پاکستان اور چین کا اشتراک : زرعی، تعلیمی اور سبز ترقیاتی منصوبوں میں نئی پیش رفت
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
پاکستان اور چین کے اشتراک کے باعث زرعی، تعلیمی اور سبز ترقیاتی منصوبوں میں نئی پیش رفت ہوئی ہے جب کہ ایس آئی ایف سی کے تعاون سے چین کے ساتھ زرعی، تعلیمی، اور سبز ترقیاتی منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان زراعت، تعلیم اور سبز ترقی میں تعاون کے لیے تین اہم مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط کیے گئے، ان اہم مفاہمتی یاداشتوں کے ذریعے پاکستان میں اقتصادی ترقی اور نئی ملازمتوں کے مواقع متوقع ہیں۔
ترقیاتی منصوبوں کے تحت چین کی جدیدٹیکنالوجی سے پاکستان کے زرعی شعبے میں جدت ممکن بنائی جائے گی، تعلیمی تعاون کے ذریعے پاکستان کے نوجوانوں کو جدید تعلیمی وسائل اور اسکالرشپ کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔
چینی سبز ترقیاتی منصوبے پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے میں مددگار اور مستحکم اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کرنے میں معاون ثابت ہونگے، ایس آئی ایف سی کی معاونت سےچینی سرمایہ کاری سے زراعت، تعلیم اور سبز ترقی کے شعبے ترقی کی راہ پر گامزن ہونگے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ترقیاتی منصوبوں اور سبز ترقی سبز ترقیاتی
پڑھیں:
گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-14
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت 4700 روپے فی من اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے۔ بورڈ نے پیاز کی فصل کی تباہی کی بڑی وجہ زرعی تحقیق کی کمی کو بھی قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں سندھ آبادگار بورڈ کا اجلاس صدر محمود نواز شاہ کی زیر صدارت حیدرآباد میں ہوا، جس میں ڈاکٹر محمد بشیر نظامانی، عمران بزدار، محمد اسلم مری، طھ میمن، یار محمد لغاری، ارباب احسن، عبدالجلیل نظامانی، مراد علی شاہ بکیرئی اور دیگر نے شرکت کی۔اجلاس میں کاشتکاروں نے زراعت سے متعلق اہم مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مطلوبہ زرعی تحقیق نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے نئی اور بہتر ٹیکنالوجیز بھی متعارف نہیں ہو رہی اور مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زرعی تحقیق کی کمی کے باعث پیاز کی فصل کی تباہی بھی اس کی واضح مثال ہے۔۔اجلاس کو بتایا گیا کہ اکتوبر اور نومبر میں پیدا ہونے والی پیاز نہ صرف سال بھر کی مقامی طلب پوری کر رہی تھی بلکہ برآمد بھی کی جا رہی تھی۔ لیکن گزشتہ تین سالوں سے اکتوبر اور نومبر میں پیاز کی فصل تباھ ہوتی رہی اور اس مسئلے کے حل کے لیے نہ تو تحقیق کی گئی اور نہ ہی اسے بچانے کے لیے کوئی اور موثر اقدامات کیے گئے، جس کی وجہ سے کسانوں کی اکثریت نے پیاز اگانا بند کر دی۔ نتیجتا پاکستان کو اب پیاز برآمد کرنے کی بجائے مزید درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔سندھ آبادگار بورڈ نے کہا ہے کہ زراعت میں مسلسل تحقیق اور ترقی ضروری ہے، کیونکہ کم پیداوار، فصل سے پہلے اور بعد میں ہونے والے نقصانات اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ مضبوط زرعی تحقیق کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ زراعت کو پائیدار رکھنا بہت ضروری ہے۔سندھ آبادگار بورڈ کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے پیداواری لاگت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اگر زرعی مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کو پورا نہیں کرتیں تو ان کی کاشت معاشی طور پر ناقابل عمل ہو جائے گی۔ اس لیے زرعی معیشت کو بچانے کے لیے زرعی اجناس کی کم از کم امدادی قیمت کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔ اجلاس میں سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا کہ گندم کی فی من امدادی قیمت 4700 روپے اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے یہ امدادی قیمتیں کاشت کی لاگت اور کسانوں کے معقول منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے طئے کی گئی ہیں۔ جہاں زرعی مصنوعات کی مفت برآمد کی اجازت نہیں ہے وہاں حکومت سپورٹ پرائس مقرر کرے۔سندھ آبادگار بورڈ نے گندم کی کاشت کے لیے چھوٹے کاشتکاروں کو ڈی اے پی اور یوریا کھاد فراہم کرنے کے حوالے سے سندھ حکومت کے اقدام کو بھی سراہا اور کہا کہ اس پروگرام کی کامیابی کا دارومدار کسانوں کے لیے دیگر متعلقہ امور میں سہولت فراہم کرنے پر ہے۔