افغان طالبان کی قید سے رہائی پانے والا برطانوی جوڑا وطن واپس پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
افغانستان میں قریباً 8 ماہ تک طالبان کی حراست میں رہنے کے بعد رہا ہونے والا ضعیف العمر برطانوی جوڑا برطانیہ واپس پہنچ گیا۔
یہ بھی پڑھیں: قطر کی ثالثی کام کرگئی، افغان طالبان نے برطانوی جوڑے کو رہا کردیا
اے ایف پی کے مطابق 80 سالہ پیٹر رینالڈز اور ان کی 76 سالہ اہلیہ باربی رینالڈز قطر سے لندن ہیتھرو ایئرپورٹ پہنچے، جہاں ان کی آمد کا مشاہدہ ایک صحافی نے کیا۔ قطر نے ان کی رہائی کے لیے مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا۔
ایئرپورٹ پر آمد کے وقت باربی رینالڈز خوش دکھائی دیں اور مسکراتی رہیں، تاہم انہوں نے صحافیوں سے کوئی بات نہیں کی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز افغان طالبان نے برطانوی جوڑے کو قید سے رہا کیا تھا۔
یہ جوڑا 1970 میں کابل میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوا اور قریباً 20 سال تک افغانستان میں مقیم رہا، جہاں انہوں نے خواتین اور بچوں کے لیے تعلیمی منصوبے شروع کیے۔ بعد ازاں انہوں نے افغان شہریت بھی حاصل کرلی۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں گرفتار برطانوی جوڑا کون ہے؟
2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے باوجود برطانوی سفارتخانے کی ہدایت کے برخلاف اس جوڑے نے افغانستان نہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افغان طالبان برطانیہ معمر برطانوی جوڑا وطن پہنچ گیا وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغان طالبان برطانیہ معمر برطانوی جوڑا وطن پہنچ گیا وی نیوز افغان طالبان برطانوی جوڑا
پڑھیں:
طالبان سے کہا تھا 1 کپ چائے کیلئے آئے ہیں، وہ کپ بہت مہنگا پڑ گیا: اسحاق ڈار
اسحاق ڈار—فائل فوٹونائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ جب 2021ء میں طالبان کی حکومت آئی تو پاکستان کی طرف سے جا کر کہا گیا کہ ہم یہاں ایک چائے کے کپ کےلیے آئے ہیں، وہ کپ آف ٹی ہمیں بہت مہنگا پڑا، ایسی غلطیاں نہیں کرنی چاہئیں۔
سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات 2012ء سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں، متقی صاحب کی کل 6 مرتبہ کال آئی، اُن سے کہا کہ آپ سے صرف ایک چیز چاہیے کہ آپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو، اُن سے کہا کہ آپ نے مشکل میں ڈال دیا ہے، حکومت نے کلیئر فیصلہ کیا ہوا ہے، ہم آخری دم تک لڑیں گے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 2018ء تک ان آپریشنز کی وجہ سے ملک میں دہشت گرد حملے بہت کم ہو گئے تھے، افغان طالبان کی حکومت آنے کے بعد 4 سال دونوں ممالک کے درمیان کوئی باضابطہ چیزیں نہیں ہوئیں، میں نے افغانستان جا کر ان کے ساتھ بات چیت کی اور معاہدے کیے۔
انہوں نے کہا کہ ان سے ایک ہی بات مانگی کہ افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو، وہاں کوشش کی گئی کہ ٹرین شروع کی جائے جو افغانستان سے دیگر ممالک میں جائے، بدقسمتی ہے کہ افغانستان میں جو موجودہ حکومت آئی ہے، روزانہ پرتشدد واقعات بڑھے ہیں۔
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بلاول بھٹو کا بیان دیکھا تھا بیان دینا ان کا حق ہے، بلاول بھٹو نے جن باتوں کی نشاندہی کی وہ ہوا میں نہیں کی، ان پر بات ہوئی ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ افغانستان سے 40 ہزار ٹی ٹی پی والے پاکستان آئے، اس وقت کی حکومت نے 100 سے زائد ہارڈ کور دہشت گردوں کو جیلوں سے نکالا، ایسی غلطیاں نہیں کرنی چاہیے تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آج سے چند سال پہلے 38 ہزار مدارس تھے آج ڈیڑھ لاکھ مدارس ہو چکے ہیں، حکومت نے کلیئر فیصلہ کیا ہوا ہے ہم آخری دم تک لڑیں گے، امید ہے کہ 6 نومبر کو ہمارے مذاکرات آگے جائیں گے۔
نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ٹرمپ کا 6 مئی سے 10 مئی تک بہت فعال کردار تھا، انہوں نے ، یو اے ای، یو کے اور قطر نے بہت رابطہ رکھا، بھارت نے پاکستان پر 80 ڈرونز چھوڑ دیے تھے، 79 ڈرونز کو فوج نے ناکارہ کیا، ایک نے ملٹری تنصیبات کو تھوڑا سا نقصان پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت جو بیانیہ بنانے کے چکر میں تھا وہ بے نقاب ہو گیا، بھارت کے خلاف آپریشن 4 بجے شروع ہوا اور 8 بجے ختم ہوا، 8 بج کر 17 منٹ پر مارکو روبیو کی کال آئی کہ بھارت سیز فائر کے لیے تیار ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام دینے کا خط 11 جون کو لکھا گیا، امریکا نے جو کردار ادا کیا یہ خط اس حوالے سے اس بات کا اعتراف تھا، وہ خط میرے دستخط سے گیا ہے۔
نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام دینے کا خط اگلے سال کے لیے زیرِ غور آئے گا، نوبل انعام کے لیے نامزدگیاں جنوری تک لی جاتی ہیں۔