مقتدر حلقے ملک میں سیاسی تناؤ ختم کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں، بیرسٹر گوہر
اشاعت کی تاریخ: 3rd, August 2025 GMT
بونیر میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چئیرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ 9 مئی واقعات کے بعد ملک بھر میں سیاسی تناؤ بڑھ گیا جو ختم نہیں ہو رہا، ہمارے لوگوں پر مقدمات بنائے گئے، سزائیں دی گئیں اور نااہل کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ ملک میں سیاسی تناؤ مسلسل بڑھ رہا ہے، ملک کی ترقی کے لیے اس سیاسی تناؤ کو ختم کرنا ہو گا اور اس کے لیے مقتدر حقلے اپنا کردار ادا کریں۔ خیبر پختونخوا کے علاقے بونیر میں پی ٹی آئی کے 5 اگست کو احتجاج کے سلسلہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ 9 مئی واقعات کے بعد ملک بھر میں سیاسی تناؤ بڑھ گیا جو ختم نہیں ہو رہا، ہمارے لوگوں پر مقدمات بنائے گئے، سزائیں دی گئیں اور نااہل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی اور سینیٹرز کو نااہل قرار دیا جا رہا ہے، جس سے تناؤ میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمارے لوگوں نے مقدمات سہے، نااہلیاں سہہ لیں اور بھاری قیمت ادا کی، اب مقتدر حلقوں کی باری ہے کہ وہ بھی اپنی ذمہ داری ادا کریں، وہ اس میں کردار ادا کریں اور ملک میں بڑھتے ہوئے تناؤ کو ختم کریں کیونکہ جب عوام میں تناؤ بڑھتا ہے تو جہموریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اب اگر جمہوریت کو آگے بڑھنا ہے تو مقتدر حلقوں کو کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ لوگ پہلے یہ پوچھتے تھے کہ بانی پی ٹی آئی کا کیس کب لگے گا، اب صبح شام لوگ یہی پوچھتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کب رہا ہوں گے اور جب تک وہ رہا نہیں ہوں گے ہر طرف سے یہی آواز آئے گی کہ بانی چیئرمین کو رہا کرو۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اب ہوش کے ناخن لو، کچھ آسانیاں پیدا کرو، مزید مقدمات اور نااہلیوں سے باز آ جاؤ، بانی چیئرمین کو رہا کرو کیونکہ ایسی صورت حال سے سیاسی تناؤ مزید بڑھے گا، اس سے عوام میں غصہ بڑھے گا اور بدامنی بڑھنے کا بھی خدشہ ہے اور عوام کا اداروں پر عدم اعتماد مزید بڑھے گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک ایسے سیاسی تناؤ کا مزید تمتحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے سب سے درخواست کرتا ہوں کہ ایسا سیاسی تناؤ ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ ملک ترقی کرے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں سیاسی تناؤ بیرسٹر گوہر پی ٹی ا ئی نے کہا کہ نہیں ہو
پڑھیں:
عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی میں کمی کیلئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ رہنماؤں اور سابق رہنماؤں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے باوجود پارٹی کی تصادم کی راہ پر چلنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس میں رکاوٹ خود عمران خان بنے ہوئے ہیں جن کے سمجھوتہ نہ کرنے کے موقف کی وجہ سے مصالحت کے جانب بڑھنے میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں (جیل کے اندر اور باہر موجود) سینئر شخصیات خاموشی کے ساتھ سیاسی مذاکرات کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، دلیل دے رہے ہیں کہ تصادم کی پالیسی نے صرف پارٹی کو تنہا کیا ہے اور اس کیلئے امکانات کو معدوم کیا ہے۔ تاہم، ان کی کوششوں کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ عمران خان حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے حوالے سے دوٹوک موقف رکھتے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے کھل کر حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرنے کے چند روز بعد ہی عمران خان نے اڈیالہ جیل سے سخت الفاظ پر مشتمل ایک پیغام جاری کرتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ 8؍ جولائی کے بیان میں عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ ’’مذاکرات کا وقت ختم ہو چکا ہے‘‘ اور ساتھ ہی رواں سال اگست میں ملک بھر احتجاجی مہم کا اعلان کیا۔ عمران خان کے پیغام نے موثر انداز سے ان کی اپنی ہی پارٹی کے سینئر رہنماؤں (بشمول شاہ محمود قریشی اور دیگر) مصالحتی سوچ کو مسترد کردیا ہے۔ یہ لوگ حالات کو معمول پر لانے کیلئے منطقی سوچ اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے۔ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ جب تک عمران خان اپنے تصادم پر مبنی لب و لجہے (خصوصاً فوجی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف) پر قائم رہیں گے اس وقت تک پی ٹی آئی کیلئے سیاسی میدان میں واپس آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ بھی نجی محفلوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ پارٹی کے بانی چیئرمین اور پارٹی کا سوشل میڈیا جب تک فوج کو ہدف بنانا بند نہیں کرے گا تب تک بامعنی مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔ تاہم، اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنا لہجہ نرم بھی کر لے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان پر عدم اعتماد بہت گہرا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں فوج کی قیادت پر ان کی مسلسل تنقید نے نہ صرف موجودہ کمان بلکہ ادارے کی اعلیٰ قیادت کے بڑے حصے کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ اگرچہ عمران خان پی ٹی آئی کی سب سے زیادہ مقبول اور مرکزی شخصیت ہیں، لیکن ذاتی حیثیت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی ساکھ خراب ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی بحالی کا انحصار بالآخر متبادل قیادت پر ہو سکتا ہے مثلاً شاہ محمود قریشی یا چوہدری پرویز الٰہی جیسے افراد، جو مقتدر حلقوں کیلئے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی سیاست عمران خان کے ہاتھوں یرغمال ہے، مذاکرات پر غور سے ان کے انکار کی وجہ سے سیاسی حالات نارمل کرنے کیلئے گنجائش بہت کم ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت کے معاملے میں تو اس سے بھی کم گنجائش ہے۔ عمران خان کے آگے چوائس بہت واضح ہے: تصادم اور تنہائی کی سیاست جاری رکھیں، یا ایک عملی تبدیلی کی اجازت دیں جو پی ٹی آئی کی سیاسی جگہ بحال کر سکے۔ اس وقت، فواد چوہدری اور عمران اسماعیل کی تازہ ترین کوششوں کے باوجود، تمام اشارے اول الذکر چوائس کی طرف نظر آ رہے ہیں۔
انصار عباسی