برطانیہ میں مسلم مخالف بیان پر نرس کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑگئے؛ لائسنس بھی منسوخ
اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT
برطانیہ میں ایک نرس کو امتیازی سلوک اور مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام پر نرسنگ اینڈ مڈوائفری کونسل نے سخت سزا سنادی گئی۔
برطانوی میڈیا کے مطابق نرس سائمن واٹس نے ساؤتھ پورٹ میں ہونے والے واقعے کے بعد آن لائن تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ برطانیہ میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔
نرسنگ اینڈ مڈوائفری کونسل کے ٹریبونل نے اس سوشل میڈیا ریمارک کو انتہائی غیر اخلاقی اور ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے نرس کا نام پیشہ ورانہ رجسٹر سے بھی خارج کر دیا گیا۔
خیال رہے کہ ساؤتھ پورٹ میں ہی 3 کمسن بچیوں کے قتل کے بعد یہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ حملہ آور کا تعلق مسلم تارکین وطن سے ہے۔
جس کے بعد برطانیہ بھر میں مسلم کش فسادات برپا ہوگئے تھے جس کے دوران مسلمان خواتین پر بھی حملے کیے گئے تھے۔
تاہم بعد میں یہ ثابت ہوا کہ کم سن بچیوں کا قتل کسی مسلم تارکین وطن نہیں کیا تھا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
یہ وہ وقت تھا جب لندن کے میئر صادق خان نے بھی کہا تھا کہ میری بچیاں یہیں پلی بڑھی ہیں لیکن اب مجھے ان کی سیکیورٹی کی فکر ہونے لگی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
نیدرلینڈ پارلیمانی انتخابات، اسلام مخالف جماعت کو شکست، روب جیٹن ممکنہ وزیر اعظم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایمسٹرڈم:۔ نیدرلینڈز (ہالینڈ) کے انتخابات میں قومی سیاسی دھارے کے حامی سیاستدان 38 سالہ روب ییٹن کی قیادت میں سینٹرل پارٹی D66 نے ایک انتہائی سخت اور اعصاب شکن مقابلے کے بعد انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان گیرٹ وائلڈرز کی قوم پرست جماعت پارٹی فار فریڈم PVVکو شکست دے دی۔
جرمن ٹی وی کے مطابق مقامی خبر رساں ادارے ANP کے مطابق D66نے محض پندرہ ہزار ووٹوں کی معمولی برتری کے باوجود واضح پوزیشن حاصل کی اور وائلڈرز کی PVV اب یہ فرق ختم نہیں کرسکتی۔ اس فتح کے بعد روب جیٹن ممکنہ طور پر نیدرلینڈز کے سب سے کم عمر وزیر اعظم بنیں گے۔
یہ نتائج D66 کے لیے ایک شاندار عروج کا نشان ہیں، جو یورپی اور سماجی لحاظ سے ایک لبرل پارٹی ہے اور اس نے انتخابی مہم میں ماحولیاتی پالیسی، سستی رہائش، اور اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے پر زور دیا۔ تقریباً 18 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد یہ پارٹی ملکی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری مگر حکومت بنانے کے لیے اسے کم از کم تین دیگر شراکت داروں کی ضرورت ہوگی۔
ییٹن اب ممکنہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومتی مذاکرات کی قیادت کریں گے، جو نیدرلینڈز کے متنوع سیاسی منظرنامے میں کئی ماہ تک جاری رہ سکتے ہیں۔ انتخابات میں D66نے ایک متحرک انتخابی اور تشہیری مہم کی بدولت اپنی نشستوں کی تعداد تقریباً تین گنا بڑھا لی۔
مرکزی سیاسی دھارے کی تمام بڑی جماعتیں اور بائیں بازو کے سیاسی دھڑے وِلڈرز کے امیگریشن مخالف سخت موقف اور قرآن پر پابندی کے سابقہ مطالبات کی وجہ سے ان کے ساتھ مخلوط حکومت سازی سے انکار کر چکے ہیں۔ وِلڈرز نے کہا کہ اگر ان کی پارٹی کو سب سے زیادہ ووٹ ملتے تو وہ پھر بھی حکومت بنانے کا پہلا حق طلب کرتے۔ انتخابی نتائج کی حتمی تصدیق پیر کو متوقع ہے، جب بیرون ملک مقیم ڈچ شہریوں کے ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی مکمل ہو گی۔