نئے صوبے اور بااختیار مقامی حکومتیں
اشاعت کی تاریخ: 25th, August 2025 GMT
جنرل ضیا الحق کے آخری دور میں ملک میں 18 ڈویژن تھے جنھیں صوبوں کا درجہ دینے کی تجویز زیر غور تھی اور میں اپنے آبائی شہر شکارپور میں اخباری نمایندہ تھا۔
غوث بخش مہر ضلع شکارپور سے سندھ کابینہ میں شامل تھے، انھوں نے مجھے کراچی سے فون کیا کہ وفاقی حکومت ملک کے 18 ڈویژنوں کو صوبوں کا درجہ دینا چاہتی ہے اور میرے اپنے خیال میں 18 نہیں 16 صوبے ہونے چاہئیں اور میں 16 صوبوں کی حمایت کرتا ہوں۔پھر جونیجو حکومت ختم اور پھر صدر جنرل ضیا الحق شہید ہو گئے تھے اور نئے صوبوں کا معاملہ ختم ہو گیا تھا۔
ملک میں 1973 کے آئین کے بعد وفاق، سندھ و پنجاب میں پیپلزپارٹی کی حکومتیں قائم ہوئی تھیں اور وزیر اعظم بھٹو نے سندھ میں دس سال کے لیے کوٹہ سسٹم نافذ کیا تھا تاکہ دیہی سندھ کے نوجوانوں کو 60 فی صد کوٹہ دے کر آگے لایا جائے جب کہ شہری سندھ کو 40 فی صد کوٹہ دیا گیا تھا مگر وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو نے شہری سندھ کے کوٹے پر عمل نہیں ہونے دیا تھا جس پر سندھ میں پہلی بار لسانی فساد ہوا تھا اور ذوالفقارعلی بھٹو صاحب نے غلام مصطفیٰ جتوئی کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا جو اچھی شہرت کے حامل اور سندھی و اردو بولنے والوں میں یکساں قابل قبول تھے۔
جنھوں نے اردو بولنے والوں کو بھی مطمئن رکھا تھا مگر 1977 میں مارشل لا لگ گیا جس میں کوٹہ سسٹم میں توسیع کر دی جس کے بعد ہر آنے والی حکومت نے کوٹہ سسٹم میں توسیع کی اور اب نصف صدی ہونے والی ہے مگر کوٹہ سسٹم برقرار ہے۔ سندھ میں 1977 کے بعد سب سے زیادہ پیپلز پارٹی کی حکومت رہی اور غلام مصطفیٰ جتوئی کے بعد جام صادق کی حکومت تک اردو بولنے والوں کی شکایات میں کمی رہی۔ جنرل ضیا دور میں اردو بولنے والوں کے ساتھ ناانصافیوں کے نام پر ایم کیو ایم بنائی گئی تھی جس کی شکایات کافی حد تک جائز بھی تھیں اور کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ بھی ہوتا رہا مگر یہ اب بھی برقرار ہے۔
1988 میں پی پی کی حکومت پھر قائم ہوئی اور 1990 میں بے نظیر دور میں سندھ میں پھر لسانی فسادات اور بڑے پیمانے پر اردو بولنے والوں کی نقل مکانی ہوئی اور 1993 میں پی پی کی حکومت آئی جس کے وزیر اعلیٰ عبداللہ شاہ نے اردو بولنے والوں کے خلاف جن کی نمایندگی ایم کیو ایم کرتی تھی سخت رویہ اختیار رکھا اور کراچی میں سخت بدامنی رہی۔ ایم کیو ایم کی اپنی غلطیوں سے 1992 میں اس کے خلاف آپریشن ہوا تھا جو شہید محترمہ بے نظیربھٹو اور میاں محمد نواز شریف دور تک اور 1999 میں جنرل مشرف دور میں ختم ہوا مگر ایم کیو ایم مشرف دور میں بھی کوٹہ سسٹم ختم نہ کرا سکی تھی، البتہ اس کے رہنماؤں نے بھرپور فائدے اٹھائے تھے۔
ایم کیو ایم جس مقصد کے لیے بنی تھی 40 سالوں میں وہ تو پورا نہ ہوا۔ پی پی حکومتوں میں ایم کیو ایم اس کا حصہ بھی رہی مگر اس کے لوگوں کے مسائل اور شکایات اب بھی برقرار ہیں۔ سندھ میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد زرداری دور میں لسانی فساد تو نہیں ہوا مگر حکومت سندھ نے 17 سالوں میں اردو بولنے کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اس کی توجہ کراچی حیدرآباد پر کبھی نہیں رہی جس کی وجہ سے کراچی صوبے کا مطالبہ بھی ہوا جس پر اندرون سندھ سے سخت رد عمل آیا اور اب جو نئے صوبوں کی تجویز دی گئی ہے اس سے خدشہ ہے کہ سندھ میں شہری سندھ اور دیہی سندھ کے نام پر سندھ میں لسانی فسادات کی آگ بھڑک اٹھے۔ سندھ لسانی صوبہ کبھی بھی نہیں بن سکتا اور نہ ہی بننا چاہیے۔
بلوچستان میں نئے صوبوں کا کوئی مطالبہ نہیں، کے پی میں ہزارہ اور پنجاب میں جنوبی پنجاب صوبے کا مطالبہ ضرور ہے۔ ڈی آئی خان صوبے کا مطالبہ ہے ہی نہیں۔ ملک کے حالات نئے صوبوں کے لیے ہیں ہی نہیں بلکہ ملک کو بااختیار مقامی حکومتوں کی اشد ضرورت ہے جوکہ صوبوں نے ہضم کر رکھی ہیں۔ 1973 کے آئین میں بااختیار مقامی حکومتوں کا ذکر ہے جس پر عدلیہ ہی عمل کرا سکتی ہے ۔ 18 ویں ترمیم بااختیار مقامی حکومتوں کی دشمن ہے اور تمام وزرائے اعلیٰ مقامی بااختیار حکومتیں چاہتے ہی نہیں جب کہ ضرورت صرف اور صرف بااختیار مقامی حکومتوں کے قیام کی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بااختیار مقامی حکومتوں اردو بولنے والوں ایم کیو ایم کا مطالبہ کوٹہ سسٹم کی حکومت صوبوں کا ایم کی کے بعد
پڑھیں:
کے پی کو وفاقی حکومت کی سپورٹ کی ضرورت ہے: گورنر فیصل کریم کنڈی
---فائل فوٹوخیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ کے پی کو وفاقی حکومت کی سپورٹ کی ضرورت ہے۔
گورنر فیصل کریم کنڈی نے اپنے بیان میں کہا کہ کے پی صوبے کے حکمرانوں کو سنجیدگی سے کام لینا چاہیے، صوبے میں امن و امان کی صورتحال ہماری ترجیح ہے، صوبے کی بہتری کے لیے ہم مل بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیر سے ہوگا، اسلام آباد سے نہیں، ہر صوبے اور علاقے کے فیصلے وہیں ہونے چاہئیں۔
فیصل کریم کنڈی کا کہنا ہے کہ ہمیں این ایف سی کے لیے تیار کرنی چاہیے۔