سینیٹر عرفان صدیقی کے نام پر اراکین قومی اسمبلی کو مالی فراڈ کا نشانہ بنائے جانے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
اسلام آباد:
قائمہ کمیٹی اجلاس میں مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی کے نام پر 9 اراکین قومی اسمبلی کو مالی فراڈ کا نشانہ بنائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
دوران اجلاس ڈی جی این سی سی آئی اے نے بتایا کہ این سی سی آئی اے نے 611 مقدمات مالی فراڈ اور ہراسمنٹ کے 320 مقدمات درج کیے ہیں۔ غیر قانونی طور پر سمز حاصل کر کے دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جا رہی ہیں۔
سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ سینیٹ میں ایک تقریر کے بعد میرے خلاف گالم گلوچ کا سلسلہ شروع ہوگیا، مجھے ہراساں کیا گیا، دھمکیاں دی گئیں، مجھ سے کسی نے نہیں پوچھا۔
سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ میرے نام سے اراکین سے پیسے مانگے جاتے ہیں، 9 اراکین قومی اسمبلی ان کے جھانسے میں آ گئے، 4 مرتبہ شکایات درج کروا چکا ہوں، ابھی تک کوئی مداوا نہیں کیا گیا۔
ڈی جی این سی سی آئی اے نے واضح کیا کہ ایسے مقامات کی تحقیقات میں وقت لگتا ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے سینیٹر عرفان صدیقی سے ہونے والے مالی فراڈ پر این سی سی آئی اے سے رپورٹ طلب کر لی۔
حکام این سی سی آئی اے نے بتایا کہ سوشل میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے قواعد کی منظوری کابینہ نے دے دی ہے، اتھارٹی میں عملے کی تعیناتی کے لیے اشتہار جلد جاری کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سینیٹر عرفان صدیقی سی سی آئی اے نے مالی فراڈ
پڑھیں:
بھارتی نژاد بینکم برہم بھٹ پر 500 ملین ڈالر کے فراڈ کا الزام، جعلی ایمیلز سے اداروں کو کیسے لوٹا؟
دنیا کی معروف سرمایہ کاری فرم بلیک راک اور متعدد بین الاقوامی قرض دہندگان کو اس وقت شدید پریشانی کا سامنا ہوا انہیں جب یہ انکشاف ہوا کہ انہوں نے 500 ملین ڈالر سے زائد رقم ایک مبینہ فراڈ میں کھو دی ہے، جس کے مرکزی کردار بھارتی نژاد ٹیلی کام ایگزیکٹو بینکم برہم بھٹ بتائے جا رہے ہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق، بلیک راک کی ذیلی سرمایہ کاری کمپنی ایچ پی ایس انوسٹمنٹ پارٹنرز اور دیگر مالیاتی اداروں نے امریکی عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ برہم بھٹ نے اپنی ٹیلی کام کمپنیوں براڈ بینڈ ٹیلی کام اور بریج وائس کے ذریعے جعلی انوائسز اور فرضی اکاؤنٹس ریسیویبلز بنا کر قرض حاصل کیے۔
یہ بھی پڑھیے: ’ڈیجیٹل گرفتاری‘ کے نام پر شہری سے 51 لاکھ روپے کا فراڈ
رپورٹ کے مطابق، ان کمپنیوں نے مالی طور پر مستحکم ہونے کا ایک جعلی تاثر پیش کیا، جبکہ دراصل بڑی رقم بھارت اور ماریشس کے آف شور اکاؤنٹس میں منتقل کی جا رہی تھی۔
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ برہم بھٹ کے نیٹ ورک پر 500 ملین ڈالر سے زیادہ واجب الادا ہیں۔ فرانسیسی بینک بی این پی پیریبا نے بھی ان قرضوں کی فنانسنگ میں حصہ لیا تھا، جو ایچ پی ایس نے برہم بھٹ کی کمپنیوں کو دیے۔ تاہم بینک نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔
یہ اسکینڈل ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بلیک راک نے رواں سال ہی ایچ پی ایس کو خرید کر پرائیویٹ کریڈٹ مارکیٹ میں اپنی موجودگی کو بڑھایا ہے۔
جولائی 2025 میں ایچ پی ایس کے ایک ملازم نے گاہکوں کے ای میل پتوں میں مشکوک مماثلت دیکھی، جو جعلی ڈومینز سے بنائے گئے تھے۔ مزید تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ بعض ‘کلائنٹس’ دراصل وجود ہی نہیں رکھتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے: ہاؤسنگ اسکیموں کے فراڈ سے کیسے بچاجائے؟ نیب کا اہم اقدام سامنے آگیا
جب ایچ پی ایس حکام نے بینکم برہم بھٹ سے وضاحت طلب کی، تو اس نے پہلے معاملہ ٹالنے کی کوشش کی اور پھر فون اٹھانا ہی بند کر دیا۔ جب کمپنی کے دفاتر گارڈن سٹی (نیویارک) میں چیک کیے گئے تو وہ بند اور ویران پائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق، تحقیقات میں معلوم ہوا کہ گزشتہ دو سالوں میں فراہم کیے گئے تمام کلائنٹ ای میلز جعلی تھے، جبکہ بعض معاہدے 2018 تک پرانے جعلی دستاویزات پر مبنی تھے۔
عدالتی شکایت میں کہا گیا ہے کہ بینکم برہم بھٹ نے کاغذی اثاثوں پر مبنی ایک خیالی بیلنس شیٹ تیار کی، تاکہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں سے کروڑوں ڈالر کے قرض حاصل کیے جا سکیں۔ مزید الزام ہے کہ اس نے رقوم کو خفیہ طور پر بھارت اور ماریشس کے اکاؤنٹس میں منتقل کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
کرپشن کمپنی مالیاتی بدعنوانی