ملک میں ووٹروں کی تعداد 13 کروڑ 50 لاکھ ہوگئی
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
فائل فوٹو
الیکشن کمیشن نے ووٹروں کے تازہ اعداد و شمار جاری کردیے جس کے مطابق پاکستان میں ووٹروں کی مجموعی تعداد 13 کروڑ 49 لاکھ 49 ہزار 984 تک پہنچ گئی۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں مرد ووٹروں کی تعداد سات کروڑ تئیس لاکھ چون ہزار ایک سو بیاسی جبکہ خواتین ووٹروں کی تعداد چھ کروڑ پچیس لاکھ پچانوے ہزار آٹھ سو دو ہے۔
اس طرح مرد ووٹروں کا تناسب تریپن اعشاریہ باسٹھ فیصد اور خواتین ووٹروں کا تناسب چھیالیس اعشاریہ اڑتیس فیصد ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں ووٹروں کی کل تعداد سات کروڑ اڑسٹھ لاکھ بارہ ہزار پانچ سو نواسی ہے، سندھ میں دو کروڑ بیاسی لاکھ ستاسی ہزار دو سو ایک ہے۔
خیبر پختون خوا میں دو کروڑ تیس ہزار دو سو اکتیس، بلوچستان میں چھپن لاکھ اڑتیس ہزار چوراسی جبکہ اسلام آباد میں بارہ لاکھ گیارہ ہزار آٹھ سو اُناسی رجسٹرڈ ووٹر ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ووٹروں کی
پڑھیں:
کام کی زیادتی اور خاندانی ذمے داریاں، لاکھوں امریکی خواتین نے نوکریاں چھوڑ دیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی خواتین کے لیے رواں سال روزگار کی دنیا تاریخی لحاظ سے غیر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ گزری ہے۔
امریکی بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی تازہ رپورٹ کے مطابق جنوری سے اگست 2025ء کے دوران ملک بھر میں تقریباً چار لاکھ پچپن ہزار خواتین نے اپنی ملازمتیں ترک کر دیں۔ یہ تعداد کورونا وبا کے بعد جاب مارکیٹ سے خواتین کے سب سے بڑے انخلا کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
ماہرین معاشیات اس غیر متوقع رجحان پر حیرانی کا اظہار کر رہے ہیں اور اسے امریکی سماج کی بدلتی ہوئی ترجیحات اور دباؤ کی عکاسی قرار دے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملازمت چھوڑنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور ذاتی و خاندانی ذمہ داریوں کو بنیادی وجہ بتایا۔ بچے کی پیدائش، کام کی زیادتی، مسلسل دباؤ، نیند کی کمی اور گھر و دفتر کے توازن کا بگڑ جانا وہ عوامل ہیں جنہوں نے خواتین کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا۔
متعدد خواتین نے اعتراف کیا کہ وہ اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی تھیں، جبکہ مہنگی نرسریوں اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات نے بھی ان کے فیصلے پر اثر ڈالا۔
امریکا میں ایک نوزائیدہ بچے کی پرورش پر سالانہ 9 ہزار سے 24 ہزار ڈالر خرچ ہوتے ہیں، جو پاکستانی روپے میں تقریباً 25 سے 67 لاکھ کے برابر ہے۔ ایسے میں جب تنخواہ کا بڑا حصہ صرف بچوں کی نگہداشت پر خرچ ہو جائے تو کئی خواتین کے لیے نوکری پر قائم رہنا معاشی طور پر بے معنی محسوس ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بڑھتے ہوئے مالی دباؤ نے نہ صرف خواتین کی افرادی قوت میں شرکت کم کی ہے بلکہ امریکی معیشت میں لیبر گیپ کو بھی گہرا کر دیا ہے۔
ماہرین اس صورتحال کو سماجی پسپائی قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پچھلے سو سال میں امریکی خواتین نے جو معاشی خودمختاری، آزادیٔ رائے اور سماجی کردار حاصل کیا تھا، وہ جدید زندگی کے بے قابو دباؤ اور نظام کی سختیوں کے باعث کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ خواتین کے لیے مساوی مواقع کے نعرے عملاً مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں جبکہ کام اور گھر کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
امریکی میڈیا میں بھی اس رپورٹ پر بحث جاری ہے کہ اگر یہ رجحان برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف خواتین کی نمائندگی کم ہو گی بلکہ کارپوریٹ سطح پر تنوع اور تخلیقی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں گی۔