کربلا سے سبق اور اس کی عصرِ حاضر میں اہمیت
اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT
کربلا سے سبق اور اس کی عصرِ حاضر میں اہمیت WhatsAppFacebookTwitter 0 7 July, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد مرتضیٰ نور
کربلا کا واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جو صرف ایک جنگ یا تصادم نہیں بلکہ ایک ابدی پیغام اور اصولوں کی فتح ہے۔ 10 محرم الحرام 61 ہجری کو حضرت امام حسینؑ اور ان کے باوفا ساتھیوں نے باطل، ظلم اور جبر کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان کا مقصد صرف اقتدار کا حصول نہیں بلکہ دین اسلام کے حقیقی پیغام کو بچانا تھا۔ کربلا کا واقعہ رہتی دنیا تک ہمیں حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے کی بصیرت دیتا ہے۔
یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ سچائی، انصاف اور اصولوں کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے، چاہے اس کی کتنی ہی بڑی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔ امام حسینؑ نے نہ صرف باطل کے سامنے جھکنے سے انکار کیا بلکہ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ظلم کے خلاف خاموشی بھی جرم ہے۔ انہوں نے قربانی دے کر یہ اصول واضح کر دیا کہ اگر دین کی بقا کے لیے جان بھی دینی پڑے تو یہ سود مند سودا ہے۔
آج کی دنیا میں جہاں ناانصافی، جبر، کرپشن اور طاقت کے ناجائز استعمال نے انسانیت کو کچل رکھا ہے، کربلا کا پیغام اور بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ موجودہ حالات میں اگر کوئی شخص یا قوم ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے تو وہ حسینی راستے پر ہے۔ امام حسینؑ ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ اگر سچ کے لیے اکیلے بھی کھڑے ہونا پڑے تو گھبرانا نہیں چاہیے، کیونکہ سچائی بالآخر غالب آتی ہے۔
کربلا ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ حکومت اور اقتدار کا مقصد عوام کی خدمت ہے، نہ کہ ذاتی مفاد یا ظلم و جبر۔ اسی طرح سماجی سطح پر بھی ہمیں مظلوموں، محروموں اور کمزوروں کا ساتھ دینا چاہیے، کیونکہ یہی حقیقی اسلامی تعلیمات ہیں۔
امام حسینؑ کے قول “اگر دین محمدؐ کا باقی رہنا میری قربانی کے بغیر ممکن نہیں، تو اے تلوارو! آ جاؤ!” میں وہ جرات، ایثار اور قربانی کا جذبہ جھلکتا ہے جو ہر حق پرست انسان کے لیے مشعل راہ ہے۔ آج کے دور میں جب دنیا مختلف بحرانوں سے دوچار ہے، تو کربلا کا پیغام ہمیں باطل کے خلاف ڈٹ جانے، سچائی کے ساتھ کھڑے ہونے اور مظلوموں کی حمایت کرنے کا حوصلہ دیتا ہے۔
نتیجتاً، کربلا صرف ماضی کا واقعہ نہیں بلکہ ایک زندہ تحریک ہے جو ہر دور کے انسان کو جھنجھوڑتی ہے کہ وہ ضمیر کو زندہ رکھے، حق کے لیے قربانی دینے کو تیار رہے، اور دنیا کے ظالم نظاموں کے سامنے جھکنے سے انکار کرے۔ امام حسینؑ کی قربانی ہمیں انسانیت، صداقت، عدل اور غیرت کا وہ درس دیتی ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔
آج اگر ہم دنیا کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں، تو فلسطین خصوصاً غزہ میں ہونے والا ظلم و ستم ہمیں کربلا کی یاد دلاتا ہے۔ نہتے، مظلوم اور محصور فلسطینی عوام، بالخصوص عورتیں، بچے اور بوڑھے، ظالم قوتوں کے محاصرے، بمباری اور انسانیت سوز مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہیں پانی، بجلی، دوائی، خوراک اور بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے کربلا میں امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا گیا تھا۔ دنیا کی بے حسی اور خاموشی بھی ہمیں یزیدی دربار کی یاد دلاتی ہے، جہاں حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ مگر جیسے امام حسینؑ کی قربانی نے حق کو زندہ رکھا، ویسے ہی غزہ کے مظلوموں کی استقامت بھی تاریخ میں ایک نئی کربلا رقم کر رہی ہے، جو ظلم کے خلاف مزاحمت اور آزادی کے لیے قربانی کی علامت بن چکی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبریوم عاشور پر زبردست انتظامات، وزیراعظم کی صوبائی حکومتوں، سکیورٹی فورسز اور پولیس کو شاباش آئینی لغزش: آزاد پھر سے آزاد ہو گئے پی ٹی آئی کی آئینی غلط فہمی اور سنی اتحاد کونسل کی حمایت کی بھاری قیمت سپریم کورٹ نے انتخابی عمل میں ‘ریورس انجینئرنگ’ کو مسترد کر دیا حق کی تلوار اور ظلم کا تخت اسلام آباد میں خاموش مون سون نے خطرے کی گھنٹی بجا دی سوات کے بہتے پانیوں میں آنسوؤں کی رم جھم حضرت عمر فاروقؓ: عادل خلیفہ اور قیادت کا لازوال نمونہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
مہمان خصوصی کاحشرنشر
یہ الگ بات ہے کہ ہم دانا دانشوروں ، برگزیدہ قسم کے تجزیہ کاروں اورکالم نگاروں، مقالہ نگاروں کے نزدیک کسی شمارقطار میں نہیں ہیں بلکہ صحافیوں میں بھی ایویںایویں ہیں اور شاعروں، ادیبوں یاایوارڈزدینے والوں کے خیال میں بھی پرائے ہیں لیکن ابھی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سب سے نیچے ہی سہی ہمارا نام بھی لے لیتے ہیں ۔
اہل ورع کے جملہ میں ہرچند ہوں ذلیل
پرغاصبوں کے گروہ میں ہیں برگزیدہ قبول
چنانچہ ایک گاؤں کی ایک ادبی تنظیم کا ایک وفد ہمارے پاس آیا کہ ہماری تنظیم نے معروف شاعروں، ادیبوں کے ساتھ شامیں منانے کاسلسلہ شروع کیا ہے، اب تک ہم تیس چالیس سے اوپر شخصیات کو یہ اعزاز بخش چکے ہیں اوراب قرعہ فال آپ کے نام نکلا ہے۔ ہم خوش ہوئے، ہم مسکرادیے، ہم ہنس دیے اورفخر سے پھول کر حامی بھرلی۔
مقررہ دن اوروقت کو ہم نے پانچ سوروپے حق حلال کے، مال حرام کی طرح خرچ کرکے ٹیکسی لی اورمقام واردات پر پہنچ گئے ،کمرہ واردات میں تیس چالیس لوگ فرش پر بیھٹے تھے، ہمارے گلے میں ہار ڈالا گیا جو رنگین ریشوں پر مشتمل تھا جو عام طور پر سائیکل کے پہیوں میں یاختنے کے بچوں کے گلے میں ڈالا جاتا ہے اورڈیڑھ دوروپے کی گراں قیمت میں مل جاتا ہے ۔ ہمیں کونے مں ایک صوفے پر بٹھا دیا گیا اوربیٹھے ہوئے لوگ قطار میں آکر ہمیں مصافحے کاشرف عطا کرنے لگے۔
یہ سلسلہ ختم ہوا تو تنظیم کے سیکریٹری نے کھڑے ہوکر اپنی تنظیم کی ’’عظیم الشان‘‘ سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ آج ہم اس سلسلے کی اٹھائیسویں شام ان جناب کے ساتھ منارہے ہیں ، نام تو آپ نے ان کا سنا ہوگا ، اب میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں تفصیل سے بتائیں ۔جھٹکا تو زورکا لگا کہ عام طورپر تو ایسی تقاریب میں یوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ’’مہمان ‘‘ کے بارے میں مقالے وغیرہ پڑھتے ہیں، نظم ونثرمیں اس کی صفات اورکارناموں کی تفصیل بتاتے ہیں، اس کے بعد آخر میں مہمان کو بولنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن یہاں گیند ابتداء ہی سے براہ راست میرے کورٹ میں ڈال دی گئی بلکہ دے ماری گئی ، اس لیے میں نے بھی اٹھ کر ان کے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے کہا کہ نام تو میرا جناب سیکریٹری موصوف نے آپ کو بتادیا ہے ، والد کانام فلاں اوردادا کا نام فلاں ہے ، میرے جد امجد فلاں ہیں۔میرے دو چچا، تین ماموں اورچاربھائی ہیں ، اولادوں کی تعداد آٹھ ہے ، چار لڑکیاں اورچارلڑکے ۔لڑکیاں ساری کی ساری بیاہی جاچکی ہیں ، بیٹوں میں تین کی شادیاں ہوچکی ہیں ، ایک باقی ہے ،انشاء اللہ اگلے ستمبر میں اس کی بھی ہوجائے گی۔
بڑا بیٹا تین بچوں کا باپ ہے اوردبئی میں ہے ، دوسرا یہاں کے ایک محکمے میں جونئر کلرک ہے، تیسرا بے روزگار ہے لیکن دیہاڑی کرنے جاتا ہے اورچوتھا ابھی پڑھ رہا ہے ، بیوی بقیدحیات ہے اورمیں اس کی بقید ہوں ، بیچاری کو گھٹنوں کی بیماری لاحق ہے لیکن زبان ہرلحاظ سے صحت مند ہے ۔ میرا قد پانچ فٹ پانچ انچ ، وزن اسی کلوگرام ہے اورشناختی نشانیاں کٹی ہوئی ناک ہے، تعلیم صبح آٹھ بجے سے دوپہر گیارہ بچے تک ہے ، صبح آٹھ بجے والد نے اسکول میں داخل کرایا اورگیارہ بجے میں بھاگ کر گھر آگیا، باقی تعلیم محلے کے سینئر نکموں نکھٹؤں سے حاصل کی ہے ، شاعری کے انیس مجموعے چھپ چکے ہیں اوربیسواں طباعت کے مرحلے میں ہے ، پھر ایک لمبا وقفہ دینے کے بعد اچانک شکریہ کہہ کر بیٹھ گیا۔ میراخیال تھا کہ اپنے بارے میں اتنی قیمتی معلومات دینے پر کوئی اعتراض کرے گا ، تبصرہ کرے گا یا سوالات اٹھائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اورسیکریٹری نے اٹھ کر مشاعرے کااعلان کردیا اوراپنی بیالیس بندوں والی نظم سنائی ۔
اب تک میرا خیال تھا کہ بیٹھے ہوئے لوگ غیر مسلح ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ سب کے سب نظموں کی تلواروں ، غزلوں کے خنجروں ، چاربیتوں کے نیزوں سے مسلح ہیں ، اس کے بعد دو گھنٹے وہ گھمسان کارن پڑا کہ مجھے اندر باہر، آگے پیچھے اورنیچے سے لہولہان کر دیاگیا ۔
کرے فریاد امیر اے دست رس کس کی
کہ ہردم کھینچ کر خنجر سفاک آتے ہیں
آخر کار سیکریٹری نے مشاعرہ ختم ہونے اورچائے کااعلان کیا ، کونے میں پڑی ہوئی تھرماسیں متحرک ہوئیں ، چائے کے ذائقے رنگ اوربدبو سے پتہ چلا کہ سب کی بیویاں بڑی ’’سلیقہ شعار‘‘ تھیں، یہ سوچ کر کہ بعد میں وقت ملے نہ ملے ، چولہا جلے نہ جلے ، اس لیے صبح ہی چائے تیار کرکے تھرماسوں میں ذخیرہ کی گئی تھی اورمٹھائی بھی احتیاطاً دو ماہ پہلے ہی خریدی گئی تھی ۔
وہ رنگین پلاسٹک کے ریشوں کاہار ہم نے سامنے دیوار پر ٹانک دیا ہے تاکہ ہمیں بتاتا رہے کہ خبردار اگر پھر ایسی غلطی کی تو میں گلے پڑ جاؤں گا۔
ویسے احتیاطاً میں نے ایک ماہرسے ایک ایسا گتا بھی خرید کر رکھ لیا ہے جو شاعر شناسی میں بڑا تیز ہے اورانھیں بھگانے میں ’’غپ طولیٰ‘‘ رکھتا ہے ۔