زندگی بھر کی جمع پونجی سمیٹ کر پاکستان چھوڑنے کے لیے صرف 45 منٹ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جون 2025ء) 42 سالہ افغان شہری شیر خان اینٹوں کے ایک بھٹے پر اپنی دیہاڑی مکمل کر کے گھر لوٹے تھے۔ دروازے پر سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس والوں کو دیکھ کر ان کے دماغ میں جیسے جھکڑ چلنے لگے۔ وہ اپنی پوری زندگی کیسے سمیٹ سکتے تھے اور ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں اپنی پیدائش کا ملک کیسے چھوڑ سکتے تھے؟
طالبان کی طرف سے افغانستان چھوڑ جانے والوں کو وطن واپسی کی پیشکش
پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری پر تشویش ہے، افغان وزیر خارجہ
انہوں نے سخت حالات میں اپنی جو زندگی بنائی تھی وہ ان سے پلک جھپکنے میں چھین لی گئی۔
انہوں نے اور ان کی بیوی نے باورچی خانے کا کچھ سامان، اپنے اور اپنے نو بچوں کے لیے جو بھی کپڑے ہو سکتے تھے جمع کر لیے۔(جاری ہے)
انہوں نے باقی سب کچھ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اپنے اسی گھر میں ہی چھوڑ دیا۔
1979ء میں افغانستانپر سوویت حملے اور اس کے بعد کی خانہ جنگی سے فرار ہونے والے والدین کے ہاں پاکستان میں پیدا ہونے والے شیر خان ان لاکھوں افغانوں میں سے ایک ہیں، جنہیں اب بے دخل کر دیا گیا ہے۔
اکتوبر 2023ء میں شروع ہونے والے ملک گیر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب تک تقریباﹰ 10 لاکھ افغان پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ مزید لاکھوں افراد باقی ہیں، جنہیں اب اپنے وطن واپس چلے جانا چاہیے۔
طورخم میں افغان سرحد کے بالکل پار ایک دھول بھرے پناہ گزین کیمپ میں کھڑے شیر خان نے کہا، ''ہمارا سارا سامان پیچھے رہ گیا ہے… ہم نے (برسوں کی) سخت محنت سے ان چیزوں کو جمع کیا تھا جن سے ہم عزت سے زندگی گزار رہے تھے۔
‘‘پاکستان نے اس سال کے اوائل میں افغانوں کو ملک چھوڑنے یا ملک بدری کا سامنا کرنے کے لیے کئی ڈیڈ لائنز مقرر کیں۔ افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والوں کو 31 مارچ تک دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی شہر چھوڑنا تھا جبکہ رجسٹریشن کا ثبوت رکھنے والے 30 جون تک قیام کر سکتے تھے۔ پاکستان کے دیگر علاقوں میں رہنے والے افغانوں کے لیے کوئی مخصوص ڈیڈ لائن مقرر نہیں کی گئی تھی۔
شیر خان کو خوف تھا کہ ڈیڈ لائن کے بعد ان کی روانگی میں تاخیر کے نتیجے میں انہیں ان کی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ پولیس اسٹیشن لے جایا جا سکتا ہے، جس سے ان کے خاندان کے وقار کو دھچکا لگتا۔
انہوں نے کہا، ''ہمیں خوشی ہے کہ ہم عزت اور وقار کے ساتھ (افغانستان میں) آئے ہیں۔‘‘ جہاں تک ان کے کھوئے ہوئے سامان کا تعلق ہے، تو ان کا کہنا تھا، ''خدا ان (بچوں) کو یہاں رزق دے، جیسا کہ اس نے وہاں کیا تھا۔
‘‘ مشکلات میں گھرے ملک میں بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی واپسیافغانستان کی طالبان حکومت کے زیر انتظام طورخم کیمپ میں ہر خاندان کو ایک سم کارڈ اور 10 ہزار افغانی (145 ڈالر) کی امداد ملتی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے وہ وہاں تین دن تک گزار سکتے ہیں۔
اس کیمپ کے ڈائریکٹر مولوی ہاشم میوندوال نے کہا کہ اس وقت پاکستان سے روزانہ تقریباﹰ 150 خاندان آ رہے ہیں، یہ تعداد دو ماہ پہلے آنے والوں کے مقابلے میں بہت کم ہے، جب تقریباﹰ 1200 خاندان یومیہ آ رہے تھے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ سات جون سے شروع ہونے والی عید الاضحیٰ کی تین روزہ تعطیلات کے بعد پاکستان چھوڑنے والوں کی آمد میں ایک بار پھر اضافے کی توقع ہے۔کیمپ کے اندر امدادی تنظیمیں صحت کی دیکھ بھال سمیت بنیادی ضروریات میں مدد کرتی ہیں۔ مقامی خیراتی ادارہ اسیل، حفظان صحت کی کٹس فراہم کرتا ہے اور کھانے کی فراہمی میں مدد کرتا ہے۔
اس ادارے نے افغانستان میں اپنی حتمی منزل پر پہنچنے کے بعد خاندانوں کے لیے فوڈ پیکج ڈلیوری کا نظام بھی قائم کیا ہے۔پاکستان ملک کے اندر عسکریت پسندوں کے حملوں کی منصوبہ بندی میں مدد کا الزام ملک میں مقیم بعض افغان شہریوں پر عائد کرتا رہا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی سرحد پار سے کی جاتی ہے، تاہم کابل کی طالبان حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
پاکستان افغانوں کو نشانہ بنانے کی تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ملک چھوڑنے والے ہر شخص کے ساتھ انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے علاوہ ایران بھی اپنے ہاں پناہ لیے ہوئے افغان باشندوں کو افغانستان واپس بھیج رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر نے پانچ جون کو کہا تھا کہ یکم اپریل کے بعد سے دو ماہ کے دوران پانچ لاکھ افغانوں کو ایران اور پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ حکام افغانوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ جلد از جلد ملک چھوڑ دیں۔اپریل میں ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ پاکستانی پولیس نے گھروں پر چھاپے مارے، لوگوں کو مارا پیٹا اور من مانے طریقے سے حراست میں لیا اور رہائشی اجازت ناموں سمیت پناہ گزینوں کی دستاویزات ضبط کیں۔
گروپ نے مزید کہا کہ افسران نے افغانوں کو پاکستان میں رہنے کی اجازت دینے کے لیے رشوت کا مطالبہ کیا۔
نئے سرے سے زندگی کی شروعات کرنے کی امید رکھنے والے پچاس سالہ یار محمد تقریباﹰ 45 سال تک پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہے۔ 12 بچوں کے والد نے فرش کو پالش کرنے کا ایک کامیاب کاروبار قائم کیا، جس میں متعدد لوگوں کو روزگار بھی فراہم کیا ۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے ان کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا اور انہیں افغانستان واپسی کے لیے صرف چھ گھنٹے کا وقت دیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''کسی بھی طرح ایک شخص اتنا کاروبار چھ گھنٹوں میں ختم نہیں کرسکتا، خاص طور پر اگر اس نے ایک ہی جگہ پر 45 سال گزارے ہوں۔‘‘ ان کے دوستوں نے ان کی مدد کی اور ان کی کمپنی کی فرش پالش کرنے والی مشینیں، کچھ میزیں، چارپائیاں، گدے اور کپڑے وغیرہ پیک کیے تاکہ وہ انہیں اپنے ساتھ لے جا سکیں۔
اب ان کے گھر کا سارا سامان طورخم پناہ گزین کیمپ میں نارنجی رنگ کے خیموں میں بند ہے، ان کی محنت سے کمائی گئی فرش پالش کرنے والی مشینیں بھی کھلے آسمان تلے پڑی ہیں۔ تین دن کی تلاش کے بعد، وہ کابل میں کرائے پر ایک جگہ تلاش کرنے میں کامیاب رہے۔
ان کا کہنا تھا، ''مجھے نہیں معلوم کہ ہم کیا کریں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ افغانستان میں فرش پالش کرنے کے اپنے کاروبار کو دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کریں گے: ''اگر یہ یہاں چل جاتا ہے، تو یہ سب سے اچھا کام ہے۔‘‘
ادارت: شکور رحیم
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان کے افغانوں کو پالش کرنے سکتے تھے انہوں نے ملک چھوڑ کا کہنا کے بعد کے لیے نے کہا تھا کہ
پڑھیں:
کافی صحت کے لیے کسی طرح فائدہ مند ہوسکتی ہے؟
ایک نئی تحقیق کے مطابق روزانہ ایک یا دو کپ کافی پینا آپ کی زندگی کو صحت مندانہ انداز میں بڑھا سکتا ہے — لیکن شرط یہ ہے کہ اس میں زیادہ کریم یا چینی نہ ملائی جائے۔
یہ بھی پڑھیں:ادھیڑ عمری میں کافی پینے والوں کے لیے اچھی خبر
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ معتدل مقدار میں کیفینیٹڈ کافی (یعنی 1–3 کپ روزانہ) سے خاص طور پر دل کے امراض کی وجہ سے مرنے کے خطرے میں کمی آتی ہے۔
شریانوں کے تحفظ اور عمومی حفاظت میں بھی یہ فائدہ واضح ہوا، مگر یہ فائدہ تب اپنا رنگ دکھاتا ہے جب کافی کو کالے رنگ یا بہت کم چینی و فیٹی اجزاء کے ساتھ پیا جائے۔
سودمند اجزا سے بھرپور کافی، اگر صرف کریم اور چینی کے بے دریغ استعمال سے نہیں بوجھل کی جائے، تو وہ ایک شفا بخش مشروب بن سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
دل شفا صحت صحت مند کافی