Jasarat News:
2025-06-28@00:22:51 GMT

مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی تیاری!

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ پر جاری جنگ اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ اسرائیلی اخبار ’’دی ٹائمز آف اسرائیل‘‘ اور ’’اسرائیل ہیوم‘‘ کی رپورٹوں کے مطابق اگلے دو ہفتوں میں جنگ بند ہونے کا قوی امکان ہے، جس کے بعد ایک نیا علاقائی منصوبہ روبہ عمل لایا جائے گا جس میں سعودی عرب اور دیگر خلیجی و مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ پر گامزن ہوں گے۔ ان رپورٹوں کے مطابق متحدہ عرب امارات، مصر، اور دو دیگر عرب ممالک غزہ میں مشترکہ حکومت قائم کریں گے جو حماس کی جگہ لے گی۔ حماس کی قیادت کو جلا وطن کرنے اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کا منصوبہ بھی اس میں شامل ہے۔ اسرائیل بظاہر دو ریاستی حل کی حمایت کا اعلان کرے گا، بشرطیکہ فلسطینی اتھارٹی میں ’’اصلاحات‘‘ کی جائیں۔ تاہم فلسطینی اتھارٹی اور حماس دونوں اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی چاہتی ہے کہ غزہ کی تعمیر ِ نو میں اسے باقاعدہ کردار دیا جائے، جبکہ اسرائیل اس سے انکاری ہے۔ حماس بھی جلا وطنی کو مسترد کر چکی ہے۔ یہ تمام بات چیت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بن یامین نیتن یاہو کے درمیان ہونے والی ایک اہم ٹیلی فونک گفتگو کا نتیجہ بتائی جاتی ہے، جس میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور اسرائیلی وزیر برائے اسٹرٹیجک امور بھی شریک تھے۔ اس گفتگو میں جنگ کے خاتمے اور ابراہیمی معاہدے کو مزید وسعت دینے پر اتفاق ہوا۔ صدر ٹرمپ نے نیتن یاہو کے خلاف جاری کرپشن مقدمات پر بھی ناراضی ظاہر کی اور کہا کہ میرے نزدیک ناقابل ِ یقین ہے کہ اسرائیل کے لیے اتنا کچھ کرنے والے وزیراعظم کو سیاسی انتقامی مہم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کے بقول میں نے ابھی سنا کہ اسرائیلی وزیراعظم پیر کو عدالت میں پیش ہونا ہے تاکہ اس طویل مقدمے کی پیروی جاری رکھی جائے جسے وہ مئی 2020ء سے جھیل رہے ہیں۔ امریکی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم کی تعریف میں آسمان زمین کے قلابے ملاتے ہوئے کہا کہ اس وقت نیتن یاہو سے زیادہ اپنی سرزمین سے محبت کرنے والا کوئی اور نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے نیتن یاہو کو جنگجو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ جنگ کے دوران نیتن یاہو کے بجائے کوئی اور ملک کی سربراہی کر رہا ہوتا تو اسرائیل کو شدید نقصان، شرمندگی اور ابتری کا سامنا کرنا پڑتا۔ دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے حیران کن دعویٰ کیا ہے کہ بہت جلد ایسے ممالک بھی اسرائیل کو تسلیم کریں گے جن کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اسٹیو وٹکوف نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ صدر ٹرمپ ابراہام معاہدے کو مزید آگے بڑھانا چاہتے ہیں، ٹرمپ کے پہلے دورِ صدارت میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا، اب اس فہرست میں مزید حیران کن ممالک شامل ہونے والے ہیں، صدر ٹرمپ کی کوشش ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد بڑھے تاکہ مشرق وسطیٰ میں ایک نیا سیاسی توازن قائم کیا جا سکے۔ واضح رہے کہ امریکا کی ثالثی میں 2020ء میں ابراہیمی معاہدہ کیا گیا، جس کا بظاہر مقصد مشرقِ وسطیٰ میں امن اور تعاون کو فروغ دینا تھا تاہم بنیادی طور پر یہ معاہدہ اسرائیل اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے تشکیل دیا گیا۔ اس کے اہم فریقوں میں اسرائیل مرکزی کردار تھا، جبکہ متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش نے اس میں شامل ہو کر سفارتی تعلقات قائم کیے جبکہ مصراور اردن نے جو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کر چکے تھے، اس کی حمایت میں اپنا کردار ادا کیا۔ دریں اثناء چین کے وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں حالات پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہے اور امن و استحکام کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ دوسری جانب ایران نے جنگ بندی کی بعض خلاف ورزیاں کیں جس کے جواب میں اسرائیل نے دوبارہ حملے کیے، جس پر ٹرمپ نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ ادھر، غزہ میں انسانی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ تازہ اسرائیلی فضائی حملوں میں 78 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں کئی وہ لوگ شامل تھے جو امداد کے لیے جمع تھے۔ مئی سے اب تک 500 سے زائد فلسطینی امدادی مراکز پر حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔ اس دوران حماس نے خان یونس میں ایک بڑی کارروائی کر کے 7 اسرائیلی فوجی ہلاک کر دیے۔ یہ تمام پیش رفت اس بات کی طرف واضح اشارہ کر رہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک نئی سیاسی، سفارتی اور عسکری منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاکہ اپنی مرضی اور مفادات کے تحت مشرقِ وسطیٰ کی نقشہ گری کی جاسکے اور غزہ میں کسی بھی صورت مزاحمت کی تحریک کو کمزور کیا جاسکے، کیونکہ اسرائیل اور امریکا یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ غزہ میں مزاحمت کا زور توڑے بغیر وہ اپنے خاکے میں رنگ نہیں بھر سکتے، ان کے عزائم اور منصوبوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حماس اور مزاحمتی تحریک ہیں۔ بدقسمتی سے عرب حکمران ایک بار پھر عاقبت نااندیشی کے مظاہرے پر تلے ہوئے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ غزہ کے حوالے سے جو کچھ منصوبہ بندی کی جارہی ہے اس میں باہمی مشاورت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ابراہیمی معاہدہ ہو یا جنگ بندی کے حوالے سے حالیہ پیش رفت ان تمام امور میں امریکا پیش پیش ہے، مگر امریکا کی اس ثالثی کا مقصد مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ قطعاً نہیں، امریکا اوّل روز ہی سے اسرائیل کا محافظ اور اس کا پشتیبان بنا ہوا ہے، امریکا کا ہر قدم اسرائیل کی بقا، تحفظ اور سلامتی کے لیے ہے، امریکا اسرائیل کے دفاع اور سلامتی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، جنگ بندی میں ثالثی کا کردار حقیقتاً جنگ بندی کی خواہش نہیں محض اپنے مفادات کا تحفظ ہے، یہی بات ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامہ ای نے قوم سے خطاب میں کہی کہ اسرائیل کی مکمل تباہی کے خدشے پر امریکا جنگ میں شامل ہوا، امریکا کو محسوس ہوگیا تھا وہ شامل نہ ہوا تو اسرائیل تباہ ہو جائے گا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدارت کا حلف اٹھانے کے ساتھ ہی دنیا میں امن قائم کرنے کے عزائم کا اظہار کرتے رہے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ انہیں امن کا نوبل انعام مل جائے، مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ امن کے قیام کے دعوؤں کے باوجود وہ اسرائیل کی جارحیت نہ رکوا سکے، وہ نا صرف اس کی حمایت کر رہے ہیں بلکہ اسرائیل کو جنگی ساز و سامان بھی فراہم کررہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حماس کی جانب سے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر کیے جانے والے حملے کے اثرات صرف عسکری سطح تک محدود نہیں رہے بلکہ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس حملے کے نتیجے میں اسرائیل کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں حقیقی اور پائیدار امن کا قیام فلسطینی عوام کوآزادی اور خود مختاری دیے بغیر ممکن نہیں، غزہ کے باشندے کے احساسات و جذبات کے علی الرغم جنگ بندی کا کوئی ایسا معاہدہ جس میں حماس کی قیادت کی جلاوطنی اور مزاحمت کا زور توڑنے کی سازش کی گئی ہو اسے کسی طور قبول نہیں کیا جاسکتا، نہ امت کے لیے یہ قابل ِ قبول ہوگا، مزاحمتی تحریک کے خاتمے کی کوشش اور اسرائیل کو تسلیم کرنا سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا، عرب ریاستوں کو ایسی خود کشی سے باز رہنا چاہیے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسرائیل کو تسلیم کہ اسرائیل امریکی صدر اسرائیل کے نیتن یاہو بندی کی حماس کی رہے ہیں کہ غزہ کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

جلد ہی ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کرینگے جنکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اسٹیو وٹکوف کا دعویٰ

اپنے ایک بیان میں امریکی صدر کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو تسلیم کرنیوالے ممالک کی تعداد بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے کہا ہے کہ جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کرینگے، جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اپنے ایک بیان میں اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی کوشش ہے کہ ابراہام معاہدے کو وسعت دی جائے، ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو تسلیم کرنیوالے ممالک کی تعداد بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، امید ہے کہ جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے، جن کے بارے میں کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا اور یہ عمل مشرق وسطیٰ میں توازن لائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ابراہیمی اتحاد، نئے مشرقِ وسطیٰ کا وقت آ گیا، جولانی سمیت عرب سربراہوں کی تصاویر تل ابیب میں نصب
  • مارکو روبیو نے شہباز سے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بات کی، امریکا
  • مشرق وسطیٰ میں بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ بے نقاب، خطے کی سائبر سیکیورٹی کو شدید خطرات لاحق
  • وزیراعظم کو امریکی وزیرخارجہ کافون، مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کرینگے جن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا: مشیر امریکی صدر اسٹیووٹکوف
  • جلد ہی ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کرینگے جنکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اسٹیو وٹکوف کا دعویٰ
  • اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی خوش آئند ہے، بیرسٹر سلطان
  • مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کا خواب
  • چین مشرق وسطیٰ میں پائیدار اور موثر جنگ بندی کی امید رکھتا ہے، چینی وزارت خارجہ