکنار اس کے قریب بھی نہیں ہے۔ یہ سارا ڈراما تھا کہ ساٹھ فی صد تک انرچمنٹ ہوچکی ہے، نئے سینٹری فیوجز لگ رہے ہیں۔ کوئی اس قسم کا امکان نہیں ہے کہ ایران ایٹم بم بنا نے جارہا ہے 2018 سے خامنہ ای کی لیڈر شپ نے قدرتی یورینیم میں موجود یورینیم 235 کی مقدار کو بڑھانے یعنی انرچمنٹ کا سلسلہ روک رکھا ہے۔ وہ صدر اوباما سے کیے گئے معاہدے کے پابند ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ ایران ایٹم بم بنارہا ہے اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ ایران خود پر عائد امریکی پابندیوں کا خاتمہ چاہتا ہے تاکہ وہ اپنی معیشت کو رواں کرسکے اور اپنے عوام کی خوشحالی کے لیے کچھ کرسکے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔
اسرائیل، امریکا اور یورپ، ایران کے ایٹمی پروگرام سے فکر مند نہیں ہیں وہ دراصل ایران میں رجیم کی تبدیلی یعنی برسر ِ اقتدار حکومت یا نظام اقتدار کو زبردستی یا بیرونی مداخلت کے ذریعے تبدیل کرکے وہاں نیا نظام، حکومت یا قیادت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ عراق میں، لیبیا میں، اور شام میں کرچکے ہیں۔ یہی وہ ایران میں چا ہتے ہیں۔ ایران میں رجیم کی تبدیلی عالمی سطح پر امریکا کی ضرورت ہے۔ چین اور روس مل کر ’’برکس BRICS‘‘ کو توسیع دے رہے ہیں تاکہ یہ مغربی طاقتوں کے متوازی ایک مضبوط گلوبل سائوتھ بلاک کے طور پر ابھرے۔ چین اور روس چاہتے ہیں کہ برکس ڈالر کی اجارہ داری اور G7 کی پالیسیوں کو چیلنج کرے۔ چین اور روس اس بلاک میں ایران کی شمولیت چاہتے ہیں۔ چین نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ ایران کی شمولیت کے حق میں ہے اور اس سلسلے میں ایران کا اقتصادی اور سیاسی کردار بڑھانے میں خوش ہے۔ روس نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ برکس کی لیڈر شپ اب چین اور روس کے ساتھ ساتھ ایران کے پاس آرہی ہے۔ بھارت اس میںغیر موثر ہوچکا ہے۔ روس اور چین پر تو امریکا اور اسرائیل اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ ایران میں اس کی شمولیت کو غیر موثر کرنے کے لیے امریکا ایران میں رجیم کی تبدیلی چاہتا ہے۔ اگر ایران میں امریکا کی وفادار حکومت آجائے تو پھر برکس سبوتاژ ہوسکتا ہے۔ ایران اور روس بحیرہ کیسپین کے ذریعے ایک دوسرے سے جغرافیائی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔ یہی اسرائیل کے ایران پر حملے کا اصل مقصد ہے۔
ایک عرصے سے امریکی پابندیوں اور سینکشنز کے شکار ایران نے اب تک اسرائیل کو جتنا بھی جواب دیا ہے وہ کتنا موثر ہے یا نہیں، اس کا تاحال جواب نہیں دیا جاسکتا لیکن ایک بات ضرور ہے اسرائیل میں دھماکوں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ باوجود آسان کام نہ ہونے کے بہت سے بلیسٹک میزائل اسرائیل تک پہنچے ہیں۔ یہ دھماکے اسرائیل کو ختم نہیں کرسکتے لیکن حماس اور اب ایران نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے تاثر کا خاتمہ کردیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی اس سوچ کو بھی ہزیمت کا سامنا ہے کہ وہ کسی بھی ملک کو مجبور کرکے اپنی من پسند ڈیل تک لاسکتے ہیں۔
عالم اسلام ایران پر اسرائیل کے حملے سے مضطرب اور بے قرار ہے۔ وہ اس جنگ میں ایران کو فتح یاب دیکھنا چاہتا ہے لیکن نیشن اسٹیٹ کے چھوٹے چھوٹے پنجروں میں قید کوئی اسلامی ملک اس کی مدد کو نہیں آسکتا سوائے زبانی کلامی ہمدردی کے۔ عالم اسلام کا متحد ہوکر اسرائیل کا مقابلہ کرنا وہ خواب ہے جس کی تعبیر آج ممکن نہیں۔ اسلامی ممالک کے عوام تو مسلمان ہیں لیکن وہ اسلامی ریاستیں نہیں ہیں۔ وہاں اسلامی شریعت نافذ نہیں ہے، ان کے حکمران سب امریکی ایجنٹ ہیں۔ وہ اسلام نافذ کرنے کا عزم تو درکنار اسلام کی بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اسرائیل اور امریکا کا ہدف آج ایران ہے کل پا کستان ہوگا۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی اسرائیل کو جڑ سے اکھاڑنے اور اس کے ساتھ کھلی جنگ میں داخل ہونے کے لیے تیار نہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: چین اور روس اسرائیل کو اسرائیل کے لیکن ایران اسرائیل ا میں ایران ایران میں ایران کی ایران نے حزب اللہ ایران کے کے ذریعے ایران کو نہیں ہے نہیں کی رہا ہے کے لیے کو ختم اور اس
پڑھیں:
اسرائیل ایرانی جوہری پروگرام کو تباہ نہیں کر سکتا، بی بی سی
رپورٹ کے مطابق اسرائیل امریکہ سے سالانہ اربوں ڈالر کی عسکری امداد لیتا ہے اور امریکی ساختہ لڑاکا طیاروں سے داغا جانے والا اسلحہ بھی امریکہ سے ہی آیا ہے۔ اسرائیلی فضائی دفاعی نظام آئرن ڈوم سے داغے جانے والے چند میزائل بھی امریکی ساختہ ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل کو اس تنازع میں برتری حاصل ہے لیکن اس کی مذید عسکری کارروائی کا انحصار امریکہ کی حمایت پر ہو گا۔ اسرائیل امریکہ سے سالانہ اربوں ڈالر کی عسکری امداد لیتا ہے اور امریکی ساختہ لڑاکا طیاروں سے داغا جانے والا اسلحہ بھی امریکہ سے ہی آیا ہے۔ اسرائیلی فضائی دفاعی نظام آئرن ڈوم سے داغے جانے والے چند میزائل بھی امریکی ساختہ ہیں۔
اس کے علاوہ اسرائیل نے زیرزمین ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے لیے جو بنکر بسٹر بم استعمال کیے وہ بھی زیادہ تر امریکی ساختہ ہیں۔ اب تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے استعمال کی حمایت کی ہے لیکن اسرائیل کو وہ ہتھیار فراہم نہیں کیا گیا جس کی مدد سے وہ فردو میں ایرانی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا سکے۔ یہ بم 30 ہزار پاونڈ وزنی ہے جسے صرف امریکی بی ٹو بمبار طیاروں کی مدد سے ہی پھینکا جا سکتا ہے۔
تاہم اگر اسرائیل کو امریکی مدد حاصل بھی رہے تو اسے اپنے مقاصد کے حصول میں مکمل کامیابی شاید نہ مل سکے۔ وہ اپنی فضائی طاقت سے ایرانی جوہری پروگرام کو متاثر تو کر سکتا ہے لیکن اسے مکمل طور پر تباہ نہیں کر سکتا۔ اسرائیل کی جانب سے ایرانی حکومت میں تبدیلی کی امید پوری ہونا بھی ناممکن ہے۔ ایسے میں اسرائیلی فضائی کارروائیاں خوف، تباہی اور ملبہ تو پیدا کر سکتی ہیں لیکن 2011 میں لیبیا اور حالیہ غزہ کی پٹی میں ہونے والی کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ مکمل کامیابی کی ضمانت نہیں دے سکتیں۔