9 مئی کے 2 مقدمات کا لاہور میں ٹرائل مکمل، فیصلہ 11 اگست کو سنایا جائےگا
اشاعت کی تاریخ: 9th, August 2025 GMT
انسداد دہشتگردی عدالت لاہور نے تھانہ شادمان اور جناح ہاؤس کے قریب پولیس گاڑیاں جلانے کے مقدمات کا جیل ٹرائل مکمل کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: 9 مئی سمیت دیگر کیسز میں قومی اسمبلی کے 8 ارکان کی نااہلی، عمر ایوب اپوزیشن لیڈر نہیں رہے
دونوں مقدمات میں عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے کمرہ عدالت میں موجود ملزمان کو باہر جانے سے روک دیا۔ تاہم بعد ازاں عدالت نے بتایا کہ محفوظ شدہ فیصلہ 11 اگست کو سنایا جائے گا۔
پولیس نے 9 مئی کو تھانہ شادمان کو جلانے کے مقدمے میں 41 ملزمان کے خلاف چالان جمع کرایا، جن میں سے 25 کا ٹرائل کیا گیا، 15 کو اشتہاری قرار دیا گیا جبکہ ایک ملزم وفات پا چکا ہے۔ اس مقدمے میں مجموعی طور پر 45 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے۔
ملزمان میں شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، محمود الرشید، عمر سرفراز چیمہ، اعجاز چوہدری، عالیہ حمزہ، صنم جاوید اور دیگر شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 9 مئی کیس میں سزائیں: عمر ایوب اور شبلی فراز سمیت پی ٹی آئی کے 9 پارلیمنٹیرینز نااہل قرار
اسی روز جناح ہاؤس کے قریب پولیس گاڑیاں جلانے کے دوسرے مقدمے میں 65 گواہوں نے شہادت دی۔ اس کیس میں 17 ملزمان کا ٹرائل کیا گیا، 7 کو اشتہاری قرار دیا گیا اور ایک ملزم وفات پا چکا ہے۔ اس مقدمے کے ملزمان میں بھی شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ اور دیگر شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اے ٹی سی جج تھانہ شادمان عمران خان کوٹ لکھپت جیل گاڑیاں جلانے کا مقدمہ لاہور وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے ٹی سی جج تھانہ شادمان کوٹ لکھپت جیل گاڑیاں جلانے کا مقدمہ لاہور وی نیوز
پڑھیں:
’ انسداد دہشتگردی قانون میں کمپرومائز کی گنجائش نہیں،‘فرحان غنی سمیت دیگر کیخلاف مقدمے میں گواہ طلب
انسداد دہشت گردی کی منتظم عدالت نے ٹاؤن چیئرمین فرحان غنی سمیت دیگر کیخلاف سرکاری ملازم پر تشدد کرنے کے مقدمے میں آئندہ سماعت پر گواہوں کو طلب کرلیا۔
کراچی سینٹرل جیل انسداد دہشتگردی کمپلیکس میں منتظم عدالت کے روبرو ٹاؤن چیئرمین فرحان غنی سمیت دیگر کیخلاف سرکاری ملازم پر تشدد کرنے کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔
فرحان غنی سمیت دیگر ملزمان پیش ہوئے، تفتیشی افسر اور طرفین کے وکلا بھی پیش ہوئے، عدالت نے استفسار کیا کہ کتنے گواہان کے بیانات ریکارڈ کئے گئے؟ اور کب کئے گئے؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ 2 گواہان کے 161 کے بیانات 24 اگست کو ریکارڈ کئے گئے۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ گواہان کے بیانات کے مطابق سرکاری کام بند کروایا گیا، وکیل صفائی نے درمیان میں بولنے کی کوشش کی، عدالت نے وکیل صفائی کو ہدایت کی صبر کا دامن تھام کر رکھیں، آپ کو موقع دیا جائے گا۔
عدالت نے وکیل صفائی سے استفسار کیا کہ 497-II بی انسداد دہشتگردی کی دفعات پر لاگو ہوتی ہے؟ ملزمان کو جس سیکشن کے تحت ضمانت پر رہا کیا گیا اور درخواست عدالت میں جمع کروائی گئی، وہ سیکشن کہاں ہے، دکھائیں؟ مدعی کے وکیل وہ قانون عدالت میں پیش کریں۔
وکیل صفائی نے مؤقف دیا کہ احاطہ عدالت میں کوئی غیر قانونی کام ہوگا تو پریزائڈنگ افسر اسے روکے گا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو چاہیے تھا کہ اگر کام چل رہا تھا تو پہلے اسے نوٹس دیتے، وکیل صفائی نے موقف دیا کہ اگر کوئی روڈ، گلیاں اور فٹ پاتھ کو نقصان پہنچا رہا ہے تو اس کو روکیں گے۔ ملزم گرفتار تھا تو نوٹس کیسے جاری کرتا۔ اگر عدالت چاہے تو 497-II بی کی درخواست منظور کرے یا پھر کارروائی کرے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ جذباتی ہورہے ہیں۔ وکیل صفائی نے موقف دیا کہ آپ نے کس سیکشن کے تحت ریمانڈ دیا، میں بھی کچھ سیکھنا چاہتا ہوں۔ عدالت نے کہا کہ ہم نے قانون کے مطابق ٹو ای کے تحت ریمانڈ دیا، یہ رہا قانون۔
وکیل صفائی نے موقف دیا کہ زیر دفعہ 497 کے تحت اگر درخواست منظور نہیں ہوتی تو دہشتگردی کی دفعات ختم کردیں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ مدعی سمیت گواہوں کے زیر دفعہ 164 کے بیانات کروائیں اور لے آئیں۔
وکیل صفائی نے موقف دیا کہ سر کیا یہ کوئی بہت اہم کیس ہے جو اتنی باریکیاں دیکھی جارہی ہیں۔
پراسیکیوٹر نے موقف دیا کہ مقدمے کی شفاف تحقیقات کی گئی ہیں، سرکاری کام چل رہا تھا لیکن کوئی دہشتگردی نہیں ہوئی ہے، اس کیس میں انسداد دہشتگردی کا خصوصی قانون لاگو نہیں ہوگا، یہ اے ٹی سی کا کیس نہیں بنتا، ہم درخواست دے دیتے ہیں۔
عدالت نے ایک مرتبہ پھر تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ اب تک کتنے بیانات ریکارڈ کئے گئے؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ 2 گواہان کے بیان لئے گئے پھر کمپرومائز ہوگیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ انسداد دہشتگردی قانون میں کمپرومائز کی گنجائش ہی نہیں ہے، مدعی کا بیان کس قانون کے تحت ریکارڈ کیا گیا۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے قانون پڑھا ہے یا نہیں؟ پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ مدعی مقدمہ کا بیان نہیں دیکھتا، میں شواہد کی بات کررہا ہوں۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم آئندہ سماعت پر مدعی مقدمہ کو طلب کرلیتے ہیں، مدعی کے وکیل مزمل قریشی نے موقف دیتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا کہ مدعی مقدمہ کا تعلق حساس ادارے سے ہے، مدعی کے بجائے گواہان کو عدالت میں پیش کردیتے ہیں۔
عدالت نے آئندہ سماعت پر گواہوں کو طلب کرتے ہوئے سماعت 30 ستمبر تک ملتوی کردی۔