اسلام آباد:

26 ترمیم کے بعد پی ٹی آئی اعلیٰ عدالتوں سے خاطر خواہ ریلیف حاصل نہیں کر سکی۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپورنے عمران خان کیساتھ جیل میں ملاقات کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، قبل ازیں ایسی ہی ان کی درخواست رجسٹرار سپریم کورٹ نے اعتراض کیساتھ واپس کر دی تھی جس کیخلاف اپیل تاحال زیر التوا ہے۔

25 جون کو وزیراعلیٰ گنڈا پور جسٹس منصور علی شاہ کی عدالت میں گئے، صوبائی بجٹ پر مشاورت کیلئے عمران خان سے ملاقات کی درخواست پر غور کی استدعا کی، جسٹس منصور نے چیف جسٹس یا رجسٹرار سپریم کورٹ سے رجوع کرنے پر زور دیا۔

عمران خان کے سوشل میڈیا پر بیان کے بعد وزیر اعلیٰ گنڈا پور پھر سے سپریم کورٹ میں ہیں تاکہ عمران خان کو اہم صوبائی امور پربریفنگ اور ان سے مشاورت کر سکیں۔ادھر آئینی بینچ نے 27 جون سے کسی ایک درخواست کی سماعت نہیں کی۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی درجنوں آئینی درخواستیں  سپریم کورٹ میں  زیرالتوا ہیں  تاہم پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم 26 ویں  ترمیم کیخلاف درخواستوں کے فیصلے تک  اپنی درخواستوں کی پیروی سے گریزاں ہے۔ ادھر آئینی بینج کے  تین فیصلوں نے پی ٹی آئی کے موقف کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

ایک فیصلے میں آئینی بینج نے نظرثانی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے  سپریم کورٹ کا فیصلہ منسوخ کر دیا جس میں قرار دیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کی حق دار ہے، دوسرے فیصلے میں فوجی عدالتوں میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کیخلاف مقدمات کی سماعت کی توثیق کی، تیسرے میں مختلف ہائیکورٹس کے ان ججوں کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں تعیناتی کی توثیق کی، جن سے پی ٹی آئی ریلیف کی کوشش میں تھی۔

ان ججوں کی ٹرانسفر کو خود عمران خان نے بھی چیلنج کیا تھا۔ القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان اور ان اہلیہ کی سزاؤں کی معطلی کا اسلام آباد ہائیکورٹ نے ابھی فیصلہ کرنا ہے، جس کی جلد سماعت کیلئے مارچ سے ان کے وکلاء  متعدد درخواستیں دے چکے ہیں۔ اسلام آباد کی ہدایت کے باوجود پی ٹی آئی کو شکایت رہی کہ جیل حکام عمران خان سے پارٹی رہنماؤں اور اہل خانہ کو ملنے نہیں دے رہے۔

تین ماہ بعد منگل کو سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی اور اہلخانہ نے عمران سے ملاقات کی۔  پارٹی کے وکلاء سے ملاقات میں عمران خان نے عدلیہ سے ریلیف نہ ملنے پر مایوسی کا اظہار کیا۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ 26 ویں ترمیم کے بعد عدلیہ مکمل تابع ہو چکی ہے، انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں کا بھی نوٹس نہیں لیا جا رہا۔ سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرح لاہور ہائیکورٹ سے بھی 9 مئی کے کیسز میں ریلیف حاصل کرنے میں پی ٹی آئی کو مشکل کا سامنا ہے، لاہور ہائیکورٹ واضح کر چکی ہے کہ 9 مئی کے کیسز میں سزاؤں کیخلاف اپیلوں کی سماعت سے قبل مجرموں کوقانون کے حوالے کرنا ہوگا۔

ادھر الیکشن کمیشن نے سزا یافتہ پی ٹی آئی ارکان کی نشتیں خالی قرار دے کر ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری کر دیا، پشاور ہائی کورٹ نے بعض حلقوں میں ضنمی انتخابات کرنے سے الیکشن کمیشن کو روک دیا ہے۔ 

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن لیڈروں کی نامزدگی کا عمل رکا ہوا ہے۔عدلیہ تمام تر شکایات کے باوجود چیف جسٹس آفریدی کے سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 9 مئی کے8 مقدمات میں عمران خان کو ضمانت دیدی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسلام ا باد سپریم کورٹ پی ٹی ا ئی

پڑھیں:

روسی خواتین ماں بننے سے گریزاں، اربوں روبل کے ترغیباتی پروگرام ناکام

روسی حکومت کی جانب سے اربوں روبل کے مالیاتی پروگراموں، خاندانی اقدار کے فروغ کی بھرپور مہم اور والدین بننے کے لیے مختلف ترغیبات کے باوجود، روس میں پیدا ہونے والے بچوں کی شرح مسلسل کم ہو رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ صورتحال اب ایک سنگین آبادیاتی بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیے روسی حکومت ملک میں آبادی بڑھانے کے لیے متحرک، نئی تجاویز سامنے آگئیں

اس ماہ کے آغاز میں صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا تھا کہ ’خاندانی نظام کی معاونت‘ اور شرحِ پیدائش میں اضافہ روس کے تمام قومی منصوبوں میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’باپ بننا اور ماں بننا خوشی ہے، اور خوشی کو مؤخر نہیں کرنا چاہیے۔‘

شرحِ پیدائش تاریخی نچلی سطح پر

روس کی شرحِ پیدائش جدید تاریخ کی سب سے نچلی سطح پر پہنچ چکی ہے۔
ملکی شماریاتی ادارے روسٹاٹ کے مطابق، کل زرخیزی کی شرح  اس وقت 1.41 ہے، یعنی ایک عورت اپنی پوری زندگی میں اوسطاً صرف 1.41 بچے پیدا کر رہی ہے۔
یہ شرح اس سطح سے کہیں نیچے ہے جس پر آبادی کا توازن برقرار رہتا ہے۔

2024 میں روس میں قدرتی آبادی میں کمی یعنی پیدا ہونے والوں اور مرنے والوں کا فرق 5 لاکھ 96 ہزار سے زائد رہی۔
اس سال صرف 12 لاکھ 20 ہزار بچے پیدا ہوئے، جو گزشتہ سال سے 3.4 فیصد کم تھے۔
ماہرین کے مطابق اس سے قبل اتنی کم پیدائش صرف 1999 میں ریکارڈ کی گئی تھی۔

آبادی میں کمی کے اثرات

پیدائش کی کم شرح سے آبادی میں کمی، عمر رسیدہ آبادی، مزدوروں کی قلت اور پینشن و صحت کے اخراجات میں اضافہ جیسے مسائل جنم لیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے فوجی شوہروں کی عدم موجودگی میں بچوں کی پیدائش کا روسی منصوبہ کیا ہے؟

اگرچہ یہ اثرات ابھی مکمل طور پر ظاہر نہیں ہوئے، لیکن ماہرین کے مطابق روس ایک طویل مدتی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر بھی زرخیزی کی شرح میں کمی دیکھی جا رہی ہے
یورپی یونین میں یہ شرح 1.38 اور امریکا میں 1.59 ہے۔

روس کے مختلف علاقوں میں صورتحال مختلف

روس کے تمام خطوں میں شرحِ پیدائش یکساں نہیں۔
بعض علاقوں میں مذہبی و ثقافتی روایات کے باعث شرح زیادہ ہے۔
مثلاً:

چیچنیا: 2.7

توا: 2.3

یامل نینیتس: 1.9

الٹائی: 1.8

انگوشیتیا: 1.8

یہ شرح ملک کے باقی حصوں کے مقابلے میں دوگنی ہے۔

اس کے برعکس لینن گراڈ ریجن (0.89)، موردوویا (0.99) اور سیواستوپول (1.0) میں زرخیزی کی شرح سب سے کم ہے۔

ماہرین کے مطابق بعض علاقوں، خاص طور پر وسطی اور شمال مغربی روس، میں عورتیں بچے پیدا کرنے کے حوالے سے زیادہ محتاط ہیں، جس کی وجوہات میں معاشی دباؤ، رہائشی مسائل، اور جنگی غیر یقینی صورتحال شامل ہیں۔

حکومت کے مالیاتی اقدامات

روس نے گزشتہ چند برسوں میں شرحِ پیدائش بڑھانے کے لیے کئی مالیاتی پروگرام متعارف کروائے ہیں۔
اہم اقدامات میں شامل ہیں:

میٹرنٹی کیپیٹل پروگرام: پہلے یا دوسرے بچے کی پیدائش پر 6.9 سے 9.1 لاکھ روبل (8,700 سے 11,500 ڈالر) تک کی رقم۔

گھروں اور گاڑیوں کے لیے رعایتی قرضے۔

زیادہ بچوں والے خاندانوں کو ٹیکس میں چھوٹ۔

حاملہ خواتین کو ماہانہ وظائف۔

روایتی اقدار کی تشہیر

مالی ترغیبات کے ساتھ ساتھ روسی حکومت نے ’روایتی خاندانی اقدار‘ کے فروغ کے لیے ایک شدید مہم بھی شروع کی ہے۔
حکومت مغرب کی ’بے راہ روی‘ کے مقابلے میں ’اخلاقی خاندانی نظام‘ کو روسی شناخت کے طور پر پیش کر رہی ہے۔

اسی مہم کے تحت چائلڈ فری نظریات کو فروغ دینے پر بھاری جرمانوں کا قانون منظور کیا گیا ہے۔
27 روسی علاقوں میں ایسے قوانین نافذ ہو چکے ہیں جن کے تحت کسی عورت کو اسقاط حمل پر آمادہ کرنا یا اس سے متعلق معلومات فراہم کرنا بھی قابلِ سزا جرم ہے۔

ماہرین کا مؤقف: ’روایتی مہم مؤثر نہیں‘

ماہر سلاوت ابیلکالیف کے مطابق، روایتی اقدار کی مہم کا کوئی نمایاں اثر نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا، ’یہ اقدامات بظاہر تو سرگرمی دکھانے کے لیے ہیں، لیکن عملی طور پر مؤثر نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ شرحِ اسقاط حمل پہلے ہی کم ہو رہی تھی اور حکومت کے اقدامات سے اس میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔

دوسرے ماہر الیگسی راکشا نے کہا کہ حکومت کی پالیسیوں کا مقصد زیادہ تر ’پیدائش کے وقت کو تبدیل کرنا‘ ہے یعنی خاندان پہلے سے طے شدہ منصوبے سے پہلے بچے پیدا کر لیتے ہیں، لیکن بچوں کی کل تعداد میں اضافہ نہیں ہوتا۔

جنگ اور پابندیوں کے اثرات

ماہرین کے مطابق یوکرین جنگ، مغربی پابندیوں، اور معاشی غیر یقینی صورتحال نے روسی عوام میں طویل مدتی منصوبہ بندی کو متاثر کیا ہے۔

راکشا کے مطابق، جنگ نے براہِ راست شرحِ پیدائش پر زیادہ اثر نہیں ڈالا بلکہ اموات میں اضافہ کیا ہے۔
دوسری جانب فوجی خدمات کے بدلے ملنے والی بڑی رقوم نے بعض خاندانوں کو بچوں کی پیدائش کی طرف راغب بھی کیا ہے۔

لیکن ابیلکالیف کا کہنا ہے کہ جنگ، پابندیاں اور بجٹ کی کمی بالآخر صحت کے نظام کو کمزور اور سماجی دباؤ کو بڑھا دیں گی، جس سے درمیانی مدت میں اموات کی شرح میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خاندانی اقدار مہم روس شرح پیدائش میں کمی ولادی میر پیوٹن

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ میں اہم تقرریاں، سہیل لغاری رجسٹرار تعینات 
  • کامران ٹیسوری نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا
  • گورنر ہاؤس میں اسپیکر کو رسائی کیخلاف کامران ٹیسوری کی درخواست، سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل
  • گورنرسندھ اور اسپیکر کے درمیان اختیارات کا تنازع، سپریم کورٹ 3 نومبر کو سماعت کرے گی
  • وفاق مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے 27ویں آئینی ترمیم کرے: سپیکر پنجاب اسمبلی
  • پنجاب اسمبلی :وفاق سے مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلیے27ویں آئینی ترمیم کا مطالبہ
  • روسی خواتین ماں بننے سے گریزاں، اربوں روبل کے ترغیباتی پروگرام ناکام
  • وفاق مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے 27ویں آئینی ترمیم کرے: پنجاب حکومت
  • پنجاب اسمبلی کی مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دینے کیلئے قرارداد وفاق کو ارسال
  • حاضر سروس جج کیخلاف کارروائی سپریم جوڈیشل کونسل ہی کر سکتی ہے: اسلام آباد ہائیکورٹ