ایران کے حوصلے سے اسرائیلی خوفزدہ: طویل جنگ سے بچنے کیلیے ٹرمپ کو پکارنے لگے
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران کے ساتھ جاری کشیدہ صورتحال اور مسلسل حملوں کے باعث اسرائیل کے اندر بے چینی کی لہر تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔
صہیونی ریاست کے سرکاری بیانیے اور عسکری دعووں کے برعکس عوامی سطح پر اس جنگ کے طویل ہونے اور اس کے تباہ کن اثرات سے متعلق سنجیدہ تشویش جنم لے چکی ہے۔ تل ابیب سمیت مختلف اسرائیلی شہروں کی سڑکوں پر ایسے بل بورڈز نظر آ رہے ہیں جن پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے صاف لفظوں میں اپیل کی گئی ہے کہ وہ جنگ میں کودیں اور اس تنازع کو ختم کروائیں۔
اسرائیلیوں کی جانب سے یہ عوامی مطالبات اس وقت سامنے آئے، جب اسرائیلی حکومت اور فوجی ترجمان مسلسل اس بات کے دعوے کررہے ہیں کہ اسرائیلی فضائیہ کو ایران کی فضائی حدود میں مکمل کنٹرول حاصل ہے اور وہ کسی بھی وقت اہداف کو نشانہ بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس نظر آ رہی ہے۔ اسرائیلی حکومتی سطح پر جنگی کامیابیوں کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، لیکن زمین پر حقیقت کچھ اور ہی منظر پیش کر رہی ہے۔
رپورٹس کے مطابق عام اسرائیلی شہریوں میں خوف پایا جاتا ہے کہ اگر امریکا نے اس تنازع میں براہ راست مداخلت نہ کی تو یہ جنگ ہفتوں سے مہینوں تک پھیل سکتی ہے، جو اسرائیل کے لیے ایک طویل، مہنگی اور تھکا دینے والی آزمائش بن جائے گی۔ دفاعی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ اگر موجودہ حالات جاری رہے تو اسرائیلی معیشت اور عوامی سطح پر ناقابل یقین نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ صہیونی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی جانب سے اب تک جنگ کے ممکنہ دورانیے پر کوئی واضح یا حتمی بیان سامنے نہیں آیا۔ ان کی خاموشی نے اس خدشے کو مزید تقویت دی ہے کہ اسرائیلی قیادت خود بھی اس معاملے پر غیر یقینی کیفیت کا شکار ہے۔ مبصرین کے مطابق اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو اسرائیلی حکومت پر اندرونی دباؤ مزید بڑھ سکتا ہے جو اس کے سیاسی مستقبل پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔
اسرائیلی میڈیا میں اس وقت ایران کے ساتھ جنگ سے متعلق دو بیانیے گردش کر رہے ہیں۔ ایک حکومتی بیانیہ جو عسکری برتری اور حوصلے کا دعوے دار ہے، اس کے باوجود کہ اسرائیل بڑے نقصانات اٹھا رہا ہے۔ دوسرا عوامی اضطراب جو امریکا کی فوری فوجی شمولیت کا خواہاں ہے تاکہ اسرائیلیوں کی جان بچ سکے۔
امریکی صدر ٹرمپ سے کی جانے والی یہ اپیلیں محض بل بورڈز تک محدود نہیں رہیں، بلکہ سوشل میڈیا پر بھی ہیش ٹیگز تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ یہ مہم اس امید پر شروع کی گئی ہے کہ صدر ٹرمپ جنہیں اسرائیل کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے ممکنہ طور پر کوئی عملی قدم اٹھا سکتے ہیں۔
عالمی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اسرائیلی عوام کے یہ مطالبات ایک جانب خطے میں امریکا کی موجودگی اور کردار پر سوالات اٹھا رہے ہیں تو دوسری طرف یہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ اسرائیل اب اس جنگ کو اکیلے نہیں جیت سکتا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کہ اسرائیلی کہ اسرائیل رہے ہیں
پڑھیں:
غزہ کی پکار
قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد عرب دنیا میں ایک ہلچل مچی اور صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو کے مستقبل کے خطرناک عزائم کے آگے بند باندھنے کے لیے عرب ملکوں کا ہنگامی سربراہی اجلاس منعقد کیا گیا۔
دوحہ میں ہونے والے اس اجلاس میں شریک عرب ممالک کے سربراہوں نے حسب سابق گرم جوش تقاریر کیں اور اسرائیل کے خلاف خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ مظلوم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے لے کر نیتن یاہو کے جنگی جرائم تک کا احاطہ کرتے ہوئے عرب سربراہوں نے اسرائیل کے تمام جارحانہ اقدامات اور اس کے مستقبل کے خوف ناک عزائم کی پرزور الفاظ میں بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسرائیل اور اس کے سرپرست اعلیٰ امریکا پر واضح کیا کہ آیندہ اگر اسرائیل نے کسی عرب ملک پر جارحیت کا ارتکاب کیا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔
اس ضمن میں عرب سربراہی اجلاس کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ قطر پر حملہ کر کے اسرائیل نے تمام ریڈ لائن کراس کر لی ہیں اسے اب کٹہرے میں لانا ہوگا۔ اعلامیے میں تمام ریاستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے تمام موثر قانونی اقدامات اٹھائیں جن میں سرفہرست سفارتی اور اقتصادی تعلقات پر نظرثانی کرنا اور اس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنا شامل ہے۔
رکن ممالک میں اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت ختم کرانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔ اسرائیلی جنگی جرائم روکنے کے لیے عرب اسلامی ٹاسک فورس کے قیام کی بھی تجویز اعلامیے کا حصہ ہے۔
عرب سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان قطر کے ساتھ کھڑا ہے، ہمیں خاموش رہنے کے بجائے متحد ہونا پڑے گا اور اگر آج ہم نے ایسا نہ کیا تو اسرائیلی بربریت نہیں رکے گی۔ وزیر اعظم نے اسرائیل کے خلاف عرب ملکوں کی ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت ختم کرنے کی تجویز کو بھی صائب قرار دیا۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمدالثانی نے کہا کہ گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔ اسرائیلی جارحیت کا مقصد غزہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا ہے۔
فلسطینی صدر محمد عباس کا کہنا تھا کہ صورتحال کی نزاکت اور سنگینی کا تقاضا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی روکنا اور وہاں فوری امداد کی فراہمی ناگزیر ہو چکی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے جنرل سیکریٹری جنرل حسین طہٰ نے قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمے داریوں کو پورا کرے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اسرائیل کو اس کے تمام جرائم کا جواب دہ ٹھہرایا جائے۔
سوال یہ ہے کہ کیا عرب سربراہی اجلاس میں جو تجاویز اعلامیے کی شکل میں سامنے آئی ہیں، ان پر عمل درآمد کے لیے آنے والے دنوں میں کیا اقدامات اٹھائے جائیں گے اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر آپ ماضی قریب و بعید پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ فلسطین اور لبنان ایک سے زائد مرتبہ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنتے رہے ہیں اور درجنوں مرتبہ او آئی سی کا اجلاس منعقد کیا گیا۔
اسرائیل کے خلاف عرب سربراہوں نے پرجوش تقاریر کیں اور اسرائیل کے خلاف اقدامات کے اعلانات بھی کیے گئے، لیکن بات نشستند، گفتند، برخاستند سے آگے کچھ نہ بڑھ سکی اور اسرائیل نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے امریکی آشیرباد سے فلسطین کے خلاف جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ابھی ایک طرف عربوں کے ہنگامی سربراہی اجلاس کی گونج ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اسرائیل نے غزہ شہر کے مرکز میں قدم رکھ دیے۔
فضائی و زمینی حملہ کرکے صہیونی فوج نے غزہ سٹی کے باسیوں کو فوری طور پر شہر خالی کرنے کی دھمکی دے کر انھیں بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق تقریباً 40 فی صد فلسطینی باشندوں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا گیا ہے اور شہر خالی کروانا شروع کر دیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر حماس نے قیدیوں کو ڈھال بنایا تو وہ مصیبت میں پڑ جائے گی۔
اقوام متحدہ سمیت یورپی یونین، برطانیہ اور جرمنی نے اسرائیل کے اس جنگی اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ 57 اسلامی ممالک کے لیے اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے ممکنہ خطرناک عزائم اور بڑھتے ہوئے توسیع پسندانہ گریٹر اسرائیل قدم کے آگے ہمالیہ جیسی رکاوٹ کھڑی کرنا ہوگی۔ غزہ کے معصوم، بھوک و پیاس سے سسکتے بچوں کی پکار کو سننا ہوگا۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدہ اسلامی دنیا کے لیے ایک بڑی خبر ہے۔ کیا سعودی عرب اور پاکستان مل کر فلسطین کو اسرائیلی مظالم سے نجات دلانے میں کوئی سرگرم کردار ادا کر سکیں گے؟ اس کا جواب آنے والا وقت دے گا۔