سندھ حکومت کی کراچی دشمنی عیاں ہوگئی‘ شہر کیلیے مختص 183ارب خرچ ہی نہیں کیے
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (رپورٹ /واجد حسین انصاری ) شہر قائدکی ترقی کے بلند و بانگ دعوے کرنے والی سندھ حکومت کی کراچی دشمنی ایک مرتبہ پھر کھل کر سامنے آگئی۔ مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں شہر کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص رقم میں سے 183ارب روپے خرچ ہی نہیں کیے جاسکے۔ عوام کو جھانسہ دینے کے لیے بچ جانے والی رقم کو نئے مالی سال میں منتقل کردیا گیا۔کراچی کی نمائندگی کادعویٰ کرنے والی
جماعتوں ایم کیو ایم پاکستان اور تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کی کھلی ناانصافی کے خلاف چپ سادھ لی اور شہر سے ہونے والی زیادتی پر سندھ اسمبلی کے ایوان میں کوئی آواز بلند نہیں کی۔ ذرائع کے مطا بق مالی سال 2024-25کے لیے صوبائی حکومت نے کراچی کے 4644ترقیاتی منصوبوں کے لیے 493ارب مختص تھے۔اس رقم میں کیپٹل پر 445ارب اور ریونیو پر 47ارب روپے شامل تھے۔ذرائع نے بتایا کہ پورے مالی سال میں 299ارب روپے جاری کیے گئے جس میں کیپٹل پر 272ارب اور ریونیو پر 24روپے شامل تھے۔ حیرت انگیزطور پر مالی سال میں صرف 282روپے خرچ کیے جاسکے اور 193ارب روپے خرچ ہی نہ ہوسکے۔پورے مالی سال میں کراچی کے لیے مختص رقم میں سے صرف 57.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے ترقیاتی منصوبوں پیپلزپارٹی کی مالی سال میں لیے مختص کراچی کے کے لیے خرچ کی
پڑھیں:
سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ اسلام ٹائمز۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15 لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5 کیسوں میں 4 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2 کیسز میں حکومت کو 45 لاکھ روپے کا نقصان اور 14 لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔ رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔