بھارت پر 50 فیصد امریکی ٹیرف کا آج سے نفاذ، پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, August 2025 GMT
امریکا کی جانب سے دنیا کے کئی ممالک پر اضافی ٹیرف عائد کردیا گیا ہے، بات کی جائے پاکستان اور بھارت کی تو اس وقت پاکستان پر 19 جبکہ بھارت پر 50 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔
بھارت پر 50 فیصد ٹیرف کا مطلب ہے کہ امریکا جانے والے بھارتی مصنوعات اب مہنگی ہو جائیں گی اور امریکی مارکیٹ میں متبادل سستی اشیا کی جانب عوام راغب ہوں گے، کیا پاکستان اس موقع کے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
معاشی ماہر سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چاہے تو اس صورت حال سے بہت فائدہ لے سکتی ہے، ہمارے ہاں تو بہت مسائل ہیں انرجی کرائیسس ہے، یہ ایک سنہری موقع ہے، حکومت کو مینوفیکچررز کو سہولیات دینا ہوں گی اس سے پاکستان میں تیار کردہ اشیا امریکا کی مارکیٹ پہجچ پائیں گی۔
مزید پڑھیں: بھارت پر 50 فیصد ٹرمپ ٹیرف آج سے نافذ، سب سے زیادہ کون سے شعبے متاثر ہوں گے اور فائدہ کس ملک کو ہوگا؟
سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ ٹیکسٹائل، ادویات، سرجیکل آئٹمز میں آئی ٹی میں ہم بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں، ہمیں امپورٹ کرنا پڑے گا، ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ملک ترقی کرتا ہے امپورٹ بڑھتی ہے تو پھر ہم بیٹھ جاتے ہیں۔
پاکستان کی پالیسی ایسی ہے کہ ہم سب کچھ امپورٹ کر رہے ہیں ہمیں خود انحصاری کے فارمولے پر چلنا ہوگا ورنہ یہی مسئلہ ہوگا کہ کمائی کم ہوگی اور خرچ زیادہ، ہمیں مینیج کرنا پڑے گا اگر باہر سے کوئی آرڈر آتا ہے تو پھر ڈالرز بھی آجاتے ہیں۔
سینئر صحافی تنویر ملک نے وی نیوز کو بتایا کہ بھارت پر امریکی 50 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے، اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روس سے بھارت جو تیل کی مصنوعات لینے کے بعد ریفائن کرکے اسے انٹرنیشنل مارکیٹ کو دیتا ہے اس سے جو رقم روس کو ملتی ہے وہ یوکرین کے خلاف جنگ میں استعمال ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں: 50 فیصد ٹرمپ ٹیرف نافذ سے ہونے سے پہلے ہی بھارتی کاروباری طبقہ بدترین بحران سے دوچار
تنویر ملک کا کہنا ہے کہ اس کے مقابلے پاکستان پر 19 فیصد ٹیرف عائد ہوا ہے، صدر ٹرمپ سے قبل پاکستانی مصنوعات پر 17، 18 یا کچھ پر 19 فیصد لگتا تھا، اس وقت پاکستان کو ایک ایڈوانٹیج تو حاصل ہو گیا ہے کیوں کہ بھارت پر لگایا گیا ٹیرف پاکستان کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے، اب پاکستانی اشیا وہاں بھارت کے مقابلے میں سستی جائیں گی۔
تنویر ملک کا کہنا ہے کہ اب سوال یہ کہ کیا واقعی پاکستانی مصنوعات میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ انکی اتنی ڈیمانڈ ہو؟ تنویر ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھی اس وقت بہت سے مسائل ہیں، جیسے کہ انرجی کرائسز پاکستان میں زیادہ ہیں، کاسٹ آف پروڈکشن زیادہ ہے، پراڈکٹ ڈویلپمنٹ میں سرمایہ کاری بھی نہیں کی گئی تاکہ اشیا میں بہتری آسکے، نہ برانڈنگ ہوئی نہ ہی جدت لائی گئی۔
پاکستان کے پاس ٹیکسٹائل پراڈکٹس ہیں جو امریکا جا رہے ہیں، اس میں پاکستان کے لیے یہ مارجن ہوسکتا ہے کہ امریکا کے ساتھ ہماری ایکسپورٹ بڑھ جائے بھارت کے مقابلے میں، لیکن ٹیکسٹائل میں پاکستان کا مقابلہ بنگلہ دیش اور ویت نام سے ہیں، ان ممالک پر بھی پاکستان کے مقابلے کیں زیادہ ٹیرف لگا ہے لیکن بنگلہ دیش میں کاسٹ آف پروڈکشن پاکستان سے کم ہے، پاکستان میں بجلی اور گیس کی قیمتیں بنگلہ دیش سے زیادہ ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارت میں مذہبی میلے کے دوران ٹرمپ کا پتلا اٹھاکر اضافی ٹیرف کیخلاف انوکھا احتجاج ریکارڈ
تنویر ملک کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی پروڈکشن نہیں بڑھ رہیں، مینوفیکچرنگ سیکٹر جمود کا شکار ہے، مسائل بہت ہیں، اگر تو امریکی مارکیٹ میں رہنا ہے تو پروڈکشن بڑھانا پڑے گی، اگر پروڈکشن بڑھتی ہے تو فائدہ یہ ہے کہ ایک تو امریکا بڑی آبادی والی مارکیٹ ہے دوسرا یہ کہ وہ زیادہ قیمتوں پر اشیا خریدتے ہیں کیوں کہ امریکی عوام کی قوت خرید زیادہ ہے۔
پاکستان کو ایڈوانٹیج حاصل تو ہوا ہے لیکن اس سے پاکستان کس حد تک فائدہ اٹھا سکے گا یہ بڑا سوال ہے، کووڈ کے عرصے میں جب بنگلہ دیش اور بھارت بند ہوگیے تھے اس عرصے میں پاکستان میں اچھی پروڈکشن ہوئی تھی، آخری بات یہ ہے کہ اگر پاکستان کو صنعتی پیداوار بڑھانی پڑے گی تو پاکستان کی امپورٹ میں بھی اضافہ ہوگا کیوں کہ ہم خام مال باہر سے منگواتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی ٹیرف بھارت پر 50 فیصد پاکستان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا امریکی ٹیرف بھارت پر 50 فیصد پاکستان تنویر ملک کا کہنا ہے کہ بھارت پر 50 فیصد پاکستان میں پاکستان کے پاکستان کو بنگلہ دیش فیصد ٹیرف کے مقابلے یہ ہے کہ گیا ہے
پڑھیں:
چین کی معدنی بالادستی: امریکا کو تشویش، توازن کے لیے پاکستان سے مدد طلب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی وفد نے اسلام آباد میں پاکستانی حکام سے ملاقات کی تاکہ امریکی صنعت کے لیے محفوظ اور شفاف معدنی سپلائی چینز قائم کرنے کے امکانات پر بات کی جاسکے، کیونکہ واشنگٹن کی عالمی نایاب معدنیات پر چین کی بالادستی کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی وفد کی سربراہی رابرٹ لوئس اسٹریئر دوم کر رہے تھے، جو امریکی حکومت کے تعاون سے قائم کردہ کریٹیکل منرلز فورم (سی ایم ایف) کے صدر ہیں۔
سرکاری بیان کے مطابق ملاقات میں معدنیات اور کان کنی کے شعبے میں تعاون کے امکانات، سپلائی چین کے تحفظ کو مضبوط بنانے اور پاکستان کے کریٹیکل منرلز کے شعبے میں ذمہ دار اور پائیدار سرمایہ کاری کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
یہ ملاقات اس وقت ہوئی ہے جب امریکا اور بھارت نے دفاعی تعاون کے لیے 10 سالہ فریم ورک معاہدے کا اعلان کیا ہے۔
کریٹیکل منرلز فورم (سی ایم ایف) کی توجہ اسٹریٹجک خطرے پر مرکوز ہے، جو بیجنگ کے ان وسائل پر کنٹرول سے پیدا ہوا ہے، اسٹریئر نے سی ایم ایف کی ویب سائٹ پر اپنے واحد مضمون میں لکھا کہ ’چین کا کریٹیکل منرل سپلائی چینز پر غلبہ امریکی قومی سلامتی، اقتصادی مسابقت اور طویل المدتی اسٹریٹجک مقاصد کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے‘۔
اسٹریئر نے پاکستان کو بتایا کہ سی ایم ایف دنیا بھر، خصوصاً ابھرتی ہوئی منڈیوں میں امریکی صنعت کے لیے قابلِ اعتماد سپلائی چینز کے قیام پر کام کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فورم کی توجہ نایاب اور مخصوص دھاتوں پر مرکوز ہے جن میں تانبا اور اینٹیمونی شامل ہیں اور اس کا مقصد مالی اور سلامتی کے نقطہ نظر سے سرمایہ کاری کے خطرات کو کم کرنا ہے۔
انہوں نے ٹیکنالوجی کی منتقلی، دانشورانہ املاک کے تحفظ اور امریکی نجی سرمایہ کاروں کے اعتماد کے فروغ کے لیے تعاون کے عزم کا اظہار بھی کیا۔
بیان کے مطابق اسٹریئر نے اعتراف کیا کہ امریکا، پاکستان کے سائنس، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں موجود ٹیلنٹ کو ایک مسابقتی برتری سمجھتا ہے اور پاکستان کو مستقبل میں کریٹیکل منرلز کی ترقی کا مرکز بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
وفد کے ہمراہ موجودہ اسلام آباد میں امریکی ناظم الامور نیٹلی بیکر نے کہا کہ امریکی سفارت خانہ پاکستان میں امریکی تجارتی مصروفیات کی حمایت کرتا ہے اور معدنیات کے شعبے میں مضبوط سرمایہ کار اعتماد اور مؤثر ریگولیٹری فریم ورک کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
جواب میں وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان اہم قانونی و ضابطہ جاتی اصلاحات پر کام کر رہا ہے اور منظم تجاویز کا خیرمقدم کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ تعاون کے لیے ایک تفصیلی فریم ورک کے ساتھ واپس آئیں، پاکستان اسے ذمہ دار سرمایہ کاری اور باہمی مفاد کو یقینی بنانے کے تناظر میں جانچے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک پیچیدہ جغرافیائی سیاسی منظرنامے میں توازن قائم کر رہا ہے اور اپنی مضبوط شراکت داریوں کو اجاگر کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان آج عالمی تعلقات کے ایک تعمیری موڑ پر کھڑا ہے، پاکستان۔امریکا تعلقات میں نئی جان، چین کے ساتھ آزمودہ تعلقات اور سعودی عرب کے ساتھ تعاون اس کی مثال ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ پاکستان کا معدنی شعبہ ایک انقلابی موقع فراہم کرتا ہے، جو معیشت کو ’کھپت پر مبنی چکروں سے برآمدات پر مبنی ترقی‘ کی طرف منتقل کر سکتا ہے۔
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ایک مضبوط معدنیات پالیسی فریم ورک پاکستان کو بار بار آنے والے مالیاتی خسارے کے دباؤ سے نکالنے اور مستقبل میں کثیرالجہتی اداروں پر انحصار کم کرنے میں مدد دے گا۔
وفاقی وزیر نے وفد کو بتایا کہ انہوں نے حالیہ دورہ واشنگٹن کے دوران کئی عالمی مالیاتی اداروں، بشمول دیولپمنٹ فنانس کارپوریشن (ڈی ایف سی) اور انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) سے ملاقات کی، جنہوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
امریکی فریق نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ چین عالمی کریٹیکل منرلز پر اپنا کنٹرول تیزی سے بڑھا رہا ہے۔
رابرٹ لوئس اسٹریئر نے کہا کہ چین کی بالادستی، خاص طور پر معدنیات کی پراسیسنگ میں سرکاری سبسڈی، عمودی انضمام اور کمزور ماحولیاتی ضوابط کی بدولت ہے، جو توانائی اور تعمیل پر مبنی شعبہ ہے، اس کے برعکس امریکا نے اس میدان میں کم سرمایہ کاری کی ہے۔
امریکی تھنک ٹینک ’اٹلانٹک کونسل‘ کے مطابق، کریٹیکل منرلز جدید معیشت اور ریاستی طاقت کی بنیاد ہیں، توانائی، دفاع اور تجارتی ٹیکنالوجیز کے لیے ناگزیر ہیں، یہ مواد لڑاکا طیاروں کے لیے مقناطیسی پرزوں سے لے کر برقی گاڑیوں کی بیٹریوں تک استعمال ہوتے ہیں۔
کونسل نے خبردار کیا کہ ان سپلائی چینز میں ’نہایت نازکیت‘ پیدا ہو چکی ہے، جو چند ممالک تک محدود ہیں، زیادہ تر چین میں ریفائن ہوتی ہیں اور شدید موسمیاتی خطرات سے دوچار ہیں۔
مزید کہا گیا کہ چین نے اپنی بالادستی کو ’ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی آمادگی‘ دکھائی ہے، جیسا کہ اس نے امریکا کے تجارتی کنٹرول کے جواب میں گریفائٹ اور اینٹیمونی جیسے مواد پر برآمدی پابندیاں سخت کر دی ہیں۔
تاہم رابرٹ لوئس اسٹریئر نے تسلیم کیا کہ امریکی سرمایہ کاری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پیداواری لاگت اور معدنی قیمتوں میں غیر معمولی و غیر یقینی صورتحال ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ غیر یقینی صورتحال ’منفعت کے خواہشمند سرمایہ کاروں کے لیے ایک سرد اثر ‘ رکھتی ہے، کیونکہ سرمایہ کار ایسے منصوبوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہیں جن میں خطرے کے مقابلے میں متوقع منافع زیادہ ہو۔