اسلام آباد/
لندن:

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ زراعت، آئی ٹی، معدنیات، ٹورازم اور قابل تجدید توانائی اہم شعبے ہیں جن میں بیرونی ممالک سے سرمایہ کاری آ سکتی ہے۔

لندن سے زوم پر وزیر اعظم کی زیر صدارت پاکستان میں سرمایہ کاری کے حجم، اقتصادی اور تجارتی سرگرمیوں کو بڑھانے کے لیے اعلی سطحی اجلاس ہوا۔

اجلاس سے گفتگو میں وزیراعظم نے کہا کہ تمام اہم شعبوں میں سرمایہ کاری اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے قابل عمل منصوبوں پر کام کیا جائے۔ سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ تجارت کو بھی فروغ دینا ہماری پالیسی کا حصہ ہے، تاکہ ہماری برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ وزارتوں کو اہداف دیے ہیں اور تمام زیر تکمیل منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی ہے۔

انہوں نے ہدایت کی کہ قابل عمل منصوبوں کی نشاندہی کر کے انکو عملی شکل دینے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں اور اس مقصد کے لیے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک روڈ میپ اور تبدیلی کا ایجنڈا بنایا جائے تاکہ اپنے اہداف کی حصولی کے لیے ایک منظم انداز میں آگے بڑھا جا سکے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اقتصادی سرگرمیوں کے روڈ میپ میں نجی شعبے کا کلیدی کردار ہوگا اور انکی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا، ہماری جاری معاشی اور اقتصادی اصلاحات کی پالیسی نے معیشت کو ایک نئی سمت دی ہے اور اس جدت اور شفافیت کی بدولت ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

لندن سے زوم پر ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر ماحولیات مصدق ملک، وفاقی وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک، وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب، وفاقی وزیر تجارت جام کمال، وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ اور وزیر اقتصادی امور احد خان چیمہ شریک تھے۔

Tagsپاکستان.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: پاکستان سرمایہ کاری وفاقی وزیر کے لیے

پڑھیں:

ساختی اصلاحات کے بغیر قلیل مدتی غیر ملکی سرمایہ کاری عارضی قرار

لاہور:

اگرچہ حکومت معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) حاصل کرنے کی کوششیں کر رہی ہے تاہم صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تک گہرے ساختی اصلاحات نافذ نہیں کی جاتیں، پاکستان میں قلیل مدتی سرمایہ کاری کے بہاؤ محض عارضی اور غیر پائیدار رہیں گے۔

مقامی صنعت کاروں کا کہنا ہے کہ چین، متحدہ عرب امارات اور بیلاروس سے حالیہ سرمایہ کاری کے وعدے حوصلہ افزا ضرور ہیں، لیکن انھیں معاشی لحاظ سے انقلابی نہیں کہا جا سکتا۔

ان کے مطابق یہ نئے منصوبے زیادہ تر سرمائے پر مبنی ہیں، جدت یا تحقیق پر نہیں، اور وہ ان کثیرالقومی کمپنیوں کے انخلا کا ازالہ نہیں کر سکتے جنھوں نے ملک میں تحقیق، ترقی اور کارپوریٹ گورننس کے اعلیٰ معیارات قائم کیے تھے۔

ایس ایم انجینئرنگ کے سی ای او ایس ایم اشتیاق نے کہاچینی صنعتی منصوبوں اور یو اے ای کی بینکاری دلچسپی کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے مگر سانوفی اور پی اینڈ جی جیسی کمپنیوں کے انخلا سے ملک کو ادارہ جاتی نقصان پہنچا ہے جس کا ازالہ وقتی سرمایہ کاری سے ممکن نہیں۔

گزشتہ چند برسوں میں پاکستان سے کئی بین الاقوامی کمپنیوں نے اپنا کاروبار بند یا محدود کیا ہے جن میں سانوفی، پراکٹر اینڈ گیمبل (P&G) اور گلیکسو اسمتھ کلائن کنزیومر ہیلتھ کیئر شامل ہیں۔ ٹیلی کام سیکٹر میں ٹیلی نار اور کریم جیسے ادارے بھی مارکیٹ سے نکل چکے ہیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق مالی سال 25ء میں ایف ڈی آئی کا حجم تقریباً 1.84 ارب ڈالر رہا، جو گزشتہ سال کے 1.9 ارب ڈالر سے کچھ کم ہے، جس سے سرمایہ کاروں کے غیر یقینی اعتماد اور کمزور کاروباری ماحول کا پتہ چلتا ہے۔

اشتیاق کا کہنا تھا کہ حالیہ غیر ملکی سرمایہ کاری، بالخصوص توانائی اور مالیاتی شعبوں میں، زیادہ تر سرکاری یا دو طرفہ منصوبوں جیسے سی پیک سے منسلک ہیں۔

یہ مارکیٹ پر مبنی سرمایہ کاری نہیں، اور یہ لازمی طور پر ٹیکنالوجی کی منتقلی، مقامی جدت یا پائیدار روزگار تخلیق میں مددگار نہیں بنتی۔صنعتی ماہرین کے مطابق بڑی دواساز کمپنیوں کا انخلا صرف زیادہ ٹیکسوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ساختی کمزوریوں جیسے سخت قیمت کنٹرول اور کمزور دانشورانہ املاک کے تحفظ کے باعث بھی ہے۔

ٹیلی کام سیکٹر میں ملازمتوں میں کمی اگرچہ عالمی کاروباری تنظیم نو کا حصہ ہے تاہم یہ رجحان پاکستان میں پائیدار سرمایہ کاری کے فقدان کا اشارہ ضرور دیتا ہے۔

مارکیٹ کے سینئر تجزیہ کار محمد سلمان کے مطابق پاکستان کی ایف ڈی آئی پالیسی میں اب بھی پیش بینی اور شعبہ جاتی گہرائی کی کمی ہے۔ ہم ردعمل پر مبنی پالیسی سازی کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔

حکومتیں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے وقتی مراعات دیتی ہیں مگر کاروبار برقرار رکھنے کے لیے پائیدار ماحول فراہم نہیں کرتیں۔

جب تک پالیسیاں مستقل، ٹیکس نظام شفاف اور قانونی نفاذ مضبوط نہیں ہوگا، پاکستان قلیل مدتی سرمایہ کار تو کھینچ لے گا مگر طویل مدتی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کو کھو دے گا۔حکومتی اداروں کا دعویٰ ہے کہ وہ توانائی، انفراسٹرکچر اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں ملک مخصوص سرمایہ کاری کے لیے مختلف ممالک سے رابطے میں ہیں۔

تاہم اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ توجہ اب بھی بڑے سرمائے والے منصوبوں پر ہے، نہ کہ علم و تحقیق پر مبنی شعبوں جیسے آئی ٹی یا فارماسیوٹیکل پر، جو پائیدار اقتصادی اثرات پیدا کر سکتے ہیں۔

ایک اور صنعت کار نے کہا کہ پاکستان میں مینوفیکچرنگ اور برآمدات کے شعبوں میں بے پناہ صلاحیت موجود ہے، لیکن جب تک معاشی عدم استحکام اور زرِ مبادلہ میں غیر یقینی صورتِ حال برقرار رہے گی، سرمایہ کاروں کا آنا جانا ایک معمول رہے گا تبدیلی نہیں آئے گی۔

ماہرینِ معیشت اور صنعت کار متفق ہیں کہ صرف غیر ملکی سرمایہ کافی نہیں۔ حقیقی اعتماد کی بحالی کے لیے اصلاحات پر مبنی طرزِ حکمرانی، کاروبار میں آسانیاں، اور سرمایہ کاروں کے حقوق کا تحفظ ناگزیر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں
  • وزیرِاعظم شہباز شریف کا پاکستان میں گوگل کے دفاتر اور سرمایہ کاری کا خیرمقدم، ہری پور میں اسمبلی لائن خوش آئند قرار
  • حکومت نے بیرون ممالک جانیوالوں کو خوشخبری سنا دی، بڑی پریشانی دور
  • ساختی اصلاحات کے بغیر قلیل مدتی غیر ملکی سرمایہ کاری عارضی قرار
  • پاکستان اور ترکیے کی وزارت داخلہ کا انسداد دہشت گردی سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کا فیصلہ
  • وفاقی وزیر مصدق ملک کا معیشت کی مضبوطی کے لیے برآمدات کے فروغ اور سرمایہ کاری میں اضافے پر زور
  • 39 وزارتوں کو ضم کیا جا رہا ہے، 24 سرکاری ادارے بیچنے کا فیصلہ کیا ہے، وزیر خزانہ
  • سفارتی تعلقات کو سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے استعمال کریں گے، وزیر خزانہ
  • غربت میں کمی کیلئے پیداواری صلاحیت ‘ ویلوایڈ ڈ برآمدات بڑھانا ہونگی : وزیر سرمایہ  کاری
  • غربت کم کرنے کیلیے برآمدات کو بڑھانا ہوگا، وزیر سرمایہ کاری