Jasarat News:
2025-09-18@22:06:17 GMT

اداریے کے بغیر اخبار؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کیا دنیا میں انسان کا تصور روح کے بغیر کیا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی انسان دل کے بغیر انسان کہلا سکتا ہے؟ کیا کوئی انسان دماغ کے بغیر انسان کہلانے کا مستحق ہے؟ کیا دنیا میں کوئی انسان ایسا ہوگا جس کا کوئی موقف ہی نہ ہو جس کا کوئی تناظر ہی نہ ہو، جس کا کوئی ردعمل ہی نہ ہو؟ جیسا کہ ظاہر ہے ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ یہ مثال صرف انسان کے لیے نہیں اخبار کے لیے بھی صحیح ہے۔ اخبار کا اداریہ اخبار کی روح ہے۔ اخبار کا دل ہے۔ اخبار کا دماغ ہے۔ اخبار کا موقف ہے۔ اخبار کا تناظر ہے۔ اخبار کا ردعمل ہے۔ چنانچہ اخبار کا تصور اداریے کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا۔ مگر بدقسمتی سے ملک کے سب سے بڑے اخبار روزنامہ جنگ نے اداریہ شائع کرنا بند کردیا ہے۔ اخبار کے مالکان نے اس سلسلے میں قارئین کے سامنے اداریہ ترک کرنے کی وجوہات بھی نہیں رکھیں۔

ایک زمانہ تھا کہ اخبارات اپنے اداریوں سے پہچانے جاتے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر کامریڈ کا اداریہ لکھتے تھے اور جب انہیں انگریزوں سے کوئی بات منوانی ہوتی تھی تو وہ کہا کرتے تھے کہ میری بات مان لو ورنہ میں انگریزوں کے خلاف اداریہ لکھ دوں گا۔ ایک دنیا کامریڈ کے اداریوں کی دیوانی تھی، عہد ِ حاضر میں روزنامہ جسارت نے اداریے کی حرمت کو نباہ کر دکھایا۔ 1970ء کی دہائی میں جسارت پاکستان کا واحد اخبار تھا جس نے اپنے اداریوں میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی کھل کر مخالفت کی۔ جسارت نے اپنے اداریوں میں اس بات پر اصرار کیا کہ شیخ مجیب کو انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ چنانچہ اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیا جانا چاہیے۔ جسارت نے اپنے اداریوں میں واضح کیا کہ مشرقی پاکستان کے بحران کے حل کو سیاسی ہونا چاہیے، عسکری نہیں۔ یہ اداریے جسارت کے مدیر عبدالکریم عابد صاحب لکھا کرتے تھے۔ جسارت کے سوا پاکستان کے تمام اخبارات اور ان کے اداریے جنرل یحییٰ کے فوجی آپریشن کی حمایت کررہے تھے۔ یہاں تک کہ اردو ڈائجسٹ کے مدیر الطاف حسین قریشی فرما رہے تھے کہ مشرقی پاکستان میں فوج کے لیے محبت کا زمزمہ بہہ رہا ہے۔ جسارت نے بھٹو گردی کے زمانے میں

بھی اداریے کی حرمت کو پوری طرح بحال رکھا۔ جسارت نے ڈٹ کر اپنے اداریوں میں بھٹو کی فسطائیت کی مزاحمت کی۔ چنانچہ بھٹو نے جسارت کے اداریوں میں موجود شعور سے گھبرا کر جسارت ہی کو بند کردیا۔ کراچی میں الطاف گردی اور ایم کیو ایم گردی کی تاریخ 30 برسوں پر محیط ہے۔ ان برسوں میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خوف کا یہ عالم تھا کہ کراچی کے اخبارات کیا لاہور کے اخبارات میں بھی الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف ایک لفظ بھی شائع نہیں ہوتا تھا۔ اس عرصے کے آٹھ دس سال ایسے تھے جب ہمیں جسارت کے اداریے لکھنے کا شرف حاصل ہوا۔ چنانچہ ہم نے اپنے اداریوں میں کھل کر الطاف حسین اور ایم کیو ایم پر تنقید کی۔ ایم کیو ایم ہر دوسرے تیسرے دن دھمکی دیتی تھی کہ وہ جسارت کے دفتر کو بم سے اُڑا دے گی۔ مگر جسارت حق و صداقت کا پرچم بلند کیے کھڑا رہا۔ یہ عرصہ اتنا خوف ناک تھا کہ ملک کے ممتاز صحافی ارشاد احمد حقانی لاہور میں رہتے تھے۔ ہم نے ان سے کہا آپ سب کے خلاف لکھتے ہیں مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف کچھ نہیں لکھتے۔ کہنے لگے بھائی میں نے سنا ہے الطاف حسین اپنے خلاف لکھنے والوں کو مروا دیتا ہے۔ کراچی سے ایک ہزار کلو میٹر دور بیٹھے ہوئے صحافی کے خوف کا یہ عالم تھا مگر جسارت پوری بے خوفی کے ساتھ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی فسطائیت کے آگے ڈٹا رہا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔

روزنامہ جنگ ملک کا سب سے بڑا اخبار ہے۔ بڑے اداروں کی ذمے داریاں بھی بڑی ہوتی ہیں مگر روزنامہ جنگ نے کبھی ذمے داری کے حوالے سے بڑا بن کر نہیں دکھایا۔ روزنامہ جنگ کے صفحات گواہ ہیں کہ اس نے کبھی ملک میں فوجی آمریت کی مزاحمت نہیں کی۔ مزاحمت تو دور کی بات ہے کبھی کسی فوجی آمر کے خلاف ایک لفظ بھی شائع نہیں کیا۔ راویانِ روایت کا کہنا ہے کہ جنرل ایوب خان نے مارشل لا اُٹھایا تو جنگ کے مالک میر خلیل الرحمن نے ایک پریس کانفرنس میں جنرل ایوب سے کہا کہ آپ نے مارشل لا اٹھا کر اچھا نہیں کیا۔ جنرل ایوب نے کہا آپ جنگ کے اداریے میں مارشل لا کی حمایت کردیجیے میں پھر سے مارشل لا لگادوں گا۔ جنرل ضیا الحق تقریباً گیارہ سال ملک پر مسلط رہے، جنگ سمیت پاکستان کے تمام اخبارات نے کبھی جنرل ضیا الحق سے اختلاف رائے کا اظہار نہیں کیا۔ بالخصوص اپنے اداریوں میں۔ بلاشبہ جنگ نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف ایک خاص مرحلے پر ایک کردار ادا کیا اور اس کردار کی تعریف کی جانی چاہیے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز کے زمانے میں اسٹیبلشمنٹ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کا ایک دھڑا جنرل پرویز کے ساتھ تھا جبکہ دوسرا دھڑا وکلا تحریک اور جنرل کیانی کے ساتھ کھڑا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ میں یہ دھڑے بندی نہ ہوتی تو شاید جنگ اور جیو کبھی اینٹی جنرل پرویز مشرف کردار ادا نہ کرتے۔

روزنامہ جنگ میں اداریے کے خاتمے کی بعض لوگ یہ توجیہ کررہے ہیں کہ فی زمانہ اخبار کا اداریہ سب سے کم پڑھی جانے والی چیز ہے اور یہ بات سو فی صد درست ہے۔ مگر اس میں ایک صنف کی حیثیت سے اداریے کا کوئی قصور نہیں۔ ہم طویل تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں عرض کرتے ہیں کہ آج بھی روزنامہ جسارت اور انگریزی اخبار Daily dawn کے اداریے پڑھے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسارت اور ڈان کھل کر اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں، امریکا اور یورپ پر تنقید کرتے ہیں۔ چنانچہ ان اخبارات کے اداریوں میں جان ہوتی ہے۔ اس کے برعکس دوسرے اخبارات اپنے اداریوں میں حکمرانوں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں اور وہ ایک ایسی زبان و بیان اختیار کرتے ہیں جس میں کوئی گہرائی، معنویت اور دلکشی نہیں ہوتی۔ چنانچہ جسارت اور ڈان کے سوا کسی اخبار کا اداریہ قاری کو اپنی جانب متوجہ نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ پھر قارئین اداریہ کیوں پڑھیں؟ جنگ اپنے اداریہ نویسوں کو تمام بالادست طبقات پر تنقید کی آزادی دے۔ اگر صرف 6 ماہ میں جنگ کے اداریے اخبار کی جان نہ بن جائیں تو ہمارا نام بدل دیجیے گا۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ صحافت کبھی ’’مشن‘‘ تھی مگر اب ’’کاروبار‘‘ بن گئی ہے۔ یہ بات درست ہے مگر اصل مسئلہ صحافت کا نہیں صحافت کرنے والوں کا ہے۔ انسان، انسان ہو تو وہ کاروبار کو بھی مشن بنالیتا ہے۔ ورنہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تو مشن کو کاروبار بنالیتے ہیں۔ کیا ہم اسلام کی تاریخ سے آگاہ نہیں۔ برصغیر میں اسلام فاتحین کے ذریعے نہیں تاجروں کے ذریعے پہنچا۔ عرب دنیا کے جو تاجر برصغیر آئے سب سے پہلے انہوں نے ہندوئوں کو مسلمان بنایا۔ حالانکہ یہ ان کی ’’ذمے داری‘‘ نہیں تھی۔ وہ تاجر تھے اور انہیں خود کو تجارت تک محدود رکھنا چاہیے تھا مگر یہ تاجر ’’صاحب ایمان‘‘ تھے، چنانچہ انہوں نے تجارت کو بھی اسلام پھیلانے کے مشن میں ڈھال لیا۔ اس کے برعکس آج کے مسلمان ہیں جو اسلام کو بھی ’’دکانداری‘‘ میں تبدیل کررہے ہیں۔ چنانچہ اصل چیز صحافیوں اور اخبارات کے مالکان کا ’’ایقان‘‘ یا Conviction ہے۔ روزنامہ جسارت بھی زیادہ اشاعت رکھنے والا اخبار بننا چاہتا ہے مگر اصولوں پر سودے بازی کرکے نہیں اصولوں پر قائم رہ کر۔ ڈیلی ڈان کے مالکان مذہبی نہیں ہیں بلکہ سیکولر ہیں مگر ان کے بھی کچھ ’’اصول‘‘ ہیں۔ ان اصولوں پر وہ کوئی سودے بازی نہیں کرتے۔ چنانچہ جنرل عاصم منیر اور شریف بدمعاشوں کے عہد میں ڈان کو بھی جسارت کی طرح سرکاری اشتہارات نہیں مل رہے، لیکن ڈان اسٹیبلشمنٹ اور شریف بدمعاشوں پر تنقید سے باز نہیں آرہا۔ یہی وہ صحافت ہے جو قوم کے ضمیر اور شعور کی محافظ ہے۔ ایسی صحافت کے دائرے میں اخبار کی خبریں بھی پڑھی جاتی ہیں اور اداریہ بھی۔ چنانچہ نہ جسارت کبھی اپنا اداریہ بند کرے گا نہ ڈان۔ ایک زمانہ تھا کہ بادشاہوں تک کو یہ خیال ہوتا تھا کہ انہیں تاریخ میں کس طرح یاد رکھا جائے گا مگر اب اخبارات تک کے مالکان کو یہ فکر دامن گیر نہیں ہے کہ انہیں تاریخ کن الفاظ میں یاد کرے گی۔ چنانچہ وہ تاریخ کے فیصلے سے قطع نظر کرتے ہوئے اپنے اخبارات کو اداریوں سے پاک کررہے ہیں۔

 

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے اپنے اداریوں میں جنرل پرویز کے اداریے کے مالکان کا اداریہ اخبار کا جسارت کے مارشل لا کے خلاف کا کوئی نہیں کی کے بغیر نہیں ا جنگ کے فوجی ا کو بھی تھا کہ ہیں کہ

پڑھیں:

ایرانی صدر فیلڈ مارشل کو پہچانے بغیر آگے بڑھ گئے، نشاندہی پر دلچسپ ردعمل اور معذرت

ایرانی وزیرخارجہ نے اپنے صدر کے قریب ہوتے ہوئے نشاندہی کی تووہ دو تین بار آرمی چیف عاصم منیر سے بغلگیر ہوئے
ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیراعظم کی وفد کے ہمراہ ایرانی صدر اور ان کے وفد سے ملاقات ہوئی

ایرانی صدر دوحہ ملاقات میں فیلڈ مارشل کو پہچانے بنا آگے بڑھ گئے، جس کی نشاندہی پر ان کی جانب سے دلچسپ ردعمل سامنے آیا۔ ملاقات کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب ایران کے صدر پاکستانی وفد کا استقبال کر رہے تھے اور وزیراعظم شہباز شریف سے مصافحہ کرتے ہوئے فیلڈ مارشل کو پہچانے بغیر آگے بڑھ گئے، جس پر ایرانی وزیرخارجہ نے اپنے صدر کے قریب ہوتے ہوئے نشاندہی کی تو انہوں نے دلچسپ ردعمل دیتے ہوئے اس پر معذرت کی اور پھر دو تین بار آرمی چیف سے بغلگیر ہوئے۔ دوحہ میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شہبازشریف کی اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان کے ساتھ ملاقات ہوئی جہاں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، چیف آف آرمی سٹاف، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ بھی موجود تھے۔

متعلقہ مضامین

  • کیمو تھراپی کے بغیر علاج، مریضوں کے لیے بڑی خوشخبری
  • سونے کی عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں قیمتیں مستحکم، چاندی مہنگی ہوگئی
  • صائم ایوب ایک بار پھر ناکام، مسلسل تیسری بار صفر پر آؤٹ
  • علی امین گنڈاپور کیخلاف شراب برآمدگی کیس کی سماعت بغیر کارروائی کے ملتوی
  • یوکرینی جنگ: ’آزادی کے بغیر جبری امن‘ سے روس کو مزید حوصلہ ملے گا، جرمن چانسلر میرس
  • علی امین گنڈاپور کیخلاف شراب برآمدگی کیس کی سماعت بغیر کارروائی ملتوی
  • علی امین گنڈاپور کیخلاف شراب برآمدگی کیس کی سماعت بغیر کاروائی ملتوی
  • ایرانی صدر فیلڈ مارشل کو پہچانے بغیر آگے بڑھ گئے، نشاندہی پر دلچسپ ردعمل اور معذرت
  • نفع نقصان کی پرواہ کیے بغیر سینیٹ کمیٹیوں سے استعفے دے رہے ہیں، بیرسٹر علی ظفر