دفعہ 144 نافذ تھی، سیاحوں کو دریا میں جانے سے روکا مگر وہ پیچھے سے چلے گئے
سیلاب میں 17 سیاح پھنس گئے تھے، 14 منٹ میں پانی کا بھاؤ بڑھا، رپورٹ

دریائے سوات میں پیش آنے والے سانحے پر کمشنر مالاکنڈ کی تحقیقاتی رپورٹ صوبائی انسپیکشن ٹیم کو ارسال کردی گئی ہے، جس میں واقعے کے حوالے سے تفصیلات بتادی گئی ہیں۔تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق زیادہ بارش سے دریائے سوات کی سطح 77 ہزار 782 کیوسک تک تھی اور ابتدائی رپورٹ کے مطابق سیلاب میں 17 سیاح پھنس گئے تھے، جن میں سے 10 سیاحوں کا تعلق سیالکوٹ، 6 کا مردان اور ایک مقامی شخص تھا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دریائے سوات میں تعمیراتی کام کی وجہ سے پانی کا رخ دوسری جانب کر دیا گیا، پانی کا رخ تبدیل ہونے سے جائے حادثہ پر پانی کی سطح کم تھی اور سیاح وہاں پہنچے۔واقعے کے حوالے سے بتایا گیا کہ متاثرہ سیاح 8 بج کر 31 منٹ پر ہوٹل پہنچے، 9 بج کر 31 منٹ پر دریا میں گئے، ہوٹل کے سیکیورٹی گارڈ نے سیاحوں کو روکا لیکن وہ ہوٹل کے عقب سے گئے، 14 منٹ بعد 9 بج کر 45 منٹ پر پانی کی سطح بڑھنے پر ریسکیو کو کال کی گئی۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متعلقہ حکام 20 منٹ بعد 10 بج کر 5 منٹ پر جائے وقوع پہنچے، سیلاب کے خطرات کے پیش نظر تمام متعلقہ اداروں کو الرٹ کیا گیا تھا اور خراب موسم سے متعلق کئی الرٹ متعلقہ اداروں سے موصول ہوئے تھے۔متعلقہ افسران کی ایمرجنسی کی صورت میں ڈیوٹیاں پہلے ہی لگا دی گئی تھیں، دریا کے کنارے قائم تجاوزات کے خلاف آپریشن کا فیصلہ سیلاب سے قبل ہی ہوا تھا، 2 جون سے ایک مہینے کے لیے مالاکنڈ ڈویژن میں دفعہ 144 نافذ کی گئی تھی۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: دریائے سوات

پڑھیں:

سانحہ بھاگ میں شہید ایس ایچ او کے اہل خانہ سے وزیراعلیٰ بلوچستان کی تعزیت، اعزازات کا بھی اعلان

کوئٹہ:

بلوچستان کے ضلع کچھی میں سانحہ بھاگ کے شکار شہید ایس ایچ او لطف علی کھوسہ کے اہل خانہ سے تعزیت کے لیے وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی جمعہ کو صحبت پور پہنچے۔

وزیراعلیٰ نے شہید کے بیٹوں سے ملاقات کی، انہیں گلے لگایا اور ان کے والد کی بہادری اور قربانی پر خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر شہید کانسٹیبل عظیم کھوسہ کے بیٹوں سے بھی ملاقات کی گئی، جن کی قربانیوں نے بلوچستان پولیس کی شجاعت کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔

واقعے کی تفصیلات کے مطابق، 27 اکتوبر 2025 کو ضلع کچھی کے تحصیل بھاگ ناڑی میں مسلح دہشت گردوں نے پولیس تھانے اور سرکاری عمارتوں پر حملہ کیا، جس دوران شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ اس جھڑپ میں ایس ایچ او انسپکٹر لطف علی کھوسہ اور کانسٹیبل عظیم کھوسہ نے بہادری سے مقابلہ کیا، مگر شدید فائرنگ کی زد میں آ کر دونوں شہید ہوگئے۔

ایس ایس پی کچھی کے مطابق، حملہ آوروں نے پولیس اہلکاروں کو یرغمال بنانے کی کوشش کی لیکن مشترکہ آپریشن کے ذریعے صورتحال کو قابو میں کر لیا گیا۔ یہ سانحہ بلوچستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف پولیس کی جدوجہد کی ایک اور تلخ یادگار ہے، جہاں گزشتہ چند ماہ میں متعدد اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔

وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے شہیدوں کے بیٹوں کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ شہید لطف علی کھوسہ اور شہید عظیم کھوسہ نے دہشت گردوں کے مقابلے میں اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر بلوچی غیرت، شجاعت اور روایات کو زندہ رکھا ہے۔ ان کی قربانیاں وطن کی سلامتی کے لیے لازمی ہیں اور قوم انہیں کبھی نہیں بھولے گی۔

انہوں نے اعلان کیا کہ شہداء کے تمام بچوں کے تعلیمی اخراجات صوبائی حکومت برداشت کرے گی، جبکہ بیواؤں اور خاندانوں کو ماہانہ وظیفہ اور مالی امداد فراہم کی جائے گی۔

اس کے علاوہ، وزیراعلیٰ نے تھانہ صحبت پور کو شہید ایس ایچ او لطف علی کھوسہ کے نام سے منسوب کرنے اور شہید کے گاؤں میں واقع اسکول کو اَپ گریڈ کرنے کے احکامات جاری کیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات شہیدوں کی یاد کو زندہ رکھنے اور ان کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا ذریعہ بنیں گے۔

وزیراعلیٰ نے شہیدوں کے خاندانوں کو یقین دلایا کہ ریاست ان کے ہر ممکن خیال کی رکھے گی، بشمول روزگار کے مواقع اور صحت کی سہولیات۔

اس موقع پر آئی جی پولیس بلوچستان محمد طاہر صوبائی وزراء سردار فیصل خان جمالی، میر محمد خان لہڑی اور میر شعیب نوشیروانی بھی وزیراعلیٰ کے ہمراہ موجود تھے۔ انہوں نے شہیدوں کی فاتحہ خوانی کی اور لواحقین کو صبر کی تلقین کی۔

آئی جی طاہر رائے نے کہا کہ بلوچستان پولیس دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور ایسے حملوں کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’’حکومت بلوچستان پولیس کے شہداء کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی، یہ قربانیاں صوبے میں امن و امان کی بحالی کی بنیاد ہیں۔‘‘

انہوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ بلوچستان کو جدید ہتھیار، تربیت اور وسائل فراہم کیے جائیں تاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ مزید مؤثر ہو سکے۔ انہوں نے حملہ آوروں کی فوری گرفتاری کے لیے پولیس اور لیویز کو ہدایات بھی جاری کیں۔

مقامی عمائدین اور شہریوں نے وزیراعلیٰ کی آمد کو سراہا اور کہا کہ یہ دورہ شہیدوں کے خاندانوں کے لیے تسلی کا باعث بنا ہے۔ شہید ایس ایچ او لطف علی کھوسہ اور کانسٹیبل عظیم کھوسہ کے جنازوں میں صوبے بھر سے ہزاروں افراد نے شرکت کی، جو ان کی بہادری کی داستانوں سے جڑے ہوئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کی اصل قیادت جیل میں ہے، باہر موجود لوگ متعلقہ نہیں: فواد چوہدری
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
  • پی ٹی آئی میں حتمی فیصلہ عمران خان کا، چھوڑ کر جانے والے غیر متعلقہ ہیں: شیخ وقاص اکرم
  • یکم نومبر 1984 کا سکھ نسل کشی سانحہ؛ بھارت کی تاریخ کا سیاہ باب
  • سینئر صحافی کے جاں بحق ہونے کا معاملہ‘اہلیہ متعلقہ اتھارٹی اوروفاق پرہرجانے کادعویٰ
  • بھارت کی افغان طالبان کو دریائے کنٹر پر ڈیم بنانے میں مدد کی پیشکش
  • بھارت کی نئی چال؛ طالبان کو چترال سے نکلنے والے دریا پر ڈیم بنانے میں مدد کی پیشکش
  • چترال سے نکلنے والے دریائے کنڑ پر بھارت کی افغان طالبان کو ڈیم بنانے میں مدد کی پیشکش
  • سانحہ بھاگ میں شہید ایس ایچ او کے اہل خانہ سے وزیراعلیٰ بلوچستان کی تعزیت، اعزازات کا بھی اعلان
  • سیلاب سے متاثرہ 1 لاکھ 89 ہزار افراد کے بینک اکاؤنٹس کھل چکے ہیں: عرفان علی کاٹھیا