ٹھیک ہے آپ 12 لاکھ والا وکیل کرلیں، جج کےمدعی سے مکالمے پر سپریم کورٹ میں قہقہے
اشاعت کی تاریخ: 11th, September 2025 GMT
سپریم کورٹ میں زیر سماعت دہرے قتل کے مجرم عبدالرزاق کی عمر قید کے خلاف اپیل کی سماعت میں عدالت نے مدعی مقدمہ کو وکیل کرنے کی مہلت دے دی، مدعی سے مکالمے کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ کی بات پر سپریم کورٹ میں قہقہے گونج اٹھے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے عمر قید کے ملزم عبدالرزاق کی اپیل پر سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ اور مدعی مقدمہ کے مابین دلچسپ مکالمہ ہوا، مدعی مقدمہ نیاز احمد نے موقف اختیار کیا کہ ہم نے وکیل کرنا ہے جس کے لیے وقت چاہیے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ملزم نے عمر قید کی سزا مکمل کر کے 11 جنوری 2026 کو رہا ہو جانا ہے، اپ کو وکیل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ 3،4 ماہ کی بات ہے۔
مدعی نیاز احمد نے موقف اختیار کیا کہ ایک وکیل صاحب سے بات کی ہے وہ 12 لاکھ روپے مانگ رہے ہیں، جسٹس ہاشم کاکڑ نے پوچھا وکیل کو 12 لاکھ روپے کیوں دینا چاہتے ہیں؟ جس پر مدعی نے کہا ملزم نے دو افراد کو قتل کیا ہے۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ 12 لاکھ روپے اپنے بچوں کی پڑھائی پر لگائیں، وہ کام جو وکیل نے 12 لاکھ روپے لے کر کرنا ہے وہ کام سرکاری وکیل مفت میں کر دے گا۔
مدعی نیاز احمد نے کہا کہ نہیں ہمیں وکیل کرنے کے لیے وقت دے دیں، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ چلیں مرضی آپ کی ہے، وکیل کہیں یہ نہ کہہ دے کہ میں ان کے خلاف بات کر رہا ہوں، ٹھیک ہے آپ 12 لاکھ روپے والا وکیل کر لیں، جس پر عدالت میں قہقہ گونج اٹھے۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 26 ستمبر تک ملتوی کر دی۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: جسٹس ہاشم کاکڑ نے سپریم کورٹ لاکھ روپے وکیل کر
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے ساس سسر کے قتل کے ملزم اکرم کی سزا کیخلاف اپیل خارج کردی
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 ستمبر2025ء)سپریم کورٹ نے ساس اور سسر کے قتل کے مجرم اکرم کی اپیل خارج کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سنائی گئی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھنے کا حکم دے دیا۔منگل کوجسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نیکیس کی سماعت کی،سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ میاں بیوی میں جھگڑا نہیں تھا تو ساس سسرکو قتل کیوں کیا دن دیہاڑے دو افرادکو قتل کیا گیا، اور اب کہا جارہا ہے کہ غصہ آ گیا تھا۔(جاری ہے)
جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ بیوی کو منانے گیا تھا تو ساتھ پستول لے کر کیوں گیا ۔ملزم کیوکیل پرنس ریحان نے کہا کہ میرا موکل بیوی کومنانے کے لیے میکے گیا تھا،جس پرجسٹس ہاشم کاکڑنے ریمارکس دیے کہ وکیل صاحب آپ تو لگتا ہے بغیر ریاست کے پرنس ہیں،جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ بعض اوقات مدعی بھی ایف آئی آر کے اندراج میں جھوٹ بولتے ہیں،قتل شوہر نے کیا لیکن ایف آئی آر میں مجرم کے والد کا نام بھی ڈال دیا گیا۔عدالت نے قرار دیا کہ جرم ثابت ہے اور سزا میں کمی کی کوئی وجہ نہیں،یوں سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا گیا اور مجرم کی اپیل مسترد کر دی گئی۔