Express News:
2025-09-20@00:27:01 GMT

غزہ کی پکار

اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT

قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد عرب دنیا میں ایک ہلچل مچی اور صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو کے مستقبل کے خطرناک عزائم کے آگے بند باندھنے کے لیے عرب ملکوں کا ہنگامی سربراہی اجلاس منعقد کیا گیا۔

دوحہ میں ہونے والے اس اجلاس میں شریک عرب ممالک کے سربراہوں نے حسب سابق گرم جوش تقاریر کیں اور اسرائیل کے خلاف خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ مظلوم فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے لے کر نیتن یاہو کے جنگی جرائم تک کا احاطہ کرتے ہوئے عرب سربراہوں نے اسرائیل کے تمام جارحانہ اقدامات اور اس کے مستقبل کے خوف ناک عزائم کی پرزور الفاظ میں بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسرائیل اور اس کے سرپرست اعلیٰ امریکا پر واضح کیا کہ آیندہ اگر اسرائیل نے کسی عرب ملک پر جارحیت کا ارتکاب کیا تو اس کا سخت جواب دیا جائے گا۔

اس ضمن میں عرب سربراہی اجلاس کا جو اعلامیہ جاری کیا گیا ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ قطر پر حملہ کر کے اسرائیل نے تمام ریڈ لائن کراس کر لی ہیں اسے اب کٹہرے میں لانا ہوگا۔ اعلامیے میں تمام ریاستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے تمام موثر قانونی اقدامات اٹھائیں جن میں سرفہرست سفارتی اور اقتصادی تعلقات پر نظرثانی کرنا اور اس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنا شامل ہے۔

رکن ممالک میں اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت ختم کرانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کی جائے گی۔ اسرائیلی جنگی جرائم روکنے کے لیے عرب اسلامی ٹاسک فورس کے قیام کی بھی تجویز اعلامیے کا حصہ ہے۔

عرب سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان قطر کے ساتھ کھڑا ہے، ہمیں خاموش رہنے کے بجائے متحد ہونا پڑے گا اور اگر آج ہم نے ایسا نہ کیا تو اسرائیلی بربریت نہیں رکے گی۔ وزیر اعظم نے اسرائیل کے خلاف عرب ملکوں کی ٹاسک فورس کے قیام کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت ختم کرنے کی تجویز کو بھی صائب قرار دیا۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمدالثانی نے کہا کہ گریٹر اسرائیل کا ایجنڈا عالمی امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔ اسرائیلی جارحیت کا مقصد غزہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا ہے۔

فلسطینی صدر محمد عباس کا کہنا تھا کہ صورتحال کی نزاکت اور سنگینی کا تقاضا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی روکنا اور وہاں فوری امداد کی فراہمی ناگزیر ہو چکی ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم کے جنرل سیکریٹری جنرل حسین طہٰ نے قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمے داریوں کو پورا کرے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اسرائیل کو اس کے تمام جرائم کا جواب دہ ٹھہرایا جائے۔

سوال یہ ہے کہ کیا عرب سربراہی اجلاس میں جو تجاویز اعلامیے کی شکل میں سامنے آئی ہیں، ان پر عمل درآمد کے لیے آنے والے دنوں میں کیا اقدامات اٹھائے جائیں گے اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر آپ ماضی قریب و بعید پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ فلسطین اور لبنان ایک سے زائد مرتبہ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنتے رہے ہیں اور درجنوں مرتبہ او آئی سی کا اجلاس منعقد کیا گیا۔

اسرائیل کے خلاف عرب سربراہوں نے پرجوش تقاریر کیں اور اسرائیل کے خلاف اقدامات کے اعلانات بھی کیے گئے، لیکن بات نشستند، گفتند، برخاستند سے آگے کچھ نہ بڑھ سکی اور اسرائیل نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے امریکی آشیرباد سے فلسطین کے خلاف جارحیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ابھی ایک طرف عربوں کے ہنگامی سربراہی اجلاس کی گونج ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ اسرائیل نے غزہ شہر کے مرکز میں قدم رکھ دیے۔

فضائی و زمینی حملہ کرکے صہیونی فوج نے غزہ سٹی کے باسیوں کو فوری طور پر شہر خالی کرنے کی دھمکی دے کر انھیں بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق تقریباً 40 فی صد فلسطینی باشندوں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا گیا ہے اور شہر خالی کروانا شروع کر دیا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر حماس نے قیدیوں کو ڈھال بنایا تو وہ مصیبت میں پڑ جائے گی۔

اقوام متحدہ سمیت یورپی یونین، برطانیہ اور جرمنی نے اسرائیل کے اس جنگی اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ 57 اسلامی ممالک کے لیے اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے ممکنہ خطرناک عزائم اور بڑھتے ہوئے توسیع پسندانہ گریٹر اسرائیل قدم کے آگے ہمالیہ جیسی رکاوٹ کھڑی کرنا ہوگی۔ غزہ کے معصوم، بھوک و پیاس سے سسکتے بچوں کی پکار کو سننا ہوگا۔

 سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدہ اسلامی دنیا کے لیے ایک بڑی خبر ہے۔ کیا سعودی عرب اور پاکستان مل کر فلسطین کو اسرائیلی مظالم سے نجات دلانے میں کوئی سرگرم کردار ادا کر سکیں گے؟ اس کا جواب آنے والا وقت دے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیل کے خلاف سربراہی اجلاس اسرائیل نے کرتے ہوئے جارحیت کا اور اس کے کے لیے گیا ہے

پڑھیں:

قطر پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی، وولکر ترک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قانون کی ہولناک پامالی اور علاقائی امن و استحکام پر حملہ قرار دیا ہے۔

جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے ہنگامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ یہ حملہ دنیا بھر میں ثالثی اور مذاکراتی عمل کی ساکھ پر کاری ضرب کے مترادف ہے۔

بین الاقوامی حمایت یافتہ ثالثی میں شامل فریقین کو نشانہ بنانے سے قطر کے بطور ثالث اور فروغ امن کے لیے کام کرنے والے کردار کی حیثیت کمزور پڑ سکتی ہے۔ Tweet URL

انہوں نے کہا کہ ایسے شہریوں کو حملوں کا ہدف نہیں بنانا چاہیے جو براہِ راست جنگی کارروائیوں میں شامل نہ ہوں۔

(جاری ہے)

جب ممالک جنگ کے اصولوں کو نظرانداز کرتے ہیں تو وہ دنیا بھر کے تمام شہریوں کے تحفظ کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ حماس کا وفد قطر میں جنگ بندی مذاکرات کے لیے موجود تھا، جو کہ امن کی جانب نہایت اہم قدم ہے۔

ہائی کمشنر نے کہا کہ 'ہمارے دل غزہ کے شہریوں، اسرائیلی یرغمالیوں، ان کے پیاروں اور ان افراد کے لیے رنجیدہ ہیں جو اسرائیلی جیلوں میں ناجائز قید کاٹ رہے ہیں۔

ماورائے قانون جنگ فلسطینی اور اسرائیلی دونوں شہریوں کے لیے بے پایاں مظالم اور تکالیف سے بھرپور مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔ یہ حملہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ رکن ممالک کو امن کے لیے اپنی کوششیں تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔'عالمی برادری سے اپیل

وولکر ترک نے کہا کہ دوحہ پر اسرائیلی حملہ اس وقت پیش آیا ہے جب ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن سے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کی امید ماند پڑ رہی ہے جبکہ یہی حل پائیدار امن کا واحد راستہ ہے۔

شمالی غزہ سے 10 لاکھ فلسطینیوں کو بیدخل کیا جا رہا ہے جبکہ مشرقی یروشلم میں آبادی کاری منصوبہ جاری ہے جسے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے حکومتی وعدے کی تکمیل قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 کے ہولناک دہشت گرد حملوں اور ان کے بعد پھیلنے والے تشدد کو تقریباً دو سال گزر چکے ہیں۔

اب اس قتل و غارت کو رک جانا چاہیے۔

رکن ممالک پر یہ لازم ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے مؤثر عملی اقدامات کریں اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل بند کریں۔ ان میں خاص طور پر ایسے ہتھیار شامل ہیں جو جنگی قوانین کی خلاف ورزی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام ریاستوں کو جنگ بندی، تمام یرغمالیوں اور ناجائز حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی اور غزہ میں انسانی امداد کی بڑے پیمانے پر ترسیل کے لیے بھرپور دباؤ ڈالنا چاہیے۔

ریاستی دہشت گردی

کونسل سے خطاب کرتے ہوئے قطر کی وزیر مملکت برائے بین الاقوامی تعاون مریم بنت علی المسند نے کہا کہ اسرائیلی حملہ نہ صرف اُن کے ملک کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی سنگین پامالی بھی تھا اور یہ عمل ریاستی دہشت گردی کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر کے بعد قطری ثالثی نے قابلِ قدر نتائج دیے جن میں 135 یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی شامل ہے جس سے اسرائیلی خاندانوں میں اعتماد اور امید کی بحالی ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کوششوں کو نشانہ بنانا نہ صرف مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے بلکہ اس سے مزید جانیں بچانے اور امن کے حصول کے امکانات کو بھی نقصان ہوا ہے۔ علاوہ ازیں یہ حملہ کوئی انفرادی واقعہ نہیں بلکہ قطر کے کردار کو مسخ کرنے اور اس کی سفارتی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے کی وسیع مہم کا حصہ ہے۔

یہ ایک ایسی خطرناک اشتعال انگیزی ہے جو خطے و دنیا کو بین الاقوامی قانون کی منظم خلاف ورزی کی طرف دھکیل سکتی ہے اور جو کچھ دوحہ میں ہوا وہ کسی بھی دوسرے ملک میں دہرایا جا سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امن اور انسانیت دشمن امریکا!
  • دوحہ میں ہنگامی اسلامی سربراہی اجلاس میں 50 سے زائد ممالک نے شرکت کی: دفتر خارجہ
  • غزہ میں قحط اور عالمی چیخ و پکار کے باوجود امریکہ نے جنگ بندی کی قرار داد چھٹی مرتبہ ویٹو کر دی
  • قطر کا اسرائیلی حملے پر آئی سی سی میں قانونی چارہ جوئی کا عندیہ
  • نیویارک، اقوام متحدہ کے سامنے آرتھوڈوکس یہودیوں کا نیتن یاہو کے خلاف مظاہرہ
  • قطر پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار؛ اعلامیہ جی سی سی اجلاس
  • جی سی سی کا مشترکہ دفاعی اجلاس، اسرائیلی حملے کی مذمت، اجتماعی دفاعی اقدامات کا اعلان
  • رکن ممالک اسرائیل کیساتھ تجارت معطل اور صیہونی وزرا پر پابندی عائد کریں، یورپی کمیشن
  • قطر پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی، وولکر ترک