دہشت گردی کا تسلسل اور قومی ذمے داری کا تقاضا
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
خیبر پختون خوا کے مختلف حصوں، خصوصاً بنوں، لوئر دیر، لکی مروت، وزیرستان اور باجوڑ میں دہشت گردانہ حملوں اور جھڑپوں کی لڑی نے پوری قوم میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ان واقعات میں نہ صرف سیکورٹی فورسز کے جوانوں اور افسروں کی شہادتیں شامل ہیں بلکہ عام شہریوں، سرکاری ملازمین اور بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ یہ سلسلہ محض علاقائی دہشت گردی نہیں رہا بلکہ ایک منظم سازش کا حصہ دکھائی دیتا ہے جس کے پیچھے بیرونی معاونت اور سہولت کاروں کے ہاتھ ہونے کے واضح ثبوت سامنے آ رہے ہیں۔ اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ یہ جنگ آخر کب تک جاری رہے گی؟ اور ہم بطور ریاست اور معاشرہ کن حکمت عملیوں کے ذریعے اپنے شہریوں اور افواج کو محفوظ بنا سکتے ہیں؟ عسکری اور سیکورٹی ذرائع کی رپورٹوں کے مطابق سیکورٹی فورسز نے متعدد دہشت گرد ہلاک کرنے کے دعوے کیے ہیں، جبکہ دشمن کے حملوں میں پاک فوج کے کئی جوان، جن میں ایس ایس جی کے میجر عدنان اسلم جیسے بہادر افسر بھی شامل ہیں، جامِ شہادت نوش کر گئے ہیں۔ یہ افسوسناک واقعات محض اعداد وشمار نہیں؛ یہ خاندانوں کی کربناک کہانیاں ہیں۔ وزیراعظم کی بنوں آمد اور فیلڈ مارشل کے ہمراہ زخمیوں سے ملاقات اور شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت ریاستی عزم کی علامت ہے۔ ساتھ ہی سیکورٹی حکام کی طرف سے یہ دعوے سامنے آئے ہیں کہ دہشت گردوں کے سرغنہ اور سہولت کار بیرونِ ملک، بالخصوص افغانستان میں موجود ہیں اور ان کی پشت پر بھارتی حمایت کے شواہد بھی پیش کیے گئے ہیں۔ یہ بیان داخلی اور خارجی نوعیت کے خطرات کو یکجا کرتا ہے مثلاً ایک طرف اندرونی نیٹ ورک جو مقامی سطح پر حمایت اور راہنمائی فراہم کرتا ہے، دوسری طرف بیرونی عوامل جو شدت پسندی کو ایندھن پہنچاتے ہیں۔
ایسی پیچیدہ صورتِ حال کا تقاضا یہ ہے کہ صرف عسکری ردِ عمل محدود رہے تو معاملات جلد حل نہیں ہوں گے۔ سیکورٹی فورسز کا موثر اور بروقت آپریشن لازمی ہے، یہی وہ لائن ہے جس پر وہ کھڑی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک مربوط قومی حکمت ِ عملی بھی اپنانی ہوگی جس میں ریاستی ادارے، سول سوسائٹی، مذہبی رہنما، مقامی عمائدین اور عام لوگ سب شریک ہوں۔ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے میں یہ اقدامات موثر حکمت عملی کے ساتھ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتے ہیں۔
اولاً، انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید مربوط اور فعال بنانا ہوگا۔ دہشت گردوں کی منصوبہ بندی اکثر مقامی مدد، مالی وسائل اور خفیہ مواصلات کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔ ان سہولت کاروں کو بے نقاب کرنا اور ان کے مالی و مواصلاتی راستوں کو بند کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انٹیلی جنس ایکسچینج، بارڈر کنٹرول اور فورسز کے مابین ہم آہنگی ہی وہ کلید ہے جو کارروائیوں کو بروقت اور مؤثر بنا سکتی ہے۔ دوم، سرحدی انتظامی اقدامات میں فوری بہتری لائی جائے۔ افغانستان سے ملحق سرحدی علاقوں کا کنٹرول ایسے وقت میں انتہائی اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب رپورٹیں بتاتی ہیں کہ کچھ حملہ آور اور ان کے سرغنہ وہاں سے پاکستان میں آکر حملے کرتے ہیں۔ موثر بارڈر مینجمنٹ، مشترکہ نگرانی اور دو طرفہ تعاون ایسے اقدامات ہیں جو سرحد پار سہولت کاری کو کمزور کر سکتے ہیں۔ تیسرا، مقامی سطح پر اعتماد سازی اور عوامی شمولیت کو فروغ دینا ہوگا۔ مقامی رہنماؤں اور قبائلی عمائدین کے ساتھ مسلسل رابطے، فوری شکایات سننے کے مراکز اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے نوجوانوں کو روزگار اور مثبت مواقع دیے جائیں۔ جب تک نوجوانوں کے لیے تعلیم، روزگار اور باعزت مشاغل کے مواقع محدود رہیں گے، وہ شدت پسند گروہوں کے لیے آسان شکار رہیں گے۔ یہ ایک طویل المدتی مقصد ہے مگر اسی کے ذریعے دہشت گردی کی جڑ کمزور ہو سکتی ہے۔ چوتھا، قانون و انصاف کے طریقہ کار کو تیز اور شفاف بنانا ہوگا۔ دہشت گردی کے سہولت کاروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں شفافیت اور بروقت کارروائی نہ صرف مجرمان کو عبرت سکھائے گی بلکہ عوام میں ریاستی عدل و انصاف پر اعتماد بھی بحال کرے گی۔ اس کے علاوہ، اشتہاری اور نفسیاتی حکمت ِ عملی کے ذریعے انتہا پسندانہ بیانیوں کا مقابلہ کرنا بھی لازمی ہے، اس کے لیے میڈیا، تعلیمی ادارے اور مذہبی قائدین کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سفارتی محاذ کو متحرک رکھنا ہوگا۔ اگر واقعی دہشت گردوں کو بیرونی حمایت حاصل ہے تو عالمی سطح پر شواہد جمع کرکے موثر دباؤ بنایا جانا چاہیے تاکہ دہشت گردی کے حامی نیٹ ورکس کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔
اسی طرح بجٹ اور وسائل کی فراہمی بھی ایک حقیقت ہے۔ سیکورٹی اداروں کو صرف ہتھیار اور لاجسٹک سپورٹ ہی درکار نہیں بلکہ معاشرتی ارتقاء، متاثرہ علاقوں کی بحالی اور شہدا کے لواحقین کی بحالی کے لیے مستقل پروگراموں کی ضرورت ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ ان خاندانوں کو جو کسی بھی وجہ سے دہشت گردی کے شکار ہوئے ہوں ہمیشہ کے لیے معاشی اور سماجی تحفظ فراہم کرے تاکہ وہ مایوسی کی زد میں نہ آئیں۔
حرف ِ آخر یہ کہ یہ جنگ صرف فوجی محاذ پر نہیں جیتی جا سکتی۔ میجر عدنان اسلم اور دیگر شہداء کی قربانیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ ہمیں نہ صرف فوری ردعمل بلکہ قومی سطح پر ایک جامع اور پائیدار حکمت ِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس حکمت ِ عملی کا مرکزی نقطہ عوام کا اعتماد اور شراکت ہونا چاہیے۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ جب عوام خود اپنے علاقے کے امن کے محافظ بنیں گے تو دہشت گردی کا گہوارہ خود بخود کمزور پڑے گا۔
یہ وقت انتقام یا نفرت کا نہیں اور نہ ہی بلیم گیم اور پوائنٹ اسکورنگ کا ہے بلکہ ہمیں ایک قوم بن کر خوب سوچ سمجھ کر، منظم اور متحد ہو کر اس بین الاقوامی چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا جس کے لیے ہمیں اپنے نازک قومی مفاد کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے جہاں ایک قلیل اور وسط مدتی حکمت عملی کو بروئے کار لانا ہوگا وہاں ایک ایسی طویل المدتی حکمت ِ عملی بھی اپنانی ہوگی جس میں عسکری، سیاسی، سماجی اور اقتصادی پہلوؤں کو یکجا کیا ہو۔ ورنہ دہشت گردی کی یہ آگ صرف بنوں یا چند سرحدی علاقوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ حاصلِ کلام یہ کہ شہداء کی بے لوث قربانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہماری ذمے داری صرف ان کی یاد میں اظہارِ تعزیت تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ ہم نے مل کر ان کے ایثار کو امن اور مستقل استحکام کے حقیقی منصوبوں میں تبدیل کرنا ہوگا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: دہشت گردی کے کے ذریعے کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
صرف ریاست کی رٹ قائم کرنا نہیں بلکہ عوامی حقوق کا تحفظ بھی حکومتوں کی ذمہ داری ہے
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 20 ستمبر2025ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکمران اپنی ناکامیوں کو تسلیم کریں اور نظام میں بہتری لائیں۔ صرف ریاست رٹ قائم کرنا ہی نہیں عوام کو بنیادی سہولیات اور حقوق کی فراہمی بھی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ کی مقامی یونیورسٹی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پروفیسر شکیل روشن سمیت متعدد نمایاں شخصیات نے جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ تقریب سے امیر صوبہ مولانا ہدایت الرحمن، سابق امیر مو لانا عبدالحق ہاشمی، پروفیسر شکیل روشن اور دیگر راہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ حکمران خوف خدا کرتے ہوئے خلق خدا کو ان کا حق دیں۔(جاری ہے)
اسلام میں اقلیتوں سمیت ریاست کے ہرشہری کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔
انہوں نے بلوچستان میں کرپشن، تعلیم و صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی، توانائی بحران اور نسلی امتیاز کی شدید مذمت کی اور کہا کہ جماعت اسلامی مشترکات کو مدنظر رکھتے ہوئے قوم کو جوڑنے اور اللہ کی حاکمیت کی جدوجہد جاری رکھے گی۔حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان میں کرپشن کا سخت مقابلہ جاری ہے جو مافیا کی سرپرستی کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کے زوال کا سبب بن رہا ہے۔ انہوں نے بلوچستان کی پسماندہ آبادیوں کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی مظلوموں کے ساتھ ہے، بہتر لوگوں کو آگے لانے کے لیے جدوجہد تیز کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو آگے بڑھنے کے مواقعوں کی فراہمی ترقی کی کنجی ہے۔ صوبہ میں تعلیمی صورتحال کا تذکرہ کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمن نے گہری تشویش کا اظہار کیا کہ بلوچستان میں 26 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں جو ایک قومی شرمندگی ہے۔ تعلیم کوئی خیرات نہیں بلکہ ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سورج کی روشنی سے بجلی بنانے کا آسان اور بہتر فارمولا موجود ہے، جسے فوری عمل میں لایا جائے تاکہ عوام کو سستی بجلی مل سکے۔ اجتماعی ترقی اور عدل و انصاف پر زور دیتے ہوئے امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ غلطیوں کی بروقت نشاندہی کرتے رہنا ضروری ہے، کیونکہ آئی ٹی ایم (انفارمیشن ٹیکنالوجی مینجمنٹ) کی بنیاد پر ہی اجتماعی ترقی ممکن ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا تمام قبائل اور برادریوں کی دیکھ بھال حکمرانوں کا فرض ہے اور قبائلی و نسلی امتیاز نفرت کا باعث نہیں بلکہ اتحاد کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ حضور پاک نے انصاف اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کیے۔ زبان اور قوم کی بنیاد پر نہیں بلکہ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اسلام کا مجموعی نظام پوری انسانیت کی فلاح کا ضامن ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے مساوات اور اجتماعیت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ تعلیم یافتہ افراد اجتماعیت کی بہترین مثال بن جاتے ہیں۔