پنجاب اسمبلی میں سینٹ کا ضمنی انتخاب، اپوزیشن ووٹنگ کا بائیکاٹ کیوں کرے گی؟
اشاعت کی تاریخ: 8th, September 2025 GMT
سابق وزیراعظم اور بانی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں میں سرکاری املاک، فوجی تنصیبات، اور شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا گیا جس کے نتیجے میں اعجاز چوہدری سمیت کئی رہنماؤں کو سزا ہوئی۔اور انہیں نااہل قرار دیا گیا۔ان میں سے ایک اعجاز چوہدری بھی ہیں جنہیں 9 مئی 2023 کے پرتشدد واقعات کے کیسز میں 10 سال قید کی سزا ملی ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے جولائی 2025 میں ان کی رکنیت ختم کر دی تھی۔ جس کے بعد خالی ہونے والی سینیٹ نشست پر 9 ستمبر 2025 کو ضمنی انتخاب ہونے جارہا ہے۔
اپوزیشن نے اعجاز چوہدری کی اہلیہ سلمیٰ اعجاز کو میدان میں اتارا ہے، جنہیں 100 ووٹوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس میں سنی اتحاد کونسل کے 73، پی ٹی آئی کے 24، اور تحریک لبیک، مسلم لیگ ضیاء، اور مجلس وحدت المسلمین کے ایک ایک ووٹ شامل ہیں۔ تاہم اپوزیشن نے ووٹنگ کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے شاہ محمود قریشی 9 مئی کے مزید 2 مقدمات سے بری، یاسمین راشد اور اعجاز چوہدری کو 10،10 برس قید کی سزا
ڈپٹی اپوزیشن لیڈر معین قریشی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے اس انتخاب میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے اراکین کو ہدایت کی کہ کوئی بھی ووٹ ڈالنے پنجاب اسمبلی نہ جائے، ورنہ وہ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا۔
معین قریشی کے مطابق، کاغذات نامزدگی واپس لینے کا وقت ختم ہو گیا تھا، اس لیے سلمیٰ اعجاز کے کاغذات واپس نہ لیے جا سکے، تاہم اپوزیشن ووٹنگ کے عمل سے مکمل طور پر الگ رہے گی۔
حکومتی اتحادحکومتی اتحاد، جس میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، استحکام پاکستان پارٹی، اور مسلم لیگ (ق) شامل ہیں، نے رانا ثناء اللہ کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔ رانا ثناء اللہ کو 263 ووٹوں کی حمایت حاصل ہے، جب کہ جیتنے کے لیے 180 ووٹ درکارہیں۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) کے 229، پیپلز پارٹی کے 16، استحکام پاکستان پارٹی کے 7، اور مسلم لیگ (ق) کے 11 ووٹ ہیں۔
یہ بھی پڑھیے 9 مئی کیسز میں سزا یافتہ سینیٹر اعجاز چوہدری، احمد خان بھچر اور احمد چٹھہ نااہل قرار
ووٹنگ 9 ستمبر کو صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت میں ہوگی۔ پنجاب اسمبلی میں کل 371 ووٹ ہیں، لیکن اس وقت 363 اراکین موجود ہیں، کیونکہ 6 پی ٹی آئی اراکین نااہل ہو چکے ہیں اور 2 نے ابھی حلف نہیں اٹھایا۔ یاد رہے کہ جیت کے لیے 180 ووٹ درکار ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اعجاز چوہدیری پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ ن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اعجاز چوہدیری پاکستان تحریک انصاف مسلم لیگ ن اعجاز چوہدری پنجاب اسمبلی مسلم لیگ
پڑھیں:
بلدیاتی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے27 ویں ترمیم کی بازگشت
مقامی حکومتوں کے معاملے پر کھل کر بات ہونی چاہئے، تحفظ کیلئے آئین میں ترمیم کرکے نیا باب شامل کیا جائے،اسپیکرپنجاب اسمبلی
مقررہ وقت پر انتخابات کرانا لازمی قرار دیا جائے،بے اختیار پارلیمنٹ سے بہتر ہے پارلیمنٹ ہو ہی نہیں،ملک احمد خان کی پریس کانفرنس
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ مقامی حکومتوں کے معاملے پر کھل کر بات ہونی چاہئے، مقامی حکومتوں کے تحفظ کے لیے آئین میں ترمیم کرکے نیا باب شامل کیا جائے، مقررہ وقت پر انتخابات کرانا لازمی قرار دیا جائے۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ منگل کے روز صوبائی اسمبلی پنجاب نے ایک متفقہ قرارداد پاس کی، ایسی قرارداد جس میں سیاسی اورآئینی پیچیدگیاں ہوں اس کا متفقہ طور پر منظور ہونا اہمیت کی بات ہے، اپوزیشن کے 35اراکین نے متن میں حصہ لیا۔ملک احمد خان نے کہا کہ میں پوری ذمہ داری سے بات کررہا ہوں، مقامی حکومتوں کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے، مقامی حکومتوں کے ایک درجن کے قریب قوانین سے گزرے ہیں، کوئی بھی سیاسی حکومت ہو لیکن مقامی حکومتوں کا تحفظ، انتخابات کا وقت طے ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل کہتا ہے صوبے مقامی حکومتیں قائم کریں گے، کچھ مسائل اٹھارہویں ترمیم نے بھی حل کیے، جو مسائل درپیش آتے رہے، ان کا ذکر کررہا ہوں، قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ایسی ترمیم ہوجو لوکل گورنمنٹ کو تحفظ دے۔ملک احمد خان نے کہا کہ صوبائی اسمبلی پنجاب آئین میں تبدیلی نہیں کرسکتی، یہ پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے، لازمی قراردیا جائے کہ مقررہ مدت میں انتخابات ہوں، ہم کہتے ہیں کہ آئینی اورانتظامی اختیارات گراس روٹ تک پہنچنے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ سیاسی سہولت کے تحت سیاسی جماعت ایسا نہ کرسکے کہ مقامی حکومت کی مدت کم کردی جائے، تقریباً ایک صدی سے معاملات طے نہیں پائے جاسکے،پنجاب کی 77سالہ تاریخ اٹھائوں تو 50سال مقامی حکومتوں کا وجود نہیں جوبہت بڑی الارمنگ بات ہے۔انہوں نے کہا کہ مقامی حکومتوں پر بات ضروری ہے، بات چیت کا آغاز کرنے پر معزز اراکین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، اراکین کی جانب سے آنے والی آئینی وقانونی تجاویز پر تحسین پیش کرتا ہوں، توقع کرتا ہوں وزیر قانون، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، جماعت اسلامی اوردیگر جماعتیں اس کو اہمیت دیں کی۔اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ تمام جماعتوں کے نمائندوں نے یہ معاملہ پنجاب اسمبلی سے وفاق کو بھیجا ہے، توقع ہے اس کو اہمیت دی جائے گی، لوکل گورنمنٹ کے ساتھ گزشتہ صورتحال سے آگاہ کیا،ا سپیڈ بریکر آتے رہے، یہ ٹوٹتی رہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ مقامی حکومتوں، لوکل گورنمنٹ کا گراس روٹ لیول پر نہ ہونا ریاست کے شہری سے معاہدے کو بالکل کمزور کرتا ہے، ریاست کا میرے ساتھ ایک سوشل کنٹریکٹ ہے، ریاست نے بنیادی طور پر مجھے کچھ چیزیں لازمی دینی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر مجھ سے میری مقامی حکومت ٹیکس وصول کرے تو مجھے پتہ ہے کہ یہ میرے علاقے میں خرچ ہوگا، کسی بڑی سوسائٹی میں رہنے والے کے سامنے مسائل نہیں، متوسط طبقے کے ساتھ کئی مسائل ہیں، مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ ملنا چاہئے، پارلیمان اس پر ضرور غور کرے۔سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے کہا کہ ہم پارلیمان سے کہہ رہے ہیں اگر 27ویں ترمیم کرنی ہے تو شہریوں کے ساتھ ریاست کا معاہدہ مضبوط کریں، اگر آل پارٹیز کانفرنس بھی کرنا پڑتی ہے تو مہربانی کرکے فوری کرائیں، یہ شہری اورریاست کے معاہدے کو مضبوط رکھنے کیلئے لازم ہے۔اسپیکر پنجاب اسمبلی نے کہا کہ متفقہ قرارداد میں کہا گیا کہ 140 اے نامکمل ہے، صوبے مقامی حکومتیں قائم کریں گے، نئی حکومت نے آتے ہی لوکل گورنمنٹ کو ختم کردیا پھر کیا قانون بنانے میں 3 سال کا عرصہ لگا، لازمی قرار دیا جائے کہ مقررہ مدت میں بلدیاتی انتخابات ہوں۔انہوںنے کہا کہ پنجاب اسمبلی آئین میں تبدیلی نہیں کر سکتی، بلدیاتی اداروں کو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی اختیارات دیے جائیں، لوکل گورنمنٹ کے لیے اگر 27ویں ترمیم کرنا پڑتی ہے تو فوراً کریں۔انہوں نے کہا کہ میں نے فیض آباد اور مری روڈ کو جلتے ہوئے دیکھا، مجھے تشویش ہوتی تھی کہ پاکستان میں لاقانونیت کیوں ہے، میں نے دیکھا کہ کچھ بلوائیوں نے سڑک پر گڑھے کھودے، پولیس پر سیدھے فائر کیے، امن و امان کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہے۔ملک احمد خان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو بڑا سیاست دان سمجھتا ہوں، مولانا نے جو کہا وہ ان کی رائے ہے ، ملک میں 27ویں آئینی ترمیم کی بہت بازگشت ہے ، بے اختیار پارلیمنٹ سے بہتر ہے کہ پارلیمنٹ ہو ہی نہیں، مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ ملنا چاہیے۔